Tag Archives: Indian Muslim

MHA on CAA:سی اے اے کے نفاذ سے مسلمانوں کوپریشان ہونےکی ضرورت نہیں ہے: وزارت ِداخلہ

ہندوستان کی مسلم برادری کو ان کے حقوق پر عمل کرنے کی جو آزادی اور موقعے حاصل ہیں اور جن پر دوسری مذہبی برادریوں سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی شہریوں کی طرح عام طور پر عمل کرتے آئے ہیں ان میں کسی طرح کی تخفیف کیے بغیر سی اے اے (شہریت ترمیمی ایکٹ) 2019 کے تحت، اس قانون سے ان مستفید کےلیے شہریت کی درخواست دینے کی عمر 11 سال سے کم کر کے پانچ سال کر دی گئی ہے جنہیں افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر ستایا گیا تھا اور جو 31 دسمبر 2014 سے پہلے یا اس سے پہلے ہندوستان میں اس مقصد سے داخل ہو گئے تھے کہ ان کے ساتھ ایک سخاوت والا رویہ اختیار کیا جائے گا تاکہ انہیں ستائے جانے کا ازالہ کیا جا سکے۔

ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں پر اس ایکٹ کے کیا اثرات ہیں؟

ہندوستا نی مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سی اے اے میں ان کی شہریت پر اثر نہیں ڈالا گیا ہے اور اس کا موجودہ 18 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جنہیں اپنے ہندو ہم منصبوں کی طرح مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اس قانون کے بعد کسی بھی ہندوستانی شہری سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز پیش کرنے کو نہیں کہا جائے گا۔

کیا بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان میں غیر قانونی مسلمان تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا کوئی بندوبست یا معاہدہ ہے؟

 

ہندوستان کے پاس ان ممالک میں سے کسی کے ساتھ بھی تارکین وطن کو ان ممالک میں واپس بھیجنے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ یہ شہریت ایکٹ غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری سے متعلق نہیں ہے اور اس وجہ سے مسلمانوں اور طلباء سمیت لوگوں کے ایک طبقے کی یہ تشویش کہ سی اے اے مسلم اقلیتوں کے خلاف ہے بلاجواز ہے۔

غیر قانونی مہاجر کون ہے؟

شہریت ایکٹ، 1955 کی طرح، یہ سی اے اے غیر قانونی تارکین وطن کو ایک غیر ملکی کے طور پر گردانتا ہے جو درست دستاویزات کے بغیر بھارت میں داخل ہوا ہے۔

اس ایکٹ کا اسلام کی شبیہ پر کیا اثر ہوا؟

ان تینوں مسلم ممالک میں اقلیتوں پر ظلم و ستم کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کا نام بری طرح داغدار ہوا۔ تاہم، اسلام، ایک پرامن مذہب ہونے کے ناطے، مذہبی بنیادوں پر کبھی بھی نفرت/ تشدد / کسی قسم کے ظلم و ستم کی تبلیغ یا تجویز نہیں کرتا ہے۔ یہ قانون ظلم و ستم کےتئیں ہمدردی اور ازالے کو ظاہر کرتا ہے، اسلام کو ظلم و ستم کے نام پر داغدار ہونے سے بچاتا ہے۔

کیا مسلمانوں کے لیے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ ہے؟

نہیں، دنیا میں کہیں سے بھی مسلمانوں پر شہریت قانون کے سیکشن 6 کے تحت ہندوستانی شہریت حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، جس کا تعلق اُس شہریت سے ہے جو کسی کو فطری طور پر ملی ہے ۔

ترمیم کی کیا ضرورت ہے؟

ان تینوں ممالک کی مظلوم اقلیتوں پر رحم کرنے کے لیے، یہ قانون انھیں بھارت کی تہذیب میں ہمیشہ سے پائے جانے والی ثقافت کے طور پر انہیں ان کی خوشی اور خوشحال مستقبل کے لیے بھارتی شہریت دی جائے گی ۔ شہریت دینے کے نظام پر عمل کرنے اور غیر قانونی تارکین وطن پر قابو پانے کو اس قانون کی ضرورت تھی ۔

حکومت کے سابقہ اقدامات کیا ہیں؟

2016 میں مرکزی حکومت نے ان تینوں ممالک کی اقلیتوں کو بھی بھارت میں رہنے کے لیے طویل مدتی ویزا کا اہل بنایا تھا ۔

کیا کسی بیرونی ملک سے آنے والے مسلم مہاجرین پر کوئی پابندی ہے؟

سی اے اے کے تحت فطری طور پر شہری ہونے کے قوانین کو منسوخ نہیں کرتا ہے۔ لہذا، کوئی بھی شخص بشمول کسی بھی بیرونی ملک سے آنے والے مسلم تارکین وطن، جو بھارتی شہری ہونے کی خواہش رکھتے ہیں، موجودہ قوانین کے تحت اس کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ یہ ایکٹ کسی بھی مسلمان کو، جو ان 3 اسلامی ممالک میں اپنے اسلام پر عمل کرنے کی وجہ سے ستایا جاتا ہے، کو موجودہ قوانین کے تحت بھارتی شہریت کے لیے درخواست دینے سے نہیں روکتا ہے۔

 

‘ہندوستانی سرزمین مسلمانوں کےلیےجنت ہے’، غیرملکی اخبار کےکس سوال پرپی ایم مودی نےدیایہ جواب؟

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان کی سرزمین کو مسلمانوں کے لیے جنت قرار دیا ہے۔ غیر ملکی اخبار ‘فائنانشیل ٹائمز’ کو دیے گئے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں پی ایم مودی نے کہا کہ ہندوستان کی سرزمین مسلمانوں کے لیے جنت ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے کینیڈا کے تنازع اور اسرائیل حماس تنازع پر بھی کھل کر بات کی ہے۔جب انٹرویو کے دوران پی ایم مودی سے پوچھا گیا کہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کا مستقبل کیا ہے؟ تو پی ایم مودی نے اس کے بجائے ہندوستان کے پارسیوں کی اقتصادی کامیابی کی طرف اشارہ کیا، جنہیں وہ ‘ہندوستان میں رہنے والی مذہبی مائیکرو اقلیت’ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے باوجود انہیں (مسلمانوں کو)ہندوستان میں ایک محفوظ پناہ ملی ہے، وہ (مسلمان)خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کینیڈا کے معاملے پر پی ایم مودی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں تشدد کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

چین اور حماس ۔اسرائیل تنازع پر پی ایم نے کیا کہا

ہندوستان کا چین سے موازنہ کرنے پر پی ایم مودی نے کہا کہ آپ نے چین سے موازنہ کیا ہے، لیکن ہندوستان کا موازنہ دوسری جمہوریتوں سے کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ساتھ ہی حماس۔اسرائیل تنازعہ پر پی ایم مودی نے کہا کہ میں مشرق وسطیٰ خطے کے رہنماؤں سے رابطے میں ہوں۔ اگر ہندوستان،، امن کے لیے مزید کوششوں کے لیے کچھ کر سکتا ہے تو ہم ضرور کریگا۔

کینیڈا تنازعہ اور امریکہ کے الزامات پر پی ایم مودی نے کیا کہا؟

امریکہ کے الزامات پر اپنا پہلا ردعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے بدھ کو کہا، ‘اگر کوئی ہمیں کوئی اطلاع دیتا ہے تو ہم ضرور اس کی جانچ کریں گے۔ اگر ہمارے شہریوں میں سے کسی نے کچھ اچھا یا برا کیا ہے تو ہم اس کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا عزم ،قانون کی حکمرانی سے ہے۔

ساتھ ہی کینیڈا کے معاملے پر دو ٹوک جواب دیتے ہوئے پی ایم نریندرمودی نے کہا کہ آزادی اظہار کی آڑ میں تشدد کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کی آڑ میں یہ عناصر ڈرانے دھمکانے اور تشدد پر اکسانے میں مصروف ہیں۔ تاہم، انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ یہ الزامات کینیڈا کی طرح سفارتی تعلقات کو متاثر کریں گے۔

بہار کے اردو اسکولوں اور مسلم اکثریتی علاقوں میں اب جمعہ کو چھٹی، جنم اشٹمی، رام نومی جیسے تہواروں کی تعطیلات ختم

پٹنہ: محکمہ تعلیم کے ایک فیصلے نے سرد موسم میں بہار کی سیاست کو گرم کر دیا ہے۔ فیصلے کو لے کر حکومت کی نیتوں پر بڑے سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور پوچھا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کا کیا مطلب ہے، جبکہ ملک میں ایسا فیصلہ کہیں نہیں ہوا ہے۔ بی جے پی اس فیصلے سے اتنی ناراض ہے کہ نتیش کمار سے مطالبہ کر رہی ہے کہ اب نتیش کمار بھی بہار کو اسلامک اسٹیٹ بنانے کا اعلان بھی لگے ہاتھوں کر دیں۔

