Tag Archives: Polling

Lok Sabha Elections 2024:چوتھے مرحلے کے تحت96سیٹوں پر ووٹنگ جاری،اسداویسی، چندرابابونائیڈو نےڈالا ووٹ

لوک سبھا انتخابات 2024 کے چوتھے مرحلے کے لیے 9ریاستوں اور ایک مرکز کے زیر انتظام علاقے کی 96 سیٹوں پر آج صبح 7 بجے سے ووٹنگ جاری ہے۔ قابل ذکر ہے کہ چوتھے مرحلے کے لیے انتخابی مہم 11 مئی سنیچر کو ختم ہو گئی تھی۔ اس مرحلے میں آندھرا پردیش کی تمام 25 اور تلنگانہ کی تمام 17 سیٹوں پر ووٹنگ ہو رہی ہے۔ اتر پردیش کی 13، مہاراشٹر کی 11، مغربی بنگال کی 8، مدھیہ پردیش کی 8، بہار کی 5، جھارکھنڈ اور اڈیشہ کی 4-4 اور جموں و کشمیر کی ایک سیٹ پر ووٹنگ ہو رہی ہے۔

لوک سبھا انتخابات 2024 کا مرحلہ 4: آج ہوگا اہم امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ

اکھلیش یادو – اتر پردیش میں قنوج حلقہ۔
مہوا موئترا – مغربی بنگال کا کرشن نگر۔
ادھیر رنجن چودھری – بہرام پور، مغربی بنگال۔
گری راج سنگھ- بہار کے بیگوسرائے۔
وائی ​​ایس شرمیلا- کڑپہ، آندھرا پردیش۔
ارجن منڈا – جھارکھنڈ میں کھنٹی حلقہ۔
شتروگھن سنہا – آسنسول، مغربی بنگال۔
اسد الدین اویسی – حیدرآباد، تلنگانہ۔

 

حیدرآباد سے اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار اسد الدین اویسی نے حیدرآباد کے ایک پولنگ بوتھ پر اپنا ووٹ ڈالا۔ یہاں ان کا مقابلہ بی جے پی کی مادھوی لتا اور بی آر ایس کے گدام سرینواس یادو سے ہے۔

 

حیدرآباد لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کی امیدوار مادھوی لتا نے امرتا ودیالیم میں اپنا ووٹ ڈالا۔ مادھوی لتا نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہوں گی کہ آپ کا ایک قدم نہ صرف حیدرآباد اور تلنگانہ بلکہ ملک کو آگے لے جائے گا، یہ نہ صرف تلنگانہ کی ترقی کا باعث بنے گا بلکہ ملک کی معیشت کو پانچویں سے پہلے مقام پر لے جائے گا۔ ”

 

آندھراپردیش کے وزیراعلیٰ جگن موہن ریڈی نے بھی حق رائے دہی کا استعمال کیاہے۔ٹی ڈی پی کے سربراہ چندرابابو نائیڈو نے اپنا ووٹ ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے سیاسی کیریئر میں بوتھوں پر اتنی بھیڑ نہیں دیکھی۔ لوگ امریکہ، بنگلورو، چنئی سے ووٹ ڈالنے آرہے ہیں۔ عوام جمہوریت کے تحفظ کے لیے ووٹ ڈالنے آرہے ہیں۔

 

اداکار اللو ارجن جوبلی ہلز کے علاقے میں ایک پولنگ بوتھ پر اپنا ووٹ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘براہ کرم اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ یہ ہم سب کے لیے بہت ذمہ دارانہ دن ہے… میں جانتا ہوں کہ یہ مشکل ہے لیکن آئیے تھوڑی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہمارے مستقبل کے لیے سب سے اہم دن ہے۔اداکار جونیئر این ٹی آر اپنا ووٹ ڈالنے حیدرآباد کے جوبلی ہلز میں پولنگ بوتھ پہنچے۔ اس دوران انہوں نے سب سے باہر نکل کر ووٹ ڈالنے کی اپیل کی۔

 

لوک سبھا انتخابات کے چوتھے مرحلے کے لیے ووٹنگ، جس میں 10 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 96 حلقوں کا احاطہ کیا گیا ہے، صبح 7 بجے شروع ہوا۔ ووٹنگ شام 6 بجے ختم ہوگی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 96 پارلیمانی حلقوں کے لیے کل 4 ہزار 264 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے تھے جن میں 1717 حتمی امیدوار میدان میں ہیں۔

Lok Sabha Elections 2024: تیسرے مرحلہ کے تحت12ریاستوں کی93لوک سبھا سیٹوں پرپولنگ جاری، وزیراعظم نریندر مودی نے بھی دیاووٹ

