Tag Archives: BRS

دہلی شراب گھوٹالہ کیس:بی آرایس لیڈر کے کویتا کو مایوسی،عبوری ضمانت کی عرضی مسترد

نئی دہلی: دہلی شراب گھوٹالہ کیس میں گرفتار بی آر ایس لیڈر کے کویتا کو پھر ایک بڑا جھٹکا لگا ہے۔ بی آر ایس لیڈر کے کویتا کی عبوری ضمانت کی درخواست کو راؤس ایونیو کورٹ نے پیر کو مسترد کر دیا۔دہلی ایکسائز پالیسی گھوٹالہ کیس میں گرفتار بھارت راشٹرا سمیتی (BRS) لیڈر کےکویتا نے جمعرات کو راؤس ایونیو کورٹ سے عبوری ضمانت دینے کی درخواست کی تھی۔ اپنی درخواست میں، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے 16 سالہ بیٹے کے امتحانات ہیں اور ا نہیں اپنی ماں کی “اخلاقی اور جذباتی مدد” کی ضرورت ہے۔

حال ہی میں، خصوصی جج کاویری باویجا کی عدالت نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) اور کے کویتا کی طرف سے پیش ہوئے وکلاءکے دلائل کو سنا اور اپنا حکم پیر کے لیے محفوظ کر لیا۔ سماعت کے دوران، سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی، بی آر ایس لیڈر کی طرف سے پیش ہوئے،ابھیشیک منو سنگھوی نے دعوی ٰکیا کہ ماں کی غیر موجودگی کو باپ، بہن یا بھائی پورا نہیں کر سکتا۔

 

کے کویتا کے وکیل سنگھوی نے کہا، ‘اس معاملے میں ملزم خاتون کا ایک بچہ ہے۔ جن کے امتحانات اپریل میں ہونے جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بچہ چھوٹا ہے۔ ان کی عمر سولہ سال ہے۔ یہ معاملہ مختلف ہے۔ یہ ماں کی اخلاقی اور جذباتی حمایت کا مسئلہ ہے۔

ای ڈی نے عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ کویتا نے کیس میں ثبوتوں کو تباہ کیا اور گواہوں کو متاثر کیا۔ ای ڈی کے وکیل نے جج سے کہا، ‘سوال میں ملزم رشوت دینے والے پہلے لوگوں میں سے ایک ہے۔ میں صرف بیانات پر انحصار نہیں کر رہا ہوں۔ میرے پاس مواد، واٹس ایپ دستاویزات وغیرہ ہیں۔

آئیے ہم آپ کو بتادیں کہ کے کویتا کو گزشتہ منگل کو یہاں کی ایک عدالت نے 14 دنوں کے لیے عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔ بی آر ایس کے 46 سالہ بی آرایس کو مرکزی تفتیشی ایجنسی نے 15 مارچ کو گرفتار کیا تھا۔ ایجنسی نے یہ بھی الزام لگایا کہ کویتا ‘ساؤتھ گروپ’ کی ایک اہم رکن تھی جس پر دہلی میں حکمراں عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کو شراب کے لائسنس کے بڑے حصے کے بدلے 100 کروڑ روپے کی رشوت دینے کا الزام ہے۔

Loksabha Elections 2024:کانگریس کی پہلی فہرست جاری،39امیدواروں کااعلان،راہل گاندھی وایناڈ سےلڑیں گےانتخابات

کانگریس پارٹی نے لوک سبھا انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کر دی ہے۔ پہلی فہرست میں 39 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر راہل گاندھی وایناڈ سیٹ سے الیکشن لڑیں گے۔ راہل گاندھی کے علاوہ بھوپیش بگھیل کو راج ناندگاؤں سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ بنگلورو رورل سے ڈی کے سریش اور رائے پور سے وکاس اپادھیائے کو انتخابی دوڑ میں اتارا گیا ہے۔ کانگریس کی پہلی فہرست میں 39 امیدواروں کے نام ہیں۔ ان میں سے 24 سیٹوں پر ریزرو کیٹیگری کے امیدوار کھڑے کیے گئے ہیں۔ 12 امیدوار ایسے ہیں جن کی عمر 50 سال سے کم ہے اور 8 امیدواروں کی عمر 50 سے 60 سال کے درمیان ہے۔

 کانگریس کی پہلی فہرست
کانگریس کی پہلی فہرست

پارٹی کے جنرل سکریٹری کے۔ سی وینوگوپال نے نئی دہلی میں یہ فہرست جاری کی۔ کانگریس کی پہلی فہرست میں چھتیس گڑھ سے 6، کرناٹک سے 7، کیرالا سے 16، لکشدیپ سے ایک، میگھالیہ سے 2، ناگالینڈ سے ایک، سکم سے ایک، تلنگانہ سے چار اور تریپورہ سے ایک امیدوار کا اعلان کیا گیا ہے۔

تریپورہ (مغربی) سے آشیش کمار شاہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ آشیش کمار شاہ بی جے پی کے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ 2022 میں وہ پارٹی چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہو ئے تھے۔

پارٹی کے جنرل سکریٹری کے۔ سی وینوگوپال نے کہا کہ کانگریس اب مکمل طور پر انتخابی موڈ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انتخابی مہم میں جارحانہ راستے پر چل رہے ہیں۔ راہل گاندھی بھارت جوڑو نیائے یاترا پر ہیں۔ یہ سفر گجرات تک پہنچا ہے۔ یہ منی پور سے شروع ہوا اور ممبئی میں اختتام پذیر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کانگریس پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو مرکزی حکومت میں 30 لاکھ نوکریاں دی جائیں گی۔

راہل گاندھی

راہل گاندھی اس وقت کانگریس کے سب سے بڑے چہروں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ماضی میں قومی صدر کی کمان سنبھال لی ہے۔ گاندھی اس وقت وایناڈ، کیرالہ سے ایم پی ہیں۔ ان کی قیادت میں پارٹی نے بھارت جوڑو یاترا اور بھارت جوڑو نیا ئے یاترا شروع کی۔ راہول گاندھی نے گزشتہ عام انتخابات میں پارٹی کی خراب کارکردگی کے بعد قومی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

حیدرآباد: بی آرایس رکن اسمبلی لسیہ نندیتاکی سڑک حادثہ میں موت،آؤٹررنگ روڈپرپیش آیاحادثہ

سکندرآباد: تلنگانہ میں بھارت راشٹریہ سمیتی (بی آر ایس) کی ایم ایل اے لسیہ نندیتا کی کار حادثے میں موت ہوگئی۔ وہ جس کار میں سفر کر رہی تھی وہ سنگاریڈی ضلع کے پٹان چیرو کے قریب آؤٹر رنگ روڈ (ORR) پر سڑک کے بیریکیڈ کے کنارے سے ٹکرا گئی۔ حادثے میں نندیتا کا ڈرائیور شدید زخمی ہوگیا اور اسے مزید علاج کے لیے اسپتال لے جایا گیا۔ایم ایل اے 13 لسیہ نندیتا فروری کو نلگنڈہ ضلع کے نارکیٹ پلی کے قریب ایک اور سڑک حادثہ بال بال بچ گئی تھی۔ اس وقت، نندیتاسابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے جلسہ عام میں شرکت کے لیے نلگنڈہ جارہی تھیں۔ اس سڑک حادثہ میں ہوم گارڈ جی کشور کی موت ہوگئی۔

یہ معلوم ہے کہ نندیتا پانچ بار ایم ایل اے رہے چکے جی سائی اناکی بیٹی ہیں جن کی موت کے بعد وہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں وہ سکندرآباد کنٹونمنٹ حلقہ سے بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئی تھیں۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر ریونت ریڈی نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘نندیتا کے والد مرحوم سائی انا کے ساتھ میرے قریبی تعلقات تھے۔ ان کا انتقال گزشتہ سال اسی مہینے میں ہوا تھا۔ یہ بہت افسوسناک ہے کہ اسی مہینے میں نندیتا کی بھی اچانک موت ہو گئی۔ ان کے خاندان سےمیں گہری تعزیت کرتا ہوں۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ان کی روح کو سکون عطا کرے۔

یہ پہلی بار نہیں ہے جب نندیتاکی گاڑی کو حادثہ پیش آیا ہو۔ 10 دن پہلے بھی ایک سرک حادثےمیں نندیتا بال بال بچ گئی تھی۔ 13 فروری کو نارکٹ پلی میں پیش آنے والے ایک حادثے میں ا نہیں معمولی چوٹیں آئیں۔نندیتاکے اہل خانہ کے مطابق پچھلے ۶۰ دنوں میں نندیتاکے ساتھ تین بڑے حادثات پیش آئے ہیں تاہم دو سڑک حادثات میں محفوظ رہیں۔تاہم پیش آئے سڑک حادثے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

تلنگانہ اسمبلی : حیدرآباد میں ووٹنگ کاگھٹتاتناسب: آخراس درد کی دواکیاہے؟

حیدرآبادضلع میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹنگ فیصد مسلسل گھٹتا جارہا ہے۔ جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے، وہاں ہر الیکشن میں ووٹنگ تناسب میں کمی آتی جارہی ہے۔تلنگانہ اسمبلی انتخابات 2023 کے دوران حیدآباد ضلع میں مجموعی طور پر 47.88 فیصد رائے دہی ہوئی، جب کہ ریاست بھر میں یہ تناسب 71.07 فیصد ہے۔ حیدرآباد ضلع میں 15 اسمبلی حلقہ جات کے علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اگر ہم حالیہ ووٹنگ تناسب کا پچھلے انتخابات سے موازنہ کریں گے، تو اس میں واضح فرق نظر آئے گا۔ حیدرآبادضلع  میں سال 2018 میں 50.86 فیصد اور سال 2014 میں 52.99 فیصد پولنگ ہوئی تھی۔ یہ آبادی کا وہ تناسب ہے، جو کہ ووٹ ڈالنے کا اہل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ووٹ ڈالنے کی اہل آبادی ہے؛ اس میں سے قریب آدھی آبادی نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال ہی نہیں کیا۔ حیدرآبادضلع میں پچھلے دو اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں اس بار نہایت ہی کم رائے دہی ہوئی۔

سال 2014 میں تشکیل تلنگانہ کے بعد سے اب تک 2014، 2018 اور 2023  میں تین بار اسمبلی انتخابات ہوئے۔ ہر بار یہاں اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں سے متعلق موضوعات انتخابات کے دوران موضوع بحث رہے۔ دو قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی قیادت کی کئی اہم شخصیات کی جانب سے تلنگانہ میں انتخابی تشہیر کے دوران ووٹروں کو لبھانے کیلئے وعدے کیے گئے اور مسلمانوں کی تائید یا مخالفت کرنے کیلئے چوکانے والے بیانات بھی دیئے گئے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ بنڈی سنجے کمار نے بلدیاتی انتخابات 2020 میں کہا تھا کہ اگر بی جے پی برسر اقتدار آئی تو وہ پرانے شہر حیدرآباد میں سرجیکل اسٹریک کرائے گی۔

نیوز18 اردو اب وہاٹس ایپ پر بھی، جوائن کرنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

وہیں رواں انتخابات میں وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی تلنگانہ صدر جی کشن ریڈی نے بار بار یہ بات کہی کہ اگر تلنگانہ میں بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو مسلمانوں کو ملنے والے تحفظات کو ختم کردیا جائے گا۔ اس سب کے باوجود بھی ووٹنگ تناسب میں پہلے کے مقابلے میں کمی ہی آئی ہے۔ تلنگانہ اسمبلی انتخابات 2023 میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے 8، کانگریس کے 6، بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس) کے 3 اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے 5 کے علاوہ کئی آزاد مسلم امیدوار میدان میں تھے۔

حیدر آباد ضلع کے اسمبلی حلقہ جات میں رائے دہی کا فیصد پوری ریاست کے مقابلہ میں سب سے کم ریکارڈ کیا گیا۔ حیدر آبادضلع  کی اسمبلی نشستوں پر صرف 47.88 فیصد رائے دہی ریکارڈ کی گئی۔ حلقہ اسمبلی گوشہ محل میں 55.38 فیصد،حلقہ اسمبلی چندرائن گٹہ میں 45.26 فیصد، حلقہ اسمبلی یا قوت پورہ میں 39.69 فیصد، حلقہ بہادر پورہ میں 45.5 فیصد، حلقہ اسمبلی چار مینار میں 43.27 فیصد، حلقہ کاروان میں 48.72 فیصد، حلقہ نامپلی میں 45.56 فیصد، حلقہ ملک پیٹ میں 41.32 فیصد، حلقہ مشیر آباد میں 50.55 فیصد، حلقہ عنبر پیٹ میں 52.5 فیصد، حلقہ جوبلی ہلز میں 47.49 فیصد، حلقہ صنعت نگر میں 51.96فیصد، حلقہ سکندر آباد میں 53.75 فیصد اور حلقہ سکندر آباد کنٹونمنٹ میں 49.36 فیصدرائے دہی درج کی گئی۔

اعداد و شمار  بحوالہ  الیکشن  کمیشن۔(کرافیکس : عاصم رسول انس )۔
اعداد و شمار بحوالہ الیکشن کمیشن۔(کرافیکس : عاصم رسول انس )۔

ضلع حیدرآباد کے اسمبلی حلقوں میں سال 2009، 2014 اور 2018 کے مقابلے میں 2023 کے انتخابات میں مسلم اکثریتی علاقوں میں سب سے کم ووٹنگ تناسب رہا ہے۔ آخر اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ سیاسی تجزیہ نگار اور عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر کے ناگیشور کا کہنا ہے کہ”حالیہ عرضہ میں ہوئی کورونا سے اموات یا ووٹروں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا ذکر انتخابی فہرست (electoral list) میں نہیں ہوتا۔ حقیقی ووٹرز کی اصل تعدادانتخابی فہرست میں درج فہرست تعداد سے کم ہو سکتی ہے“۔ لیکن اور بھی کئی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے ووٹنگ تناسب مسلسل گھٹتا جارہا ہے۔

  • کئی ووٹرس کے پاس ان کا ووٹر آئی ڈی کارڈ نہیں ہے لیکن الیکشن کمیشن آف انڈیا اور الیکشن کمیشن آف تلنگانہ نے انتخابات سے بیشتر ماہ قبل ہی رائے دہندگان کے لیے رہنمائی کی۔ اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے ای سی آئی نے معلومات فراہم کی۔ کیا اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا؟
  • جس دن انتخابات ہوتے ہیں، اس دن کو جشن جمہوریت اور اپنے پسند کے قائد کو منتخب کرنے کے دن کے بجائے ایک عام سی چھٹی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پہلے تو اس دن آرام سے دوپہر تک لوگ سوئے رہتے ہیں اور اس کے بعد گھر میں بزرگ ووٹ ڈالتے بھی ہیں تو خواتین اور دیگر لوگ ووٹنگ کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔
  • ایک اور اہم وجہ تعلیم یا ملازمت کی خاطر حیدرآباد کے نوجوانوں / خاندانوں کا بیرون ملک ہجرت ہے۔ عموماً ملک کی دوسری ریاستوں کے نوجوان اپنے ملک کی دوسری ریاستوں میں جاکر تعلیم یا ملازمت حاصل کرتے ہیں؛ وہ دوسری ریاست میں جا کر اپنے ووٹ ڈالنے کے مقام کو بھی تبدیل کر لیتے ہیں۔ جیسے اترپردیس کا کوئی شخص حیدرآباد میں پانچ یا دس سال سے رہ رہا ہے تو وہ اپنے ووٹ ڈالنے کے مقام کو تبدیل کرلیتا ہے اور کئی تو اپنے آبائی مقام کو واپس چلے جاتے ہیں۔ حیدرآباد کے بیشتر نوجوان/ خاندان اپنے ہی ملک کی دوسری ریاستوں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے یا ملازمت کرنے کی خواہش نہیں رکھتے اور وہ اس کو ترجیح بھی نہیں دیتے، جب کہ یہاں کے نوجوان تعلیم و ملازمت کیلئے بیرون ممالک کو ہی ترجیح دیتے ہیں؛ ایسے میں وہ حق رائے دہی سے محروم رہتے ہیں۔
اعداد و شمار  بحوالہ  الیکشن  کمیشن۔(کرافیکس : عاصم رسول انس )۔
اعداد و شمار بحوالہ الیکشن کمیشن۔(کرافیکس : عاصم رسول انس )۔
  • کئی لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ ضلع حیدرآباداور خاص کر پرانے شہر میں ”کانٹے کی ٹکر“کا مقابلہ نہیں ہوتا۔ جتنی پارٹیاں میدان میں ہوتی ہیں، ان میں سے اکثر و بیشتر امیدوار مسلم ہوتے ہیں، اسی لیے کئی ووٹرس کنفیوژن کا شکار ہو کر صحیح سے فیصلہ نہیں کرپاتے اور کئی تو اسی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالتے۔
  • اس بار مختلف مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے بہت ہی غیر منظم انداز میں مختلف پارٹیوں کی تائید کا اعلان کیا، کسی تنظیم نے فلاں پارٹی کا تائید کی تو دوسری تنظیم نے فلاں پارٹی کی تائید کی بلکہ ایک ہی تنظیم نے ایک سے زائد پارٹیوں کی تائید کا بھی اعلان کیا۔

انتخابات کے دوران رائے دہی کے گھٹتے ہوئے فیصد کوکیسے کم کیا جائے؟ اس پر معروف سیاسی تجزیہ نگار اور روزنامہ منصف کے کالم نگار ایڈوکیٹ ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد کا کہنا ہے کہ ”الیکشن کے ذریعہ صحیح عوامی نمائندوں کو منتخب کرنا رائے دہندوں کی ذمہ داری ہے۔ ووٹ، شہریوں کا حق بھی ہے اور ایک فرض بھی ہے۔ باشعور شہریوں کی جانب سے حق رائے دہی سے احتراز  ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کردیتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں سے شکایت سکتی ہے۔ حکومتوں کی کارکردگی سے عوام مطمئن بھی نہیں ہوتے ہیں لیکن اس بنیاد پر اپنے جمہوری حق کو استعمال نہ کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں :

جمہوریت میں عوام ہی کو حکومت بنانے کا حق حاصل ہے۔ کوئی بھی پارٹی عوام کی رائے کی بنیاد پر ہی برسر اقتدار آتی ہے۔ اس لیے ووٹ کے استعمال کے بارے میں شعور بیداری کا کام ہر سطح پر ہونا ضروری ہے“۔ انتخابی سیاست میں ہر ایک کو اپنی عددی طاقت (Numerical strength)کے مظاہرہ کرنے کا موقع ملتا ہے، لیکن اس سے غفلت برتنا افسوس ناک ہے۔

جو لوگ ووٹ نہیں ڈالتے ان کا سب سے بڑا بہانہ ووٹر آئی ڈی نہ ہونے کا ہوتا ہے، جب کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ویب سائٹ پر کبھی بھی جانچ کی جاسکتی ہے کہ ہمارا ووٹر آئی کارڈ ہے یا نہیں۔ اگر کسی کا ووٹر آئی ڈی نہیں ہے یا جو 18 سال کا ہوگیا ہے تو وہ فارم 6 کو پرُ کرکے ویب سائٹ  https://voters.eci.gov.in/login  پرآن لائن رجسٹر کر سکتا ہے۔

نیا ووٹر آئی کارڈ بنانے کے لیے ضروری دستاویزات میں پاسپورٹ سائز فوٹو کی اسکین کاپی(جی پی جی فارمیٹ، سائز2 ایم بی سے کم)، موبائیل نمبر، ای میل آئی ڈی، آدھا نمبر، تاریخ پیدائش کے ثبوت کیلئے برتھ سرٹیفکیٹ یا آدھار کارڈ یا پین کارڈ یا ڈرائیونگ لائنسس یا پاسپورٹ یا ایس ایس سی سرٹیفکیٹ، رہائشی ثبوت کیلئے واٹریا الیکٹریسٹی یا کیس کنیشن  بل جس میں گھر کا پتہ ہو، جو کہ ایک سال کے اندر ہو، گھر میں کسی ایک فرد خاندان  کا حوالہ جس کے پاس پہلے ووٹر آئی ڈی ہو ضروری ہے۔ بہت سے غیر جمہوری ملکوں میں عوام رائے دہی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، ان پر کوئی بادشاہ مسلط رہتا ہے۔ رائے دہی کے جمہوری حق کو استعمال کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔نیا سال شروع ہوتے ہی پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میں ووٹنگ تناسب میں اضافہ ضروری ہے۔

تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے لئے پولنگ جاری، 119نشستوں کیلئے2290امیدوارکی قسمت کاہوگافیصلہ

تلنگانہ کے 119 اسمبلی حلقہ جات کیلئے آج صبح 7بجے سے پولنگ جاری ہے۔ صبح صبح پولنگ بوتھ پر ووٹ کرنے کے لئے آنے والے ووٹروں میں جوش وخروش دیکھاجارہاہے۔پولنگ کے لئے الیکشن کمیشن نے تمام انتظامات مکمل کیے ہیں ۔ 119 اسمبلی حلقہ جات میں 2290 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہورہاہے۔ جس کیلئے 35655 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں۔ ریاست کے تمام اضلاع میں انتخابی عملہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور دیگر آلات کے ساتھ متعلقہ پولنگ اسٹیشنوں میں  خدمات انجام دے رہاہے۔

آزادانہ و منصفانہ رائے دہی کیلئے پولنگ اسٹیشنوں کے باہر اور اندرونی حصہ میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔ چیف الیکٹورل آفیسر وکاس راج نے بتایا کہ صبح 7 تا شام 5 بجے تک 106 اسمبلی حلقہ جات میں رائے دہی ہوگی جبکہ ماویسٹوں سے متاثرہ 13 اسمبلی حلقہ جات میں صبح 7 تا شام 4 بجے رائے دہی ہوگی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انتخابی عملے کے تحفظ کیلئے مقامی پولیس کے علاوہ نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ ریاست میں انتخابی مہم کا منگل کو اختتام عمل میں آیا۔

الیکشن کمیشن نے وضاحت کی کہ ووٹر انفارمیشن سلپ نہ ہونے کی صورت میں رائے دہندے کسی اور شناختی کارڈ کے ذریعہ حق رائے دہی سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ انتخابی ڈیوٹی پر 1.48 لاکھ عہدیداروں اور ملازمین تعینات کئے گئے جنہوں نے پوسٹل بیالٹ کے ذریعہ رائے دہی میں حصہ لیا۔ ریاست بھر میں 27094 مراکز پر ویب کاسٹنگ کی سہولت موجود ہے۔ ووٹر شناختی کارڈ یا کوئی اور شناختی ثبوت کے ساتھ رائے دہی میں حصہ لے سکتے ہیں۔ پولنگ اسٹیشنوں میں سیل فون اور الیکٹرانک آلات کی اجازت نہیں رہے گی۔ الیکشن کمیشن نے رائے دہی کے دن تمام خانگی اداروں میں تعطیل کی ہدایت دی ہے اور خلاف ورزی پر کارروائی کا انتباہ دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں :

آزادانہ و منصفانہ رائے دہی یقینی بنانے پولیس اور الیکشن کمیشن کے مبصرین مسلسل دورہ کررہے ہیں۔ حساس پولنگ اسٹیشنوں کے اطراف زائد سیکوریٹی انتظامات کئے جارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پہلی مرتبہ 80 سال سے زائد عمر کے رائے دہندوں اور معذورین کیلئے گھر پر رائے دہی کی سہولت فراہم کی۔ تلنگانہ میں رائے دہندوں کی جملہ تعداد 32602799 ہے جن میں مرد 16298418 جبکہ خاتون رائے دہندے 16301705 ہیں۔ سرویس ووٹرس کی تعداد 15206 ہے جبکہ این آر آئی ووٹرس 2944 ہیں۔ 18 سے 19 سال عمر کے رائے دہندوں کی تعداد 999667 درج کی گئی ہے۔

ریاست کے 119 اسمبلی حلقہ جات کے 2290 امیدواروں میں 221 خواتین اور 2068 مرد امیدوار ہیں۔ رائے دہی کے پُرامن انعقاد کیلئے نیم فوجی دستوں کی 375 کمپنیاں اور ریاستی پولیس کے 50 ہزار ملازمین تعینات کئے جائیں گے۔ رائے دہی کی تکمیل کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو اسٹرانگ رومس میں محفوظ کیا جائے گا۔ رائے شماری 3 ڈسمبر اتوار کو ہوگی۔