Tag Archives: Muslims

یہ ملک شریعت پرنہیں چل سکتاہے،یہ ملک یکساں سول کوڈپرچلے گا: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ

گونا/راج گڑھ: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ 26 اپریل کو گونا پارلیمانی حلقہ پہنچے۔ انہوں نے پپرائی کے منڈی کمپلیکس میں عوام سے خطاب کیا۔ انہوں نے یہاں کہا کہ کانگریس پارٹی او بی سی مخالف پارٹی ہے۔ برسوں سے او بی سی زمرے کے لوگوں کو مرکزی اداروں میں ریزرویشن نہیں دیا گیا تھا۔ کانگریس 70 سال تک آرٹیکل 370 کو اپنے بچوں کی طرح اٹھاتی رہی۔جب کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2019 کو کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ایک ہی جھٹکے میں ختم کردیا۔

وزیر اعظم مودی نے اس ملک کی ترقی میں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کو پہلی ترجیح دی ہے۔ لیکن، کانگریس کا کہنا ہے کہ اس ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ ہم کانگریس کے ارادوں کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔

 

وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ یہ ملک یکساں سول کوڈ (یو سی سی) پر چلے گا۔ یہ ہمارے آئین کی روح ہے۔ ہم اتراکھنڈ میں یو سی سی لائے ہیں۔ اور، وزیر اعظم نریندر مودی نے ضمانت دی ہے کہ ہم یو سی سی کو پورے ملک میں نافذ کریں گے۔ کانگریس کے منشور کو غور سے پڑھیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم پرسنل لاء کو دوبارہ نافذ کریں گے۔ کانگریس ملک میں مسلم پرسنل لا لانا چاہتی ہے۔

آپ بتائیں کیا یہ ملک شریعت پر چل سکتا ہے؟ راہول بابا، تسلی کے لیے جو بھی کرنا ہے کرو۔ لیکن جب تک بی جے پی ہے ہم پرسنل لاء کو متعارف نہیں ہونے دیں گے۔

 

پی ایم مودی نے کروڑوں غریبوں کے لیے بہت کچھ کیا :وزیر داخلہ امت شاہ

وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے اس ملک سے دہشت گردی اور نکسل ازم کو ختم کر دیا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ہمارے مدھیہ پردیش کو نکسل ازم سے آزاد کرانے کا کام کیا ہے۔ انہوں نے 10 سالوں میں ملک کے کروڑوں غریبوں کے لیے بہت کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ پی ایم مودی نے کچھ تاریخی کام بھی کیے ہیں۔ یہ الیکشن ملکی معیشت کو تیسری بڑی معیشت بنانے کا الیکشن ہے۔ پی ایم مودی نے ملک میں 1 کروڑ لکھ پتی دیدیاں بنائیں، یہ الیکشن 3 کروڑ ماؤں کو لکھپتی دیدی بنانے کا الیکشن ہے۔

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی : اسباب اور تدارک

تحریر: پروفیسر فرقان قمر

ترجمہ: طلحہ منان

[ممتاز ماہر تعلیم اور دانشور پروفیسر فرقان قمر کا یہ فکر انگیز مضمون  انگریزی روزنامہ ”دی ڈیلی  گارجین“کے 12 مارچ 2024  کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ یہ   مضمون مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے اسباب اوراور ان کے موزوں حل کے معروضی اور  تجزیاتی مطالعے پر مبنی ہے۔ مسلمانوں میں  اکثریت اردو بولنے والوں کی ہے۔   اس پس منظر میں یہ مضمون اردو  داں طبقے تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ ملک کی اس بڑی آبادی کو تعلیمی اعتبار سے ترقی یافتہ بنانے کی کوششوں کو مہمیز کیا جاسکے۔]

اعداد و شمار کی بروقت  عدم دستیابی کی وجہ سے اس  پر مبنی فیصلہ سازی، پالیسی کی سطح پر مداخلت اور مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، کی ترقی کے حوالے سے سماجی اقدامات پر شدید اثر پڑتا ہے۔ مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی و تعلیمی صورت حال اور ترقی  میں شمولیت سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار- 2018 2017کے نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) کے 75 ویں دور کے ڈیٹا میں ہی دستیاب ہیں۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن (UDISE) کے ذریعہ جمع کردہ اسکولوں، ان میں اندراج و اسکول چھوڑنے اور تعلیم جاری رکھنے کی شرح، ترقی وغیرہ سے متعلق جامع  اعداو شمار  اور اس کے نتیجے میں وزارت تعلیم کی طرف سے  شائع کی جانے جانے والی سالانہ فلیش رپورٹ UDISE+ کی اشاعت کے ذریعہ تمام سماجی طبقات کی تعلیمی صورت حال کے متعلق اعدادوشمار فراہم کرائے جا سکتے تھے۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہم UDISE+ کے اعداوشمار کی بنیاد پر مفروضات کےتحت  تخمینہ لگا کر  کچھ کام کر سکتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کے اسکولی تعلیم میں داخلہ لینے اور چھوڑنے کی شرح سے متعلق واضح اعداوشمار موجود ہیں۔

قانون حقِ تعلیم  (RTE)  تمام بچوں کے لیے ابتدائی سطح ( پہلی کلاس سے آٹھویں کلاس ) تک تعلیم کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اس کی وجہ  سے بچوں کے  اندراج میں کافی اضافہ  ہواہے، جس سے معاشرے کے محروم اور پسماندہ طبقات سمیت تمام سماجی گروہوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ مسلمانوں سمیت دیگر مذہبی اقلیتیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہی ہیں۔

فی الحال دستیاب UDISE+ فلیش رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکولولوں میں  ابتدائی سطح پر مسلمانوں کا کل اندراج میں تناسب‌ 2015 میں 13.77 فیصد سے بڑھ کر 2022 میں 15.20 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم میں مسلمانوں کا تناسب ملک کی آبادی میں ان کے حصہ داری  کے بہت قریب ہے۔ یہ دعویٰ مختلف ریاستوں اور اضلاع کے اندر موجود مسائل کو جھٹلانے یا نظرانداز کرنے کے لیے نہیں ہے، لیکن اوسطاً مجموعی تصویر امید افزا ہے۔

تاہم، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا  ہے کہ ابتدائی  تعلیم کی سطح پر مسلمانوں کے اندراج میں ہونے والے اضافے میں کسی حد تک  بے قاعدگی نظر آتی  ہے۔ مثال کے طور پر 2016 میں ابتدائی سطح پر مسلمانوں کے اندراج میں 0.26 فیصد کی کمی واقع ہوئی لیکن 2017 میں یہ صورت حال تیزی سے بحال ہو گئی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابتدائی سطح پر مسلمانوں کے اندراج میں 2018 اور 2019 میں بالترتیب  2.19 اور 2.40 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

مجموعی طور پر، ابتدائی سطح میں مسلم طلبہ  کا اندراج 2015 میں 27.22 ملین سے بڑھ کر 2022 میں 28.67 ملین ہو گیا، جو 2015-2022 کے عرصے کے دوران 0.65 فیصد کی مجموعی سالانہ شرحِ ترقی   یا کمپاؤنڈ اینول گروتھ ریٹ (CAGR) کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ شرح قابل ستائش ہے کیونکہ اسی مدت کے دوران، ابتدائی سطح کے اندراج میں قومی سطح پر 0.58 فیصد کا منفی سالانہ شرحِ ترقی یا  نگیٹو کمپاؤنڈ اینول گروتھ ریٹ ریکارڈ کیا گیا۔

مجموعی طور پر  جائزہ لیا جائے تو قومی سطح پر ابتدائی اندراج میں ترقی کی منفی شرح  6  تا 13  سال کی عمر کے افراد  کی آبادی میں کمی کو ظاہر کرتی ہے، جو کہ ابتدائی سطح پر اندراج کے لیے متعلقہ عمر کا گروپ ہے۔

چونکہ مختلف سماجی گروہوں کے لیے عمر کی متعلقہ آبادی کے اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں، اس لیے ہم صرف یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ابتدائی سطح پر مسلمان طلبہ  کے اندراج میں اضافہ بنیادی طور پر اس لیے  ہے کہ 6 تا   13 سال کی عمر کے گروپ کے بچے، جو پہلے کچھ وجوہ کے باعث اسکول چھوڑ گئے تھے، وہ دوبارہ اسکول آ رہے ہیں۔

2017-18 کے NSSO کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیم کی ابتدائی سطح (پہلی کلاس سے آٹھویں کلاس  تک) پر مجموعی اندراج کے تناسب (Gross Enrolment Ratio- GER) کے قومی اوسط 98.7 کے مقابلے مسلمانوں کا تناسب 96.2 تھا۔ ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطحوں پر مسلمان طلبہ  کے اندراج کا تناسب 61 تھا، جبکہ قومی اوسط 77.8 تھا۔

فی الحال دستیاب UDISE+ کے اعدادو شمار سے  مسلمانوں کے مجموعی اندراج کے تناسب (GER) کی جانکاری   حاصل  نہیں ہورہی ہے۔ لہذا، ہم موجودہ تناسب اور اسکول سے باہر مسلم بچوں کی تعداد اور تناسب  معلوم کرنے سے قاصر ہیں۔ بہر حال، کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

قانون حقِ تعلیم  یا آر ٹی ای ایکٹ میں نو ڈیٹینشن پالیسی (این ڈی پی) کے تحت تمام طلبہ کو آٹھویں جماعت تک اگلی اعلیٰ کلاس میں پروموٹ کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسکولوں اور اندراج میں اوسط ترقی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے، ابتدائی سطح میں داخلہ لینے والے ہر آٹھ میں سے ایک طالب علم کو ہر سال نویں جماعت میں داخل کیا جانا چاہیے۔

یہ تعداد 2022 میں مسلمانوں کے لیے 3.58 ملین سے کچھ زیادہ ہے۔ اصولی طور پر، نویں جماعت میں داخل ہونے والے تمام طلبہ کو اپنے کورسز کو مکمل کرکے دسویں جماعت میں پروموٹ ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نویں اور گیارہویں جماعت میں داخلہ لینے والے مسلم بچوں کی تعداد اس سے دو گنی یعنی تقریباً  7.16 ملین ہونی چاہیے۔

یہ تعداد اور ثانوی سطح کی تعلیم میں مسلم بچوں کے حقیقی اندراج کے درمیان فرق ان کے ترک تعلیم یا   ڈراپ آؤٹ سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ UDISE+ کے مطابق، ثانوی سطح پر مسلم طلبہ کا اندراج 4.85 ملین ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ 2.31 ملین مسلمان بچے دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے  پڑھائی  چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، ہر تین میں سے ایک مسلمان بچہ اسی مرحلے میں تعلیم چھوڑ دیتا ہے۔ طلبہ کے پروموشن، اسی کلاس میں دوبارہ پڑھنے، ڈراپ آؤٹ، منتقلی، اور جماعت یا اسکول میں برقرار رکھنے کی شرحوں کے اعدادو شمار  کے بغیر اس سے بہتر اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔

نتیجتاً، 2022 میں ثانوی سطح پر مسلمانوں کا اندراج کل اندراج کا صرف 12.6 فیصد ہے، جو آبادی میں ان کے حصہ داری  سے نمایاں طور پر کم ہے۔ تاہم، ان کا حصہ 2015 میں 10.02 فیصد سے مسلسل بڑھ رہا ہے۔

اگر ہر بچے نے دسویں جماعت مکمل کرکے گیارہویں جماعت میں داخلہ لیا ہوتا اور اس کے بعد وہ بارہویں جماعت کی پڑھائی بھی مکمل کرتے تو 2022 میں سینئر سیکنڈری سطح پر مسلمانوں کا اندراج 4.85 ملین ہوتا۔ اس کے مقابلے میں، اس سطح پر ان کا اندراج 3.09 ملین بتایا جاتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 1.72 ملین سے زیادہ مسلم بچے، یا 36.29 فیصد، اسی سطح پر یا اس سے قبل تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔

نتیجتاً، 2022 تک، سینئر سیکنڈری سطح پر کل اندراج میں مسلمانوں کا حصہ مزید کم ہو کر 10.7 فیصد رہ گیا ہے۔ واحد اطمینان کی بات یہ ہے کہ 2015 سے حالات میں بہتری آئی ہے، جب مسلمانوں کا حصہ صرف 8.34 فیصد ہوا کرتا تھا۔ یہ اندازے ایک خام طریقہ کار پر مبنی ہیں لیکن عام طور پر زمینی صورت حال کے قریب ہیں۔

جب  ہم حکومتوں سے بہتر حالات  اور صلاحیت پیدا کرنے اور مراعات دینے کی توقع اور مطالبہ کر سکتے ہیں، تو مسلمانوں کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے  مہم چلانی چاہیے کہ آٹھویں اور دسویں جماعت میں پاس ہونے والے  طلبہ اعلیٰ درجات میں داخلہ لیں  اور اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ ترسیل و ابلاغ، ، حوصلہ افزائی، ترغیب وتحریک، سہولیات کی  فراہمی اور مالی مشکلات  کو کم کرنا  وغیرہ ایسی اہم چنوتیاں ہیں جنھیں قوم کو اپنی تعلیمی پسماندگی کو کم کرنے کے لیے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

(فرقان قمر، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مینجمنٹ کے پروفیسر، پلاننگ کمیشن میں سابق مشیرِ تعلیم اور راجستھان یونیورسٹی اور ہماچل پردیش سنٹرل یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ہیں۔)

بنگالی بولنے والےمسلمانوں کوآسام میں کیسے ملےگامقامی شہری کادرجہ؟ وزیراعلیٰ ہمانتا بسواسرما نے رکھی یہ شرائط

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے بنگالی بولنے والے مہاجر بنگلہ دیشی مسلمانوں کے لیے ریاست کے مقامی باشندے بننے کے لیے کچھ شرائط رکھی ہیں۔ سی ایم سرما نے سنیچر (23 مارچ) کو بنگالی بولنے والے مسلمانوں سے کہا کہ اگر وہ واقعی میں خود کو مقامی شہر ی کا درجہ دلا نا چاہتے ہیں تو انہیں دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کرنے چا ہیے۔ اس کے علاوہ انہیں تعدد ازدواج (ایک سے زیادہ شادیاں)کی روایت کو بھی ترک کرنا ہوگا اور اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا ہوگا۔

دراصل، آسام میں جموں و کشمیر کے بعد دوسری سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 34 فیصد ہے۔ لیکن آسام کی مسلم آبادی دو مختلف گروہوں پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک گروپ بنگالی بولنے والے اور بنگلہ دیشی نژاد مہاجر مسلمانوں کا ہے جبکہ دوسرا گروپ آسامی بولنے والے مقامی مسلمانوں کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنگالی بولنے والی مسلم آبادی بنگلہ دیش کے راستے آسام آئی ہے۔

تمہیں دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے سے روکنا ہوگا: سی ایم سرما

بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو شہریت دینے کے متعلق بات کرتے ہوئے، وزیر اعلی ہمانتا بسوا سرما نے کہا، “انہیں دو سے زیادہ بچے پیدا رکھنے سے کریز کرنا چاہیے اور تعدد ازدواج کو روکنا چاہیے کیونکہ یہ آسامی لوگوں کی ثقافت نہیں ہے۔ نابالغ بیٹیوں کی شادی نہیں کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔” انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ بنگالی بولنے والے مسلمان مقامی ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔

بچوں کو مدارس میں بھیجنے کی بجائے بچوں کو ڈاکٹر انجینئر بنائیں: سی ایم

سی ایم سرما نے مزید کہا کہ اگر آپ مقامی کہلانا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیجنے کے بجائے انہیں پڑھائیں ،ڈاکٹر اور انجینئر بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنا شروع کریں اور انہیں ان کے والد کی جائیداد میں حصہ بھی دیاجائے۔

وزیر اعلیٰ نے مزید کہا، “یہ بنگالی بھولنے والے مسلمانوں اور ریاست کے باشندوں کے درمیان فرق ہیں۔ اگر وہ ان طریقوں کو ترک کر دیں اور آسامی لوگوں کی ثقافت کو اپنا لیں تو وہ بھی مقامی شہری بن سکتے ہیں۔”

آسام کے 63 فیصد مسلمان بنگالی بولنے والے ہیں۔

دراصل ، 2022 میں، آسام کی کابینہ نے ریاست کے تقریباً 40 لاکھ آسامی زبان کے مسلمانوں کو ‘دیسی آسامی مسلمان’ کے طور پر تسلیم کیا۔ ان میں وہ مسلمان بھی شامل تھے جن کی بنگلہ دیش سے ہجرت کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ اس طرح وہ اصل باشندے سمجھے جاتے تھے لیکن اس کی وجہ سے ریاست کا مسلم معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ دوسرا حصہ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کا تھا، جن کا ریاست کی کل مسلم آبادی میں 63 فیصد حصہ ہے۔

رمضان کے موقع پر اس ملک میں مسلمانوں کو ملا بڑا تحفہ، مدرسہ اور مسجد بنانے پر چھوٹ، پولیس کو بھی ہدایت

لندن: برطانیہ میں رشی سنک کی حکومت نے برطانوی مسلمانوں کے لیے آئندہ چار سال کے لیے 117 ملین پاؤنڈ سے زائد کے سیکورٹی فنڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ پیر کو رمضان کے پہلے روزے پر یہ اعلان کرتے ہوئے حکومت نے کہا کہ یہ رقم آئندہ چار سالوں میں مسلمانوں کے تحفظ کے لیے فراہم کی جائے گی۔ اس میں مسلم مخالف نفرت انگیز جرائم سے نمٹنے کے لیے مساجد، مسلم عقیدے کے اسکولوں اور دیگر کمیونٹی مراکز کی حفاظت شامل ہے۔

حکومت نے کہا کہ ملک میں بڑھتے ہوئے “انتہا پسندانہ خطرات” کے جواب میں جمہوری عمل اور اداروں کے تحفظ کے لیے تقریباً 31 ملین GBP بھی دستیاب کرائے جائیں گے۔ ان میں مساجد میں سی سی ٹی وی اور الارم سسٹم جیسی ٹیکنالوجی، مسلم عقیدے کے کمیونٹی سینٹرز اور مدارس میں محفوظ فینسنگ کی تنصیب شامل ہوگی۔ برطانیہ کے ہوم سکریٹری جیمز کلیورلی نے اعلان کیا کہ ‘ہمارے معاشرے میں مسلم مخالف نفرت یا نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات کو برطانوی مسلمانوں کے خلاف بدسلوکی کو جواز فراہم کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘وزیراعظم رشی سنک نے واضح کر دیا ہے کہ ہم برطانیہ کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ ہم نے برطانیہ کے مسلمانوں کو ایک ایسے وقت میں یقین دہانی اور بھروسہ دلاتے ہوئے اس فنڈنگ ​​کا عزم کیا ہے، جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ برطانوی حکومت نے کہا کہ وہ مسلم مخالف اور یہودی مخالف نفرت میں حالیہ اضافے کی مذمت کرتی ہے ۔

یہ بھی پڑھئے:سعودی عرب سمیت دیگرخلیجی ممالک میں نظرآگیارمضان المبارک کا چاند،کل ہوگا پہلا روزہ

یہ بھی پڑھئے: عالمی منظرعمران خان والی جیل دہشت گردوں کے نشانے پر! دھماکہ خیز مواد اور نقشہ کے ساتھ تین گرفتار

ہوم آفس نے کہا کہ وزراء نے واضح کردیا ہے کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ پولیس تمام نفرت انگیز جرائم کی مکمل تحقیقات کرے گی اور سی پی ایس (کراؤن پراسیکیوشن سروس) کے ساتھ مل کر کام کرے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ان ہولناک جرائم کو کرنے والے بزدلوں کو قانون کی طاقت کا احساس دلایا جاسکے۔

دہلی : نمازپڑھنے والے لوگوں کےساتھ بدتمیزی کامعاملہ، ویڈیو وائرل ہونےکےبعدسب انسپکٹر معطل

نئی دہلی: اندرلوک علاقہ میں نماز پڑھنے والے لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ بدتمیزی کسی اور نے نہیں بلکہ دہلی پولیس کے سب انسپکٹر نے کی تھی۔ معاملے کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دہلی پولیس نے بھی سخت کارروائی کی ہے۔ اس ایس آئی کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا۔ دراصل جمعہ کے روز مسلم کمیونٹی کے لوگ بڑی تعداد میں نماز ادا کرنے کے لیے مسجد پہنچے تھے۔ ہجوم کی وجہ سے یہ لوگ مسجد کے باہر سڑک پر نماز ادا کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر ایس آئی نے نماز پڑھنے والے افراد کو لات مار کر وہاں سے بھگانے کی کوشش کی۔ شمالی دہلی ضلع پولیس نے ایس آئی کی اس کارروائی کے خلاف سخت کارروائی کی۔

موصولہ اطلاع کے مطابق یہ واقعہ سرائے ریہلا پولیس اسٹیشن کے تحت اندرلوک علاقے میں آج دوپہر پیش آیا۔ ہر جمعہ کو مسلمانوں کی بڑی تعداد نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد پہنچتی ہے۔ ہر ہفتے کی طرح اس جمعہ کو بھی وہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ تاہم ہجوم کی وجہ سے سڑک پر لمبا جام لگ گیاجس کے پیش نظر جام کو ہٹانا مقامی پولیس کی ذمہ داری تھی۔ اس سلسلے میں یہ ایس آئی کچھ دیگر پولیس والوں کے ساتھ موقع پر پہنچ گیا۔

 

ایس آئی نے نماز پڑھ رہے لوگوں کو لات مار کر ہٹانے کی کوشش کی۔ اس نے کچھ لوگوں کو زبردستی گھسیٹ لیا۔ پولیس اہلکار کی یہ حرکت دیکھ کر وہاں موجود کچھ لوگوں نے ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ کچھ ہی دیر میں یہ ویڈیو تیزی سے وائرل ہونے لگا۔ جس کے بعد معاملہ اعلیٰ حکام تک بھی پہنچا۔سب انسپکٹر کی اوچھی حرکت کو دیکھ کر دہلی پولیس کے اعلیٰ سطحی افسران نے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سب انسپکٹر کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔

ایس آئی کی حرکت پر ڈی سی پی نے کیا کہا؟

اندرلوک واقعے پر، شمالی دہلی کے ڈی سی پی منوج کمار مینا نے کہا، “ویڈیو میں نظر آنے والے پولیس اہلکار کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، پوسٹ انچارج کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ ضروری تادیبی کارروائی بھی کی گئی ہے۔ “ٹریفک اب کھل گئی ہے، صورتحال اب معمول پر ہے۔”

واقعہ کے بعد بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے۔اندرلوک میٹرو اسٹیشن کے نیچے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ضلع کے اعلیٰ پولیس افسران لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔لوگوں کو پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی اطلاع دی گئی ہے۔ لوگ اب بھی وہاں موجود ہیں۔

بنگلورو کی دوبہنوں کابڑاکارنامہ، کشیدہ کاری کےذریعےمکمل قرآن مجید کےنسخہ کو کینوس پرکیاپیش

بنگلورو کی ان دو بہنوں کی محنت، ذوق و شوق کو سلام، تقریبا ساڑھے چار سال کی محنت کے بعد قرآن مجید کے نسخہ کو خوبصورت اور دلکش انداز میں کپڑے پر کیا پیش، جی ہاں بی بی تبسم اور سریا قریشی ان دونوں بہنوں نے اپنے ہاتھوں سے قرآن پاک کے ہر ہر حرف  کی کڑھائی کی ہے، سوئی دھاگے سے قرآن  مجید کی تمام آیات  کپڑے پر پیش کیا ہے، کل 5 جلدوں میں قرآن شریف کے30 پارے یعنی ہر جلد میں6 پارے محفوظ کئے ہیں،

خاص طور پر چھوٹی بہن بی بی تبسم کو بچپن سے ہی کشیدہ کاری کا شوق تھا، ابتداء میں قرآن  مجید کی چھوٹی چھوٹی آیتوں کی ایمبرائڈری کیا کرتی تھیں، ایک دن خیال آیا کہ کیوں نہ مکمل   قرآن مجید  کی ایمبرائڈری کی جائے، لہذا چار سال قبل بی بی تبسم نے اپنی بڑی بہن سریا قریشی کے ساتھ ملکر قرآنمجید کی پہلی  سورۃ فاتحہ سے آغاز کیا اور آخری سورۃ الناس تک مکمل کیا۔

قرآن مجید کا یہ نسخہ  کل 604 صفحات پر مشتمل ہے۔ کاٹن کے کپڑے اور اینکر کمپنی کے دھاگے کا استعمال کرتے ہوئے اس کام کو انجام دیا ہے، ویلویٹ کپڑے میں۵ جلدوں کی انہوں نے خود بائنڈنگ کی ہے، بی بی تبسم پہلے پینسل سے قرآن تحریر کرتیں پھر دونوں بہنیں ملکر اپنے گھر کے کام کاج مکمل ہوتے ہی قرآن مجید  کے  نسخہ کی کڑھائی کے کام میں لگ جاتیں، اسطرح ان دونوں بہنوں نے کپڑے  پر قرآن مجید  کا   نسخہ تیار کیا ہے، جو آسانی کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے، اور جاذب النظر ہے، اہم بات یہ ہے کہ عالم دین کی رہنمائی میں  قرآن مجید کا یہ نسخہ  تیار کیا گیا ہے۔ ان دونوں بہنوں کی آرزو ہے کہ وہ اپنے اس فن کو مدینہ کی لائبریری کی زینت بنائیں، اس لئے انہوں نے سعودی حکومت سے رابطہ بھی کیا ہے۔

 

 

View this post on Instagram

 

A post shared by News18 Urdu (@news18urdu)

نیوز18اردو سے بات کرتے ہوئے  بی بی تبسم نے کہا کہ پہلے وہ  کپڑوں اور کی چھوٹی چھوٹی آیتوں کی ایمبرائڈری کرتے ہوئے انہیں قرآن پاک کو ایمبرائڈری کے ذریعہ  کپڑے پر تحریر کرنے کا خیال کیاہے۔ تبسم کا کہناہے  کہ اس ابتدائی خیال کے بعد انکی بہن سریا قریشی   نے ان کی ہمت افزائی کی ہے۔ تبسم کا کہناہے کہ وہ اس قرآن مجید کو مدینہ منورہ کی لابئریری میں رکھنا کی تمنا رکھتی ہے۔اس سلسلہ میں سعودی عرب حکومت سے رابطہ کیاگیاہے۔

اس موقع پر نیوز 18اردوسے بات کرتے ہوئے سریا  قریشی نے کہا کہ تبسم کی جانب سے جب  کپڑےک پر ایمبرائڈری کے  ذریعہ قرآن  مجید لکھنے کی تجویز پیش کی گئی تو انہیں یہ آئیڈیا کافی پسند آیاہے۔ سریا قریشی کا کہناہے کہ اس لئے انہوں نے بھی اس نیک کام میں تبسم کی مدد کرنے بیڑہ اٹھایا۔

ان دونوں بہنوں کے اس کارنامے کی ہر جانب سے ستائش کی جارہی ہے، اہل خانہ، دوست و احباب سب خوشی و فخر محسوس کررہے ہیں۔بی بی تبسم کی دوست تسمیہ کا کہناہے کہ ایمبرائڈری کے ذریعہ  کپڑے پر قرآن مجید کا نسخہ تیار کرکے تبسم نے بہت ہی قابل ستائش کام کیاہے۔بی بی تبسم کی ایک اور بہن سمیہ کا کہناہے کہ  تبسم اور سریا قریشی نے  اپنے اس کارنامہ سے ناصرف ایک  خاندان بلکہ پورے بنگلورو اور کرناٹک کا نام روشن کیاہے۔

اپنے دونوں بیٹیوں کے کارنامہ سے بی بی   تبسم اور سریا قریشی کے والدین بھی بے حد خوشی نظر آرہے ہیں۔بی بی تبسم کے والدہ  گلناز نے نیوز18اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ  انکے بیٹیوں کے اس کارنامہ سے  وہ بہت خوش ہے انہوں نے تمام لوگوں سے ان کے دوبیٹیوں کے لیے دعائیں کرنے کی اپیل کی ہے۔بی بی تبسم اور سریا قریشی کا کہناہے کہ ابھی چند ماہ یہ قرآن مجید بنگلورو میں رہے گا۔اس کے بعد مدینہ منورہ کی لائبریری کیلئے  اسے روانہ کیا جائے گا۔

’مسلمانوں کو چار بیویاں رکھنے کی آزادی، لیکن ہر ایک کے ساتھ…‘، ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ

چنئی : مدراس ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ بھلے ہی اسلامی قوانین میں مسلمان مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہو، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے غیر مساوی سلوک کرے۔ انہیں برابر کے حقوق دینے ہوں گے اور سب کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہو گا۔ اگر شوہر ایسا نہیں کرے تو اسے ظلم سمجھا جائے گا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں برابری کے سلوک پر زور دیا ہے۔

جسٹس آر ایم ٹی ٹیکا رمن اور پی بی بالاجی کی بنچ نے فیملی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ عدالت نے کہا کہ شوہر اور اس کے خاندان کے دیگر افراد نے پہلی بیوی کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا اور اس کا استحصال کیا۔ مدراس ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ متاثرہ خاتون کے الزامات درست پائے گئے ہیں۔ عدالت نے شادی ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس سے پہلے عدالت میں خاتون نے اپنے شوہر، ساس اور نند کے خلاف الزامات عائد کئے تھے۔

خاتون نے بتایا تھا کہ اس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے اور وہ اس کے ساتھ رہ رہا ہے۔ شوہر کا اس کے ساتھ رویہ غلط ہے اور حمل کے دوران اس کو ہراساں کیا گیا تھا۔ خاتون نے کہا کہ اسلامی قانون شوہر کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت تو دیتا ہے لیکن شوہر کو اپنی سبھی بیویوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہوگا۔ اس نے الزام لگایا کہ جب میں حاملہ تھی اور مجھے سہارے کی ضرورت تھی تو میرے شوہر اور اس کی ماں اور بہن نے میرے ساتھ غلط سلوک کیا اور ہراساں کیا۔

یہ بھی پڑھئے: قطر سے آئی بڑی خبر، ہندوستانی بحریہ کے 8 سابق اہلکاروں کی موت کی سزا پر لگی روک

یہ بھی پڑھئے: دہشت گرد حافظ سعید کو ہمارے حوالے کریں’، ہندوستان کا پاکستان سے مطالبہ

خاتون نے کہا کہ مجھے الرجی کی پریشانی ہے اور یہ جاننے کے باوجود مجھے وہی کھانا دیا گیا، جس کی وجہ سے اسقاط حمل ہوا۔ میرا شوہر میرے بنائے ہوئے کھانے کو خراب کہتا تھا اور دوسری خواتین کی تعریف کرتا رہتا تھا ۔ سسرال میں رہ پانا کافی تکلیف دہ رہا اور وہاں ہمیشہ استحصال کیا گیا ۔ ایسے میں اس کو سسرال کو چھوڑنا پڑ گیا تھا ۔

ادھر خاتون کے شوہر نے بتایا کہ سبھی الزامات جھوٹے ہیں۔ بیوی اپنے مائیکہ سے واپس نہیں آنا چاہتی تھی اور بار بار کہنے کے باوجود جب وہ نہیں لوٹی تو اس نے دوسری شادی کر لی تھی۔ عدالت نے کہا کہ دستاویزات اور شواہد کو دیکھتے ہوئے ثابت ہوا ہے کہ بیوی کے ساتھ غلط سلوک کیا گیا ۔ بیوی بھلے ہی مائیکہ میں ہو، شوہر کو خرچہ برداشت کرنا چاہئے تھا۔

‘ہندوستانی سرزمین مسلمانوں کےلیےجنت ہے’، غیرملکی اخبار کےکس سوال پرپی ایم مودی نےدیایہ جواب؟

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان کی سرزمین کو مسلمانوں کے لیے جنت قرار دیا ہے۔ غیر ملکی اخبار ‘فائنانشیل ٹائمز’ کو دیے گئے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں پی ایم مودی نے کہا کہ ہندوستان کی سرزمین مسلمانوں کے لیے جنت ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے کینیڈا کے تنازع اور اسرائیل حماس تنازع پر بھی کھل کر بات کی ہے۔جب انٹرویو کے دوران پی ایم مودی سے پوچھا گیا کہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کا مستقبل کیا ہے؟ تو پی ایم مودی نے اس کے بجائے ہندوستان کے پارسیوں کی اقتصادی کامیابی کی طرف اشارہ کیا، جنہیں وہ ‘ہندوستان میں رہنے والی مذہبی مائیکرو اقلیت’ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے باوجود انہیں (مسلمانوں کو)ہندوستان میں ایک محفوظ پناہ ملی ہے، وہ (مسلمان)خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کینیڈا کے معاملے پر پی ایم مودی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں تشدد کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

چین اور حماس ۔اسرائیل تنازع پر پی ایم نے کیا کہا

ہندوستان کا چین سے موازنہ کرنے پر پی ایم مودی نے کہا کہ آپ نے چین سے موازنہ کیا ہے، لیکن ہندوستان کا موازنہ دوسری جمہوریتوں سے کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ساتھ ہی حماس۔اسرائیل تنازعہ پر پی ایم مودی نے کہا کہ میں مشرق وسطیٰ خطے کے رہنماؤں سے رابطے میں ہوں۔ اگر ہندوستان،، امن کے لیے مزید کوششوں کے لیے کچھ کر سکتا ہے تو ہم ضرور کریگا۔

کینیڈا تنازعہ اور امریکہ کے الزامات پر پی ایم مودی نے کیا کہا؟

امریکہ کے الزامات پر اپنا پہلا ردعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے بدھ کو کہا، ‘اگر کوئی ہمیں کوئی اطلاع دیتا ہے تو ہم ضرور اس کی جانچ کریں گے۔ اگر ہمارے شہریوں میں سے کسی نے کچھ اچھا یا برا کیا ہے تو ہم اس کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا عزم ،قانون کی حکمرانی سے ہے۔

ساتھ ہی کینیڈا کے معاملے پر دو ٹوک جواب دیتے ہوئے پی ایم نریندرمودی نے کہا کہ آزادی اظہار کی آڑ میں تشدد کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کی آڑ میں یہ عناصر ڈرانے دھمکانے اور تشدد پر اکسانے میں مصروف ہیں۔ تاہم، انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ یہ الزامات کینیڈا کی طرح سفارتی تعلقات کو متاثر کریں گے۔

بھوپال:چارروزہ عالمی تبلیغی اجتماع کاآغاز،20ممالک سے10لاکھ فرزند توحید کی شرکت، پہلی باراجتماعی نکاح کااہتمام

بھوپال:عالمی تبلیغی اجتماع میں وسیع انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس بار یہاں 10 لاکھ فرزند توحید کی آمد متوقع ہے۔انٹ کھیڑی میں اجتماع کے کیمپ کی خوبصورتی قابل دید ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں پورا شہر آباد ہو گیا ہو۔ یہاں پانی سے لے کر وضو تک کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہاں پہلی بار اجتماعی شادیاں بھی ہونے جارہی ہیں۔

عالمی تبلیغی اجتماع جس کی دنیابھر میں اپنی ایک خاص پہچان ہےآج صبح فجر کی نمازکے بعد مولانا جمشید صاحب کی تقریر سے اس کا آغاز ہوا۔ یہ چار روزہ عالمی تبلیغی اجتماع پیر کو خصوصی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔ ان چار دنوں میں دہلی مرکزسمیت ملک کے مختلف حصوں سے علمائے کرام کے خطابات ہوں گے۔ اجتماع کے دوران سیکڑوں شادیاں بھی سادگی سے ہورہی ہیں۔ اس اجتماع کے اختتام پردنیا بھرسے بڑی تعداد میں دنیا بھر کے سفر پر نکلیں گے۔اجتماع کے 75 سالوں میں پہلی بار اجتماعی نکاح کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس بار 350 سے زائد شادیوں کی رجسٹریشن کیاگیاہے۔

125 پنڈال-5لاکھ فرزندتوحید کا قیام

انٹ کھیڑی میں اجتماع کی تیاریاں کافی عرصے سے جاری تھیں۔ مقامی رضاکاروں اور مختلف سرکاری اداروں کی مسلسل کوششوں سے اجتماع کی تیاری کی گئی ہے۔ جماعتوں کی آمد کا سلسلہ کل سے شروع ہو کر دیر رات تک جاری رہا۔ جمعہ کی صبح نماز فجر کے بعد شروع ہونے والے مباحثے اور بیان کی نشست میں شرکت کے لیے لوگ صبح سے ہی اجتماع میں پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ توقع ہے کہ گزشتہ سالوں کے مقابلے اس سال زیادہ تعداد میں جماعتیں اجتماع میں پہنچیں گی۔ اس لیے تقریباً 125 پنڈالوں میں 5 لاکھ سے زائد جماعتیوں کو ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ضرورت کے مطابق یہاں مزید پنڈال لگانے کی بھی تیاریاں کی گئی ہیں۔

80 فوڈ زونز، 60 پارکنگ

بھوپال کے سینئرصحافی ڈاکٹر مہتاب عالم نے بتایا کہ اجتماع میں 80 فوڈ زون اور 60 پارکنگ لاٹ بنائے گئے ہیں۔ دنیا بھر سے آنے والے اجتماعات کو پورا کرنے کے لیے یہاں تقریباً 80 فوڈ زون بنائے گئے ہیں۔ ان میں چائے، ناشتہ، کھانا اور پینے کا پانی رعایتی داموں پر دستیاب ہوگا۔ بغیر کسی نقصان کے منافع کے تصور کے ساتھ اجتماع میں 60 روپے میں پورا کھانا، 20 روپے میں ناشتہ اور 5 روپے میں چائے دستیاب ہوگی۔ اسی طرح یہاں پانی کی 12 بوٹلس پرمبنی صرف 70 روپے میں اور ایک بوتل 7 روپے میں دستیاب ہے

یہاں اجتماع میں شرکت کے لیے آنے والوں کی گاڑیوں کے انتظام کے لیے تقریباً 60 پارکنگ زون بنائے گئے ہیں، 250 ایکڑ پر پھیلے ان پارکنگ لاٹس میں بڑی گاڑیاں، فور وہیلر اور دو پہیہ گاڑیاں الگ سے پارک کی جا سکتی ہیں۔

وضو کرنے پر مفت چائے اور انڈا

جماعت کے وضو کے لیے اجتماع میں تقریباً 16,000 نلکیاں لگائی گئی ہیں۔ نہانے اور بیت الخلاء کے لیے روزانہ تقریباً ایک کروڑ لیٹر پانی فراہم کیاجارہا ہے۔ 9 مختلف زونز میں بنائے گئے وضو خانوں پر بھی خصوصی انتظام ہے کہ یہاں لوگوں کو رات کو عشاء کی نماز سے لے کر صبح فجر تک مفت چائے اور انڈے فراہم کیے جائیں گے۔ یہ انتظام رضاکارانہ طورپر ایک رضاکار نے فراہم کیا ہے۔

پانی کے لیے، 20 کلومیٹر لمبی پائپ لائن، 52 ٹیوب ویل، 22500 نلکے لگائے گئے ہیں تکہ ایک کروڑ لیٹر پانی روزانہ فراہم کیا جاسکے ۔نہانے اور وضو کے لیے گرم پانی 2000 لیٹر کے 8 پانی کے ٹینکوں میں گرم کیا جائے گا۔رضاکار صفائی کا خیال رکھیں گے، پنڈال میں ڈسٹ بن، سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ساتھ اجتماع کو بدبو سے پاک رکھا جائے گا۔ اجتماع کے انتظام سے وابستہ جاوید میاں کانجے، مولوی مصباح الدین، حکیم صاحب، منے میاں مسلسل انتظامات پرنظررکھے ہوئے ہیں۔اجتماع تک رسائی والی سڑک پر ٹریفک کے انتظامات رضاکار کریں گے، پولیس کی نگرانی جاری ہے۔ اس بار 20 ممالک کے لوگوں نے اجتماع میں شرکت کی ہے۔

ہندو بھائیوں نے انتظامات کیے

بھوپال کے اجتماعی انتظامات میں انٹ کھیڑی علاقے کے مقامی لوگوں کا بڑا حصہ ہے۔ ان میں ہندو مذہب سے وابستہ لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہے جو گنگا۔جمنی ثقافت کی مثال پیش کرتے ہیں۔ پانی کی فراہمی کے لیے یہاں لگائے گئے 52 ٹیوب ویلوں میں سے ایک درجن کے قریب ہندو برادری کے لوگوں کے ہیں۔ ان میں رام سنگھ اور مالی برادری کے کچھ مقامی کسان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف سرکاری محکموں کے افسران اور ملازمین میں سناتن دھرم سے وابستہ لوگ ہیں، جو سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ ثواب کی نیت سے اجتماعی نظام کو بھی انجام دے رہے ہیں۔