دراصل یہ سارا معاملہ بہار حکومت کی چھٹی سے جڑا ہوا ہے۔ بہار حکومت نے اب اردو اسکولوں میں یوم جمعہ یعنی جمعہ کو ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کیا ہے، یعنی بہار کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے، یعنی وہ اکثریت میں ہیں، وہاں اب جمعہ کے دن یعنی ہفتہ وار چھٹی ہوگی۔ بہار شاید ملک کی پہلی ریاست ہوگی جہاں جمعہ کو مسلمانوں کے لیے سرکاری ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔

نیوز18 اردو اب وہاٹس ایپ پر بھی، جوائن کرنے کیلئے یہاں کلک کریں

اس فیصلے میں واضح طور پر ہدایت دی گئی ہے کہ یہ حکم صرف اردو اسکولوں یا مکاتب کے لیے نہیں ہے بلکہ مسلم اکثریتی علاقے میں واقع کسی بھی سرکاری اسکول میں اب اتوار کے بجائے جمعہ کو چھٹی ہوگی۔ اس حوالے سے محکمہ تعلیم کی جانب سے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا ہے تاہم یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اس کے لیے اس ضلع کے ڈی ایم کی اجازت لینی ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ڈی ایم رضامندی دیتا ہے تو کسی بھی اسکول میں اتوار کے بجائے جمعہ کو چھٹی کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔

‘ہمیں کوئی نہیں روک سکے گا…’ حماس کے گڑھ میں پہلی بار پہنچے نیتن یاہو، فوجیوں سے کہا- ہمارے صرف 3 ٹارگٹ

ہندوستان اورایران میں دوطرفہ بات چیت ،مشرق وسطی کی سیمابی صورتحال سمیت دیگرعلاقائی و باہمی مسائل پر کیا گیاتبادلہ خیال

وزیراعظم مودی نے بی آر ایس اور کانگریس کو بتایا ایک دوسرے کی کاربن کاپی، کے سی آر کو بتایا ’فارم ہاوس سی ایم‘

یہی نہیں محکمہ تعلیم نے 2024 کے لیے سرکاری اسکولوں کی چھٹیوں کی فہرست بھی جاری کر دی ہے جس میں محکمہ تعلیم نے 2024 میں عید اور بقرعید کی تعطیلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ پہلے عید اور بقرعید پر دو دن چھٹی ہوتی تھی۔ 2024 میں، دونوں تہواروں پر اسکول تین دن کے لیے بند رہیں گے۔ اس کے علاوہ محرم کو دو دن، شب برات، چہلم اور حضرت محمد صاحب کے یوم ولادت پر ایک ایک دن چھٹی ہوگی۔ حکومت نے جنم اشٹمی، رام نوامی، مہاشیو راتری، راکھی، تیج، جیتیہ جیسے کئی تہواروں پر چھٹیاں ختم کر دی ہیں۔

اس فیصلے سے بی جے پی ناراض ہے۔ بی جے پی کے ایم ایل اے ہری بھوشن ٹھاکر بچول کا کہنا ہے کہ ہم پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ نتیش حکومت بہار میں غزوۂ ہند کا قانون لانا چاہتی ہے اور اس فیصلے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہمارے الزامات اور شبہات درست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب نتیش جی کو بھی بہار کو اسلامی ریاست قرار دینا چاہئے۔ حکومت کے اس فیصلے نے ہلچل مچا دی ہے۔

یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد بہار حکومت کے سینئر وزیر اشوک چودھری کو وضاحت دینی پڑی۔ اس معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے چودھری کا کہنا ہے کہ پرنسپل سکریٹری اور وزیر نے یہ فیصلہ نہیں دیکھا ہوگا۔ یہ عوامی جذبات سے جڑا معاملہ ہے۔ طویل عرصے سے چھٹیاں دی جا رہی ہیں۔ چھٹیاں منسوخ کرنے سے عوامی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ چھٹیاں منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے ہی یہ معاملہ وزیر اعلیٰ کے علم میں آئے گا وہ ضرور مداخلت کریں گے۔ لگتا ہے یہ فیصلہ نیچے کے بابووں کی سطح پر لیا گیا ہے۔