لوک سبھا انتخابات کے تیسرے مرحلے کے لیے ووٹنگ جاری ہے جس میں 12 ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں شامل ہیں۔ آج کل 93 حلقوں میں ووٹنگ ہو رہی ہے۔ گجرات کی سورت سیٹ پر بی جے پی پہلے ہی بلا مقابلہ جیت چکی ہے۔ 19 اپریل اور 26 اپریل کو لوک سبھا انتخابات کے دو مراحل کی تکمیل کے بعد، 18 ویں لوک سبھا انتخابات کے تیسرے مرحلے کے لئے آج ووٹنگ ہورہی ہے۔

تیسرے مرحلے میں گوا کی 2، گجرات کی 25، چھتیس گڑھ کی 7 اور کرناٹک کی 14 سیٹوں پر ووٹنگ ہورہی ہے۔۔ اس کے ساتھ ہی ان ریاستوں میں انتخابات مکمل ہو جائیں گے۔ اس سے پہلے 26 اپریل کو دوسرے مرحلے کے دوران کرناٹک میں 14 سیٹوں پر انتخابات ہوئے تھے۔ دادرا اور نگر حویلی اور دمن اور دیو میں دو لوک سبھا سیٹوں کے لیے بھی آج ووٹنگ ہورہی ہے۔ان کے علاوہ آسام کی 4، بہار کی 5، چھتیس گڑھ کی 7، مدھیہ پردیش کی 8، مہاراشٹر کی 11، اتر پردیش کی 10 اور مغربی بنگال کی 4 نشستوں کے لیے ووٹنگ ہورہی ہے۔ یادہے کہ جموں و کشمیر میں اننت ناگ-راجوری لوک سبھا سیٹ کے لیے ووٹنگ کی تاریخ چھٹے مرحلے میں 25 مئی کو تبدیل کر دی گئی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے لوک سبھا انتخابات کے تیسرے مرحلے میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیاہے۔ انہوں نے احمد آباد کے پولنگ بوتھ پر پہنچ کر اور اپنا ووٹ ڈالا۔ اس دوران وزیر داخلہ امت شاہ بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔

 

آج سب سے زیادہ توجہ گاندھی نگر لوک سبھا سیٹ پر رہے گی۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ یہاں سے بی جے پی کے امیدوار ہیں۔ بی جے پی کا گڑھ سمجھی جانے والی اس سیٹ کی نمائندگی لال کرشن اڈوانی جیسے قدآور لیڈر کرتے رہے ہیں۔ پارٹی 1989 سے اس سیٹ پر ناقابل شکست ہے۔مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے بھی گاندھی نگر پہنچ کر اپنا ووٹ دیاہے۔

لوک سبھا انتخابات کے لیے اب تک دو مرحلوں میں 189 سیٹوں پر ووٹنگ ہو چکی ہے۔ آج 93 سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی۔ باقی چار مرحلوں میں 260 سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی۔ تیسرے مرحلے میں 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 17 کروڑ ووٹر اپنا ووٹ ڈالیں گے۔ اس مرحلے میں 1331 امیدوار میدان میں ہیں۔

Lok Sabha Elections 2024: دوسرے مرحلے کےتحت 13ریاستوں کی88سیٹوں پرووٹنگ جاری، سیکورٹی کےسخت انتظامات

لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے میں آج یعنی جمعہ 26اپریل کو 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام ایک علاقے سمیت 88 سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی۔ ووٹنگ صبح 7 بجے سے شام 6 بجے تک جاری رہے گی ۔اٹھاسی نشستوں کیلئے کل 1206 امیدوار انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ اس مرحلے میں کیرالا سے 20، کرناٹک سے 14، راجستھان سے 13، مہاراشٹرا اور اتر پردیش سے آٹھ، مدھیہ پردیش سے چھ، آسام اور بہار سے پانچ، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال اور جموں و کشمیر سے تین‘ تین سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی۔ جبکہ منی پور اور تریپورہ میں ایک‘ ایک سیٹ پر انتخابات ہورہے ہیں ۔ دوسرے مرحلے میں مدھیہ پردیش کی بیتول سیٹ پر انتخابات ہونا تھے لیکن بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار کی موت کی وجہ سے اب اس سیٹ پر تیسرے مرحلے میں 7 مئی کو انتخابات کرائے جائیں گے ۔

دوسرے مرحلے میں 1202 امیدوار میدان میں ہیں جن میں 1098 مرد اور 102 خواتین ہیں۔ دوسرے مرحلے کی مہم بدھ کی شام کو ختم ہو گئی۔ پولنگ اور سکیورٹی اہلکاروں کی نقل و حرکت کے لیے کم از کم تین ہیلی کاپٹر، چار خصوصی ٹرینیں اور 80,000 گاڑیاں تعینات کی گئی ہیں۔الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس مرحلے میں 1.67 لاکھ پولنگ اسٹیشنوں پر 16 لاکھ سے زیادہ پولنگ افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔

وہیں وزیراعظم نریندر مودی نے 7 زبانوں میں ٹویٹ کرکے ووٹنگ کی اپیل کی۔

 

راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا اور کہا کہ میرے پیارے ہم وطنو! آج اس تاریخی الیکشن کا دوسرا مرحلہ ہے جو ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے جا رہا ہے۔ آپ کا ووٹ فیصلہ کرے گا کہ اگلی حکومت ‘چند ارب پتیوں’ کی ہوگی یا ‘140 کروڑ ہندوستانیوں’ کی؟ لہٰذا ہر شہری کا فرض ہے کہ آج گھر سے باہر نکلے اور آئین کا سپاہی بن کر جمہوریت کے تحفظ کے لیے ووٹ ڈالے۔

 

دوسرے مرحلہ کی ہائی پروفائل سیٹوں پر جہاں کانگریس لیڈر راہول گاندھی اور ششی تھرور کی قسمت کا فیصلہ ہو گا وہیں تین مرکزی وزراء اور دو سابق وزرائے اعلیٰ کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔ متھرا سیٹ سے ہیما مالنی اور میرٹھ سیٹ سے سیریل رامائن کا کردار ادا کرنے والے ارون گوول پر بھی سب کی نظریں ہیں۔ دوسرے مرحلہ کی رائے دہی کے دوران بعض ریاستوں میں شدید گری کی پیش قیاسی کی گئی ہے ۔ سات مرحلوں میں کرائے جانے والے لوک سبھا انتخابات کے ووٹوں کی گنتی 4 جون کو ہوگی۔الیکشن کمیشن کے مطابق اس مرحلے کے لیے 89 جنرل مشاہدین ، 53 پولیس مشاہدین اور 109 ایکسپینڈیچر آبزرور تعینات کیے گئے ہیں۔

 

الیکشن کمیشن نے معذوروں اور 80 سال سے زائد عمر کے ووٹروں کے لیے گھر بیٹھے ووٹ ڈالنے کی سہولت بھی فراہم کی ہے ۔ شدید گرمی کے پیش نظر پولنگ اسٹیشنز پر پینے کے پانی اور شیڈ کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔19 اپریل کو پہلے مرحلے میں ٹرن آؤٹ 66 فیصد سے کچھ زیادہ تھا جو کہ 2019 کے اوسط ٹرن آؤٹ سے تین فیصد کم تھا۔

تلنگانہ اسمبلی : حیدرآباد میں ووٹنگ کاگھٹتاتناسب: آخراس درد کی دواکیاہے؟

حیدرآبادضلع میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹنگ فیصد مسلسل گھٹتا جارہا ہے۔ جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے، وہاں ہر الیکشن میں ووٹنگ تناسب میں کمی آتی جارہی ہے۔تلنگانہ اسمبلی انتخابات 2023 کے دوران حیدآباد ضلع میں مجموعی طور پر 47.88 فیصد رائے دہی ہوئی، جب کہ ریاست بھر میں یہ تناسب 71.07 فیصد ہے۔ حیدرآباد ضلع میں 15 اسمبلی حلقہ جات کے علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اگر ہم حالیہ ووٹنگ تناسب کا پچھلے انتخابات سے موازنہ کریں گے، تو اس میں واضح فرق نظر آئے گا۔ حیدرآبادضلع  میں سال 2018 میں 50.86 فیصد اور سال 2014 میں 52.99 فیصد پولنگ ہوئی تھی۔ یہ آبادی کا وہ تناسب ہے، جو کہ ووٹ ڈالنے کا اہل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ووٹ ڈالنے کی اہل آبادی ہے؛ اس میں سے قریب آدھی آبادی نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال ہی نہیں کیا۔ حیدرآبادضلع میں پچھلے دو اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں اس بار نہایت ہی کم رائے دہی ہوئی۔

سال 2014 میں تشکیل تلنگانہ کے بعد سے اب تک 2014، 2018 اور 2023  میں تین بار اسمبلی انتخابات ہوئے۔ ہر بار یہاں اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں سے متعلق موضوعات انتخابات کے دوران موضوع بحث رہے۔ دو قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی قیادت کی کئی اہم شخصیات کی جانب سے تلنگانہ میں انتخابی تشہیر کے دوران ووٹروں کو لبھانے کیلئے وعدے کیے گئے اور مسلمانوں کی تائید یا مخالفت کرنے کیلئے چوکانے والے بیانات بھی دیئے گئے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ بنڈی سنجے کمار نے بلدیاتی انتخابات 2020 میں کہا تھا کہ اگر بی جے پی برسر اقتدار آئی تو وہ پرانے شہر حیدرآباد میں سرجیکل اسٹریک کرائے گی۔

نیوز18 اردو اب وہاٹس ایپ پر بھی، جوائن کرنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

وہیں رواں انتخابات میں وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی تلنگانہ صدر جی کشن ریڈی نے بار بار یہ بات کہی کہ اگر تلنