Tag Archives: Citizenship Amendment Act

اسدالدین اویسی نےمرکزی حکومت کوبنایانشانہ، وزارت خارجہ کی جانب سے ایڈوائزری جاری کر نے پراٹھائے سوال

لوک سبھا انتخابات سے پہلے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کئی مسائل پر بی جے پی زیرقیادت مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایاہے۔ انہوں نے میڈیاسے حیدرآباد حلقہ سے بی جے پی امیدوار کے خلاف جعلی ووٹوں کے الزامات ،سی اے اے اور وزارت خارجہ کی جانب سے ہندوستانیوں کو ایران اور اسرائیل کا سفر کرنے سے روکنے کے لیے ایڈوائزری جاری کرنے جیسے مسائل پر میڈیا سے بات کی۔

اسد الدین اویسی نے شہریت (ترمیم) ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ مرکز میں حکمراں جماعت کو نشانہ بناتے ہوئے، اویسی نے کہا کہ بی جے پی نے ایک غیر آئینی قانون CAA بنایا ہے۔اسے ذات پات کی بنیاد پر بنایا گیا ہے جو کہ برابری کے حق کے خلاف ہے۔ میں نے پارلیمنٹ میں شہریت (ترمیمی) ایکٹ کی کاپی پھاڑ دی۔ ہم سی اے اے کے خلاف تھے اور ہیں۔

 

تلنگانہ میں کانگریس سے اتحاد کے بارے میں اسدالدین اویسی نے کہا کہ وہ ریاست میں کسی کے ساتھ اتحاد میں نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، “اتر پردیش میں ہم نے پی ڈی ایم تشکیل دی ہے۔ تلنگانہ میں ہم نے کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں کیا ہے۔ ہمیں اپنے کام پر یقین ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہمارے امیدوار جیت جائیں گے۔

 

اویسی نے بی جے پی امیدوار کے خلاف فرضی ووٹنگ کے الزامات پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔اسدالدین اویسی نے حیدرآباد حلقہ سے بی جے پی امیدوار مادھوی لتا جانب سے جعلی ووٹنگ کے الزامات پر بھی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہر سال جنوری میں ناموں کی شمولیت کا عمل ہوتا ہے، اس کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے فہرستیں جاری کی جاتی ہیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات سے پہلے ووٹرز کی حتمی فہرست جاری کی جاتی ہے۔ ناموں کو ہٹانا اور شامل کرنے میں میرا کیا کردار ہے؟

 

اب اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس کے پیش نظر مرکزی وزارت خارجہ کی جانب سے ہندوستانیوں کو ایران اور اسرائیل جانے سے روکنے کے لیے ایک ایڈوائزری جاری کی گئی ہے۔ مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ نے اس پر میڈیا سے کہا، “میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ حکومت ہند اور اسرائیل کی حکومت نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب نریندر مودی کی حکومت نے تب 6000 ملازمین کو اسرائیل بھیجا تھا۔ اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر کے انہیں اسرائیل بھیجا گیا اور اب وہ ایڈوائزری جاری کر رہے ہیں۔ اویسی نے مزید کہا کہ پی ایم مودی کو ان 6000 ملازمین کو جلد ہندوستان واپس لانا چاہئے۔

Rajnath Singh to News18:یکساں سول کوڈکانفاذہماراعزم،این آرسی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں: راج ناتھ سنگھ

نئی دہلی: مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جمعہ کو کہا کہ یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کو لاگوکرنا مودی حکومت کا عہد ہے۔ انہوں نے اپوزیشن پر الزام لگایا کہ وہ اس معاملے پر ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جمعہ کو نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہول جوشی سے بات کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے کہا، ‘میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ منشور کے علاوہ، یہ ہمارا عزم ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کو لاگو کیا جائے۔ یہ ہمارا عرصہ دراز سے مانناہے۔ حزب اختلاف کے بہت سے لوگ بلا ضرورت ذات پات، فرقہ یا مذہب کی بنیاد پر اس مسئلے کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اپوزیشن کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہ یو سی سی سے مسلمانوں کے شریعت اور حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کے حقوق چھین لیں گے، سنگھ نے کہا، ‘نہیں، نہیں۔ ہر ایک کو اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنی چاہیے۔ میرا ماننا ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اور اس سے کسی کے عقیدے یا روایات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔

راجناتھ سنگھ نے کہا کہ ‘ان کے پاس مسائل کی کمی ہے اور ان کے پاس ایسا کوئی ایجنڈا نہیں ہے کہ وہ عوام کو یقین دلائیں کہ اگر ان کی حکومت بنتی ہے تو وہ ایسا کریں گے۔ یہ ان تمام سیاسی جماعتوں پر عوام میں عدم اعتماد کی علامت بھی ہے۔ لوگ ان کی باتوں پر بھی یقین نہیں کرتے۔ اب اپوزیشن نے اس حوالے سے طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ شہریت ترمیمی قانون کسی کی شہریت چھیننے والا نہیں ہے۔

 

جب وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے پوچھا گیا کہ شہریت ترمیمی قانون کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد احتجاج کی کمی ہےتو انہوں نے کہا کہ یہ اقدام اپوزیشن کے تئیں لوگوں میں عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا تھا کہ اگر سی اے اے لاگو ہوتا ہے تو لوگ ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔ اس پر ممتا بنرجی پر جوابی حملہ کرتے ہوئے وزیر نے کہا، ‘صحت مند جمہوریت میں لوگوں کو اس طرح گمراہ نہیں کیا جانا چاہیے اور مجھے لگتا ہے کہ ممتا کو بھی اس حقیقت کا علم ہو گا کہ اس شہریت قانون کا مطلب ہے کہ کسی کی شہریت ختم نہیں ہوگی بلکہ شہریت ملے گی۔

 

سنگھ نے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز(NRC) کی مخالفت پر بھی سوال اٹھایا اور پوچھا کہ اس اقدام میں کیا غلط ہے۔ “کسی کو ان لوگوں کے رجسٹریشن پر اعتراض کیوں ہونا چاہئے جو ہندوستان کے شہری ہیں؟ یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر کوئی ہندوستانی نسل کا نہیں ہے اور مسلمان ہے اور کچھ خاص حالات میں ہندوستانی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے شہریت نہیں ملے گی۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہم وہ لوگ نہیں جو ذات پات، مسلک اور مذہب کی سیاست کرتے ہیں۔ اگر ایسے خاص حالات ہیں اور اگر کوئی ہندوستانی شہریت لینا چاہتا ہے تو ہماری حکومت اس پر بھی غور کر سکتی ہے۔ میں نے خود [پاکستانی گلوکار] عدنان سمیع کو اس وقت بھی شہریت دی ہے جب یہ بل مرتب کیاجارہاتھا۔

مرکزی وزیردفاع راج ناتھ نے مزید کہا: “این آر سی سے کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے۔ لوگوں میں غیر ضروری خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اپوزیشن کو افواہوں یا غلط معلومات پھیلانے سے دور رہنا چاہیے۔ اپوزیشن عوام کو بے وقوف نہ بنائے۔ اپوزیشن میں عوام کا سامنا کرنے کی ہمت ہونی چاہیے اور انہیں بے وقوف نہیں بنانا چاہیے۔‘‘

رائزنگ بھارت سمٹ 2024 :شہریت ترمیمی قانون، تاریخ میں کی گئی غلطی کودرست کرنے کی کوشش

وزیر خارجہ ایس۔ جے شنکر نے ملک میں شہریت ترمیمی قانون 2019 کے نفاذ پر بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کئی ممالک پر لوگوں کو اس طریقے سے شہریت دی گئی ہے۔ امریکہ سے لے کر یورپ تک شہریت مذہبی یا تاریخی بنیادوں پر دی جاتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بارے میں امریکہ سے لے کر یورپ تک کے ممالک کو بتایاہے۔نیوز۱۸کےزیراہتمام منعقد ہ رائزنگ بھارت سمٹ 2024 میں پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایس جے شنکر نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ ،تاریخْ میں کئی غلطی کو درست کیاجارہاہے۔

نیوز 18 کے لیڈرشپ کنکلیو ‘رائزنگ انڈیا 2024’ کے پلیٹ فارم پر بات کرتے ہوئے، وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ مودی کی ضمانتیں ہندوستان اور بیرون ملک بھی کام کرتی ہیں۔ وزیر خارجہ ایس۔ جے شنکر سے جب سوال کیاگیاکہ شہریت ترمیمی قانون پر، آپ غیر ملکی ہم منصبوں کو کیسے سمجھائیں گے کہ یہ امتیازی قانون نہیں ہے؟، اس قانون کے تحت مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا؟ اس سوال کے جواب میں ایس جے شنکر نے کہا، ‘جب سی اے اے پاس ہوا تھا، تب بھی میں بولا تھا اور اب بھی بول رہا ہوں۔

 

میں نے برسلز میں اپنے یورپی اور یورپی یونین کے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ شہریت کے حوالے سے اپنے متعلقہ قوانین کو دیکھیں، شہریت دینے کے معیار کو دیکھیں اور مجھے بتائیں کہ کیا آپ کے ملک میں مخصوص کیٹیگریز کی شناخت کے لیے کوئی معیار نہیں ہے۔ ہر کسی کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے، چاہے وہ زبان ہو، مذہب ہو یا تاریخ۔ میں ریکارڈ پر بہت سی مثالیں دے رہا ہوں۔

رائزنگ انڈیا کے پلیٹ فارم سے مخاطب ہوکر انہوں نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ سے لے کر یورپ تک مذہب، زبان یا تاریخ کی بنیاد پر شہریت دی گئی ہے اور ہم نے امریکہ سے یورپ تک کے ممالک کو اس بارے میں بتایا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں آپ کو ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری تاریخ میں کسی مسئلے کی ایک خاص صورت حال کو درست کرنے کا معاملہ ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا کہ ‘جب میں باہر جا کر خارجہ پالیسیوں کے بارے میں وضاحت کرتا ہوں تو بتاتا ہوں کہ مودی کی گارنٹی بیرون ملک اتنی ہی موثر ہے جتنی ہندوستان میں ہے۔’ نیوز 18 کے میگا اوپینین پول کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سچ پوچھیں تو رائے شماری نے مجھے حیران نہیں کیا۔ قوم کے لیے فخر کا جذبہ بلند ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ بجلی آئے گی، صحت کی سہولتیں بہتر ہوگی، سڑکیں تعمیر کی جائے گی۔

سی اے اے کے نفاذ پر روک لگانے سےسپریم کورٹ کاانکار،مرکز سےطلب کیاجواب، 9اپریل کو ہوگی اگلی سماعت

سپریم کورٹ میں آج ملک بھر سے سی اے اے کے خلاف دائر 200 سے زیادہ درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی۔ فی الحال سپریم کورٹ نے سی اے اے پر کسی قسم کی پابندی لگانے سے انکار کر دیا ہے۔ عدالت نے مرکزی حکومت سے سی اے اے پر تین ہفتوں کے اندر جواب طلب کیا ہے۔ سماعت کے دوران، سی جے آئی نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ انہیں نوٹیفکیشن پر پابندی کی درخواست کا جواب دینے کے لیے کتنا وقت درکار ہے۔ جس پر مرکز کی جانب سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل نے 4 ہفتے کا وقت مانگا تھا۔ تاہم عدالت نے مرکز کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے تین ہفتے کا وقت دیا ہے، اب اس معاملے کی اگلی سماعت 9 اپریل کو ہوگی۔

درخواست گزاروں میں سے ایک کی طرف سے وکیل کپل سبل نے مرکز کو وقت دینے کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ سی اے اے چار سال سے نافذ ہے۔ ایک بار لوگوں کو شہریت مل جائے تو اسے واپس کرنا مشکل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد یہ درخواستیں بے اثر ہو جائیں گی۔ کپل سبل نے کہا کہ اس نوٹیفکیشن کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔ ہم وقت کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے، چار سال بعد کیا عجلت ہے؟ اس کے ساتھ ہی کپل سبل نے عدالت سے نوٹیفکیشن پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ پہلے سے جاری حکم کے مطابق آسام کے مقدمات کی الگ سے سماعت کی جائے گی۔ درخواست گزاروں کے وکیلوں میں سے ایک نے کہا کہ 6B(4) کہتا ہے کہ CAA آسام کے بعض قبائلی علاقوں پر لاگو نہیں ہوگا۔ میگھالیہ، تریپورہ، میزورم مکمل طور پر باہر ہیں۔ سی جے آئی نے کہا کہ پوری ریاست باہر نہیں ہے، لیکن صرف وہی حصے جو 6ویں شیڈول میں شامل ہیں اس سے باہر ہیں۔ سالیسٹر جنرل نے کہا کہ شروع سے ہی ایسا ہے۔

سی جے آئی نے مرکز سے کہا کہ حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت ملے گا اور اگلی سماعت 2 اپریل کو ہوگی۔ سینئر وکیل سدھارتھ لوتھرا نے کہا کہ یونین نے چار ہفتوں تک کاؤنٹر فائل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس دوران وکیل اندرا جے سنگھ نے کہا کہ انہیں اتنا وقت دیں لیکن اس دوران شہریت نہ دیں۔ مرکز نے کہا کہ اس معاملے پر کل 236 عرضیاں داخل کی گئی ہیں، 2 ہفتوں میں جواب داخل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

شہریت ترمیمی قانون :مسلم لیگ اوراسدالدین اویسی کے بعد کیرالہ حکومت بھی سپریم کورٹ سے رجوع

کیرالہ حکومت نے CAA کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ کیرالہ حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں شہریت ترمیمی قانون 2019 اور شہریت ترمیمی قواعد 2024 کے نفاذ پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کیرالہ حکومت نے سی اے اے پر روک لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ سی اے اے قانون کو لاگو کرنے میں چار سال کی تاخیر ہوئی ہے۔جس کا مطلب ہے کہ اس قانون کو نافذ کرنے کی فوری ضرورت نہیں ہے اور اس بنیاد پر صرف سی اے اے (شہریت) ترمیمی ایکٹ پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔

آئی یو ایم ایل اور اسدالدین اویسی نے بھی سی اے اے کے خلاف دائر کی ہیں درخواستیں

کیرالہ کی انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) پارٹی اور اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی سی اے اے کے خلاف درخواستیں دائر کی ہیں۔ سپریم کورٹ نے سی اے اے کے خلاف دائر درخواستوں پر 19 مارچ کو سماعت کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ درخواستوں میں الزام لگایا گیا ہے کہ سی اے اے قانون غیر آئینی اور مذہب پر مبنی ہے۔ درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون آسام معاہدے 1985 کی بھی خلاف ورزی ہے۔

 

سی اے اے کے خلاف عرضی داخل کرنے والوں میں ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا بھی شامل ہے جس نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب مذہب کی بنیاد پر ہندوستان میں قانون بنایا گیاہے۔ شہریت سی اے اے کے خلاف 200 سے زیادہ درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کو پارلیمنٹ نے دسمبر 2019 میں منظوری دی تھی اور حال ہی میں حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اور پورے ملک میں سی اے اے کو نافذ کیا ہے۔

سی اے اے میں مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم کا شکار ہونے کے بعد بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے ہندوستان آنے والے پناہ گزینوں کو ہندوستانی شہریت فراہم کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔

قانون کے مطابق ہندو، سکھ، بدھ، پارسی، جین اور عیسائی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد جو ان تینوں ممالک سے 31 دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان آئے تھےانہیں شہریت دی جائے گی۔ تاہم مسلم کمیونٹی کو اس قانون سے باہر رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے اس قانون کی مخالفت کی جارہی ہے۔

امریکہ کےتبصرے پرہندوستان کاجواب، وزارت خارجہ نےکہا۔ شہریت ترمیمی قانون،ملک کااندرونی معاملہ ہے

ہندوستان نے شہریت ترمیمی قانون (CAA) پر امریکہ کے تبصرے کا جواب دیا ہے۔ ہندوستانی وزارت خارجہ نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون، ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ سی اے اے کے نفاذ پر امریکہ کا بیان غلط اور غیر منصفانہ ہے۔ہندوستانی وزارت خارجہ کا یہ ردعمل امریکی محکمہ خارجہ کے اس بیان پر آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ہمیں 11 مارچ کو شہریت ترمیمی قانون کے نوٹیفکیشن پر تشویش ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا تھا کہ ہم اس ایکٹ پر عمل درآمد کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔ ملر نے کہا تھا، مذہبی آزادی کا احترام اور قانون کے تحت تمام کمیونٹیز کے لیے مساوی سلوک بنیادی جمہوری اصول ہیں۔

ہندوستان نے امریکہ کے بیان کوقرار دیا غیر منصفانہ

امریکی بیان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ 2019 ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے اور اس پر عمل درآمد سے متعلق امریکہ کا بیان غلط اور غیر منصفانہ ہے۔

 

وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، “یہ قانون افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ہندو، سکھ، بدھ، پارسی اور عیسائی برادریوں سے تعلق رکھنے والی مظلوم اقلیتوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتا ہے جو 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے ہندوستان آئے تھے۔” CAA شہریت دینے کےلئے، اس سے کسی کی شہریت نہیں چھینی جائے گی۔وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، سی اے اے بے وطنی کے مسئلے کو حل کرتا ہے، انسانی وقار فراہم کرتا ہے اور انسانی حقوق کی حمایت کرتا ہے۔

اس قدم کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے : وزارت خارجہ

وزارت خارجہ کےترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، “جہاں تک امریکی محکمہ خارجہ کے بیان کا تعلق ہے۔ ہندوستان کا آئین اپنے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اقلیتوں کے تئیں کسی قسم کی تشویش یا رویے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

جو لوگ ہندوستان کی تکثیری روایات اور خطے کی تقسیم کے بعد کی تاریخ کے بارے میں محدود سمجھ رکھتے ہیں انہیں ان پر لیکچر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جس نیت سے یہ قدم اٹھایا گیا ہے،ہندوستان کے شراکت داروں اور خیر خواہوں کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔

CAA:وزیرداخلہ امت شاہ کابیان ، کہا۔شہریت ترمیمی قانون کوکبھی واپس نہیں لیاجائیگا

نئی دہلی: CAA یعنی شہریت ترمیمی قانون ملک میں نافذ ہو گیا ہے۔ اس پر چل رہی سیاست کے درمیان مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے واضح کیا کہ CAA یعنی شہریت ترمیمی قانون کو کبھی واپس نہیں لیا جائے گا۔ نیوز ایجنسی اے این آئی کو دیے گئے انٹرویو میں امت شاہ نے کہا، ‘سی اے اے قانون کبھی واپس نہیں لیا جائے گا۔ اپنے ملک میں، کسی کو بھی ہندوستانی شہریت فراہم کرنا ہمارا بنیادی حق ہے۔ ہم اس کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس سے پہلے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے منگل کو یقین دہانی کرائی تھی کہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ میں کسی کی شہریت چھیننے کا کوئی لزوم نہیں ہے۔

اپوزیشن کے اس الزام پر کہ ‘بی جے پی سی اے اے کے ذریعے نیا ووٹ بینک بنا رہی ہے’، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا، ‘اپوزیشن کے پاس کوئی اور کام نہیں ہے… ان کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جو کہتے ہیں وہ نہیں کرتے۔ وزیر اعظم نریندرمودی کی تاریخ یہ ہیں کہ بی جے پی نے جو کچھ بھی کہا اور نریندر مودی نے جو کچھ بھی کہا وہ پورا کیاگیاہے۔ پی ایم مودی کی ہر گارنٹی پوری ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ سرجیکل اسٹرائیکس اور فضائی حملوں میں سیاسی فائدہ ہے تو کیا ہمیں دہشت گردی کے خلاف کارروائی نہیں کرنی چاہئے؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آرٹیکل 370 کو ہٹانا بھی ہمارے سیاسی فائدے کے لیے تھا۔ ہم 1950 سے کہہ رہے ہیں کہ ہم آرٹیکل 370 کو ہٹا دیں گے۔

 

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے سی اے اے نوٹیفکیشن پر مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے تبصرے پر کہا، ‘وہ دن دور نہیں جب بی جے پی وہاں (مغربی بنگال) اقتدار میں آئے گی اور دراندازی کو روکے گی۔ اگر آپ اس قسم کی سیاست کرتے ہیں اور قومی سلامتی کے اتنے اہم مسئلے پر خوشامد کی سیاست کرتے ہیں اور مہاجرین کو شہریت دینے کی مخالفت کرتے ہیں تو عوام آپ کے ساتھ نہیں ہو گی۔ ممتا بنرجی پناہ مانگنے والے اور دراندازی کرنے والے میں فرق نہیں جانتیں۔’

اسی دوران ، دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کا یہ بیان کہ پناہ گزینوں کو شہریت دینے سے چوری اور عصمت دری کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے امت شاہ نے کہا، ‘کرپشن بے نقاب ہونے کے بعد دہلی کے وزیر اعلیٰ اپنا توازن کھو چکے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ یہ سب لوگ ہندوستان میں آ چکے ہیں اور رہ رہے ہیں۔ اگر انہیں اتنی ہی فکر ہے تو وہ بنگلہ دیشی دراندازوں کی بات کیوں نہیں کرتے یا روہنگیا کی مخالفت کیوں نہیں کرتے؟ وہ ووٹ بینک کی سیاست کر رہے ہیں، وہ تقسیم کا پس منظر بھول چکے ہیں اور انہیں مہاجر خاندانوں سے ملنا چاہیے۔

‘کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں’

جب سی اے اے کے بعد شہریت حاصل کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ بہت سارے لوگ ہیں، ابھی کوئی گنتی نہیں ہے۔ منظر عام پر لائی گئی غلط معلومات کی وجہ سے بہت سے لوگ درخواست داخل کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ میں ان تمام لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں جنہوں نے یہاں درخواست دی ہے اور انہیں نریندر مودی حکومت پر بھروسہ ہے کہ آپ کو کسی بھی طرح شہریت دی جائے گی۔ یہ قانون آپ کو پناہ گزین کے طور پر قبول کر رہا ہے۔ اگر آپ غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں تو آپ کے خلاف کوئی فوجداری مقدمہ نہیں ہوگا۔کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر کسی کو مساوی حقوق دیئے جائیں گے کیونکہ وہ ہندوستان کے شہری بنیں گے۔

CAA: تین ممالک سےکروڑوں لوگ ہندوستان آئیں گے توانہیں روزگارکون دےگا؟ اروند کیجریوال نے اٹھایا سوال

نئی دہلی. شہریت ترمیمی قانون 2019 کے نوٹیفکیشن کے بعد ملک میں سیاسی ہلچل تیز ہوگئی ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ سی اے اے کے نفاذ کے بعد تین ممالک سے کروڑوں لوگ ہندوستان آئیں گے۔ ایسے میں انہیں روزگار کون فراہم کرے گا؟ وزیراعلیٰ کیجریوال نے کہا کہ یہ ملک کے لیے خطرناک ہے۔ سی اے اے کی دفعات کے تحت، اگر بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان میں اقلیتوں کو تشدد یا کسی اور طریقے سے انہیں بے گھر کیاجاتا ہے تو مکمل چھان بین کے بعد انہیں ہندوستانی شہریت دی جا سکتی ہے۔ اس میں ان تینوں ممالک میں رہنے والے ہندو، سکھ، بدھ، عیسائی، پارسی جیسی اقلیتی برادریوں کے لوگوں کو یہ سہولت ملے گی۔

سی اے اے کے نفاذ پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ دوسری طرف ہمارے نوجوانوں کو روزگار کے لیے مارا پیٹا جا رہا ہے اور حکومت روزگار کا حل تلاش کرنے کے بجائے سی اے اے کی بات کر رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب اگر افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتیں ہندوستانی شہریت لینا چاہتی ہیں تو انہیں مل جائیں گی۔ مرکزی حکومت ہمارے بچوں کو روزگار نہیں دے رہی ہے جبکہ پاکستان سے آنے والوں کو روزگار دینے کی بات کر رہی ہے۔

 

‘اگر آپ انہیں لانا چاہتے ہیں تو لے آئیں…’

سی ایم کیجریوال نے کہا، ‘یہ تینوں (پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش) غریب ملک ہیں۔ جیسے ہی ہندوستان کے دروازے کھلیں گے، بہت بڑا ہجوم ہندوستان آجائے گا۔ اگر ڈھائی کروڑ میں سے ڈیڑھ کروڑ لوگ ہندوستان آتے ہیں تو انہیں روزگار کون فراہم کرے گا؟ بی جے پی کا سارا کھیل گندی سیاست کا حصہ ہے۔ ان لوگوں کو لایا گیا اور چن چن کر ان علاقوں میں بسایا گیا جہاں بی جے پی کے ووٹ کم ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں۔

دہلی کے وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ ‘ہریانہ حکومت روزگار کی کمی کی وجہ سے بچوں کو اسرائیل بھیج رہی ہے اور پاکستانیوں کو ہندوستان لا کر روزگار فراہم کرنا چاہتی ہے۔ ہر ملک پڑوسی ممالک کو روکنے کے لیے اپنی دیواریں مضبوط کرتا ہے، لیکن بی جے پی ان ممالک کے غریبوں کو لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سی ایم کیجریوال نے کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں 11 لاکھ سے زیادہ تاجر اور صنعت کار بی جے پی کی پالیسیوں سے تنگ آکر ہندوستان چھوڑ گئے۔ وہ روزگار فراہم کرتے تھے۔ اگر آپ ان کو لانا چاہتے ہیں تو لے آئیں تاکہ وہ روزگار فراہم کر سکیں۔

سی اے اے کی دفعات کیا ہیں؟

شہریت (ترمیمی) ایکٹ 2019 یعنی CAA کے نفاذ سے متعلق قوانین کو پیر کو مطلع کیا گیا۔ سی اے اے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے غیر دستاویزی غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دینا ہے۔ سی اے اے قوانین کے اجراء کے بعد، اب مودی حکومت 31 دسمبر 2014 تک ہندوستان آنے والے مظلوم غیر مسلم تارکین وطن (ہندو، سکھ، جین، بدھ، پارسی اور عیسائی) کو ہندوستانی شہریت دینا شروع کردے گی۔ شہریت (ترمیمی) قانون کو مرکزی حکومت نے سال 2019 میں پارلیمنٹ میں پاس کیا تھا۔ اس بل کا مقصد 6 کمیونٹیز (ہندو، عیسائی، سکھ، جین، بدھ اور پارسی) کے پناہ گزینوں کو ہندوستانی شہریت دینا ہے جو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہیں۔ تاہم کئی سیاسی جماعتیں اس بل میں مسلم کمیونٹی کو شامل نہ کرنے کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔

MHA on CAA:سی اے اے کے نفاذ سے مسلمانوں کوپریشان ہونےکی ضرورت نہیں ہے: وزارت ِداخلہ

ہندوستان کی مسلم برادری کو ان کے حقوق پر عمل کرنے کی جو آزادی اور موقعے حاصل ہیں اور جن پر دوسری مذہبی برادریوں سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی شہریوں کی طرح عام طور پر عمل کرتے آئے ہیں ان میں کسی طرح کی تخفیف کیے بغیر سی اے اے (شہریت ترمیمی ایکٹ) 2019 کے تحت، اس قانون سے ان مستفید کےلیے شہریت کی درخواست دینے کی عمر 11 سال سے کم کر کے پانچ سال کر دی گئی ہے جنہیں افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر ستایا گیا تھا اور جو 31 دسمبر 2014 سے پہلے یا اس سے پہلے ہندوستان میں اس مقصد سے داخل ہو گئے تھے کہ ان کے ساتھ ایک سخاوت والا رویہ اختیار کیا جائے گا تاکہ انہیں ستائے جانے کا ازالہ کیا جا سکے۔

ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں پر اس ایکٹ کے کیا اثرات ہیں؟

ہندوستا نی مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سی اے اے میں ان کی شہریت پر اثر نہیں ڈالا گیا ہے اور اس کا موجودہ 18 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جنہیں اپنے ہندو ہم منصبوں کی طرح مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اس قانون کے بعد کسی بھی ہندوستانی شہری سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز پیش کرنے کو نہیں کہا جائے گا۔

کیا بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان میں غیر قانونی مسلمان تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا کوئی بندوبست یا معاہدہ ہے؟

 

ہندوستان کے پاس ان ممالک میں سے کسی کے ساتھ بھی تارکین وطن کو ان ممالک میں واپس بھیجنے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ یہ شہریت ایکٹ غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری سے متعلق نہیں ہے اور اس وجہ سے مسلمانوں اور طلباء سمیت لوگوں کے ایک طبقے کی یہ تشویش کہ سی اے اے مسلم اقلیتوں کے خلاف ہے بلاجواز ہے۔

غیر قانونی مہاجر کون ہے؟

شہریت ایکٹ، 1955 کی طرح، یہ سی اے اے غیر قانونی تارکین وطن کو ایک غیر ملکی کے طور پر گردانتا ہے جو درست دستاویزات کے بغیر بھارت میں داخل ہوا ہے۔

اس ایکٹ کا اسلام کی شبیہ پر کیا اثر ہوا؟

ان تینوں مسلم ممالک میں اقلیتوں پر ظلم و ستم کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کا نام بری طرح داغدار ہوا۔ تاہم، اسلام، ایک پرامن مذہب ہونے کے ناطے، مذہبی بنیادوں پر کبھی بھی نفرت/ تشدد / کسی قسم کے ظلم و ستم کی تبلیغ یا تجویز نہیں کرتا ہے۔ یہ قانون ظلم و ستم کےتئیں ہمدردی اور ازالے کو ظاہر کرتا ہے، اسلام کو ظلم و ستم کے نام پر داغدار ہونے سے بچاتا ہے۔

کیا مسلمانوں کے لیے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ ہے؟

نہیں، دنیا میں کہیں سے بھی مسلمانوں پر شہریت قانون کے سیکشن 6 کے تحت ہندوستانی شہریت حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، جس کا تعلق اُس شہریت سے ہے جو کسی کو فطری طور پر ملی ہے ۔

ترمیم کی کیا ضرورت ہے؟

ان تینوں ممالک کی مظلوم اقلیتوں پر رحم کرنے کے لیے، یہ قانون انھیں بھارت کی تہذیب میں ہمیشہ سے پائے جانے والی ثقافت کے طور پر انہیں ان کی خوشی اور خوشحال مستقبل کے لیے بھارتی شہریت دی جائے گی ۔ شہریت دینے کے نظام پر عمل کرنے اور غیر قانونی تارکین وطن پر قابو پانے کو اس قانون کی ضرورت تھی ۔

حکومت کے سابقہ اقدامات کیا ہیں؟

2016 میں مرکزی حکومت نے ان تینوں ممالک کی اقلیتوں کو بھی بھارت میں رہنے کے لیے طویل مدتی ویزا کا اہل بنایا تھا ۔

کیا کسی بیرونی ملک سے آنے والے مسلم مہاجرین پر کوئی پابندی ہے؟

سی اے اے کے تحت فطری طور پر شہری ہونے کے قوانین کو منسوخ نہیں کرتا ہے۔ لہذا، کوئی بھی شخص بشمول کسی بھی بیرونی ملک سے آنے والے مسلم تارکین وطن، جو بھارتی شہری ہونے کی خواہش رکھتے ہیں، موجودہ قوانین کے تحت اس کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ یہ ایکٹ کسی بھی مسلمان کو، جو ان 3 اسلامی ممالک میں اپنے اسلام پر عمل کرنے کی وجہ سے ستایا جاتا ہے، کو موجودہ قوانین کے تحت بھارتی شہریت کے لیے درخواست دینے سے نہیں روکتا ہے۔

 

CAA: حکومت،شہری ترمیمی ایکٹ 2019 کوکریں منسوخ، مشترکہ بیان میں ملی تنظیموں کی مانگ

نئی دہلی: ملک کی متعدد تنظیموں نے مساوات و انصاف کے اصولوں کو مجروح کرنے والا قانون ’سی اے اے‘ (شہریت ترمیمی قانون ) کے خلاف ایک مشترکہ پریس بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات سے عین پہلے اس قانون کے نفاذ کا اعلان کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب انتخابی فائدے حاصل کرنے کے لئے  کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ناپسندیدہ عمل اور قابل مذمت فیصلہ ہے۔ کیونکہ اس میں ایسی  شقیں متعارف کرائی گئی ہیں جو ہندوستانی آئین میں درج مساوات اور سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 14 تمام شہریوں میں مساوات کی ضمانت دیتا ہے اور مذہب کی بنیاد پر افراد کے درمیان امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔

ملی تنظیموں کا کہناہے شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 2 میں (b) شق کا اندراج کرکے تعصب پر مبنی رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان سے آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین ، پارسی یا عیسائی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ذکر  کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان میں سے جو دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوچکے ہیں ، ان کے ساتھ تارکین وطن جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ  مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر اس ایکٹ میں شامل کرنے سے گریز کیا گیا ہے جس سے شہریوں میں مساوی حقوق کے اصول کو شدید دھچکا لگا ہے۔

ملی تنظیموں کا کہا کہ  مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر اس ایکٹ میں شامل نہ کرنے سے امتیازی قانون سازی ، ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے کو کمزور اور تنوع کے بنیادی اصولوں کو ختم کر رہی ہے۔  پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی بل کی منظوری سے ہونے والے نقصانات کو محسوس کرتے ہوئے ملک کے  مسلمانوں اور معاشرے کے دیگر طبقات  نے ملک گیر احتجاجی مظاہرے کئے تھے ۔ اب جبکہ عام انتخابات قریب ہیں تو اس قانون کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے، یہ قابل اعتراض ہے ۔ یہ تنگ نظر سیاسی مفادات حاصل کرنے والا رویہ ہے  جو معاشرے کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرکےسیاسی مقاصد حاصل کرنے کو ظاہر کرتا ہے۔

ملی تنظیموں کا ماننا ہے کہ شہریت ، مساوات اور برابری کے اصولوں کی بنیاد پر دی جانی چاہئے۔ اس میں ذات پات، مذہب و ملت یا نسل و برادری کی کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے۔ عدم مساوات اور ذات پات کا تعصب  ہمارے قومی سیکولرزم کے تانے بانے کو بکھیر دے گا۔ ہم حکومت سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شہری ترمیمی ایکٹ 2019 کو منسوخ کرے اور ہمارے آئین میں شمولیت اور مساوات کی اقدار کو برقرار رکھے۔

دستخط کنندگان کے نام اور عہدے

مولانا محمود اسعد مدنی : صدر، جمعیت علماء ہندسید سعادت اللہ حسینی : امیر، جماعت اسلامی ہند مولانا اصغر امام مہدی سلفی:  امیر، جمعیت اہل حدیث ہندمولانا فیصل ولی رحمانی : امیر، امارت شریعہ مولانا انیس الرحمن قاسمی: نائب صدر، آل انڈیا ملی کونسلمولانا یاسین عثمانی بدایونی: نائب صدر،  آل انڈیا ملی کونسلملک معتصم خاں :  نائب امیر، جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر: نائب امیر، جماعت اسلامی ہندمولانا حکیم الدین قاسمی: جنرل سکریٹری، جمعیت علماء یندڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس: مولانا نیاز فاروقی: شیخ مجتبیٰ فاروقی :ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں: سابق چیئرمین، دہلی مائنارٹیز