آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما نے کہا کہ ریاست میں جلد ہی یکساں سول کوڈ (یو سی سی) نافذ کردیا جائے گا۔ (Image:News18)

بنگالی بولنے والےمسلمانوں کوآسام میں کیسے ملےگامقامی شہری کادرجہ؟ وزیراعلیٰ ہمانتا بسواسرما نے رکھی یہ شرائط

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے بنگالی بولنے والے مہاجر بنگلہ دیشی مسلمانوں کے لیے ریاست کے مقامی باشندے بننے کے لیے کچھ شرائط رکھی ہیں۔ سی ایم سرما نے سنیچر (23 مارچ) کو بنگالی بولنے والے مسلمانوں سے کہا کہ اگر وہ واقعی میں خود کو مقامی شہر ی کا درجہ دلا نا چاہتے ہیں تو انہیں دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کرنے چا ہیے۔ اس کے علاوہ انہیں تعدد ازدواج (ایک سے زیادہ شادیاں)کی روایت کو بھی ترک کرنا ہوگا اور اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا ہوگا۔

دراصل، آسام میں جموں و کشمیر کے بعد دوسری سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 34 فیصد ہے۔ لیکن آسام کی مسلم آبادی دو مختلف گروہوں پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک گروپ بنگالی بولنے والے اور بنگلہ دیشی نژاد مہاجر مسلمانوں کا ہے جبکہ دوسرا گروپ آسامی بولنے والے مقامی مسلمانوں کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنگالی بولنے والی مسلم آبادی بنگلہ دیش کے راستے آسام آئی ہے۔

تمہیں دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے سے روکنا ہوگا: سی ایم سرما

بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو شہریت دینے کے متعلق بات کرتے ہوئے، وزیر اعلی ہمانتا بسوا سرما نے کہا، “انہیں دو سے زیادہ بچے پیدا رکھنے سے کریز کرنا چاہیے اور تعدد ازدواج کو روکنا چاہیے کیونکہ یہ آسامی لوگوں کی ثقافت نہیں ہے۔ نابالغ بیٹیوں کی شادی نہیں کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔” انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ بنگالی بولنے والے مسلمان مقامی ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔

بچوں کو مدارس میں بھیجنے کی بجائے بچوں کو ڈاکٹر انجینئر بنائیں: سی ایم

سی ایم سرما نے مزید کہا کہ اگر آپ مقامی کہلانا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیجنے کے بجائے انہیں پڑھائیں ،ڈاکٹر اور انجینئر بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنا شروع کریں اور انہیں ان کے والد کی جائیداد میں حصہ بھی دیاجائے۔

وزیر اعلیٰ نے مزید کہا، “یہ بنگالی بھولنے والے مسلمانوں اور ریاست کے باشندوں کے درمیان فرق ہیں۔ اگر وہ ان طریقوں کو ترک کر دیں اور آسامی لوگوں کی ثقافت کو اپنا لیں تو وہ بھی مقامی شہری بن سکتے ہیں۔”

آسام کے 63 فیصد مسلمان بنگالی بولنے والے ہیں۔

دراصل ، 2022 میں، آسام کی کابینہ نے ریاست کے تقریباً 40 لاکھ آسامی زبان کے مسلمانوں کو ‘دیسی آسامی مسلمان’ کے طور پر تسلیم کیا۔ ان میں وہ مسلمان بھی شامل تھے جن کی بنگلہ دیش سے ہجرت کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ اس طرح وہ اصل باشندے سمجھے جاتے تھے لیکن اس کی وجہ سے ریاست کا مسلم معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ دوسرا حصہ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کا تھا، جن کا ریاست کی کل مسلم آبادی میں 63 فیصد حصہ ہے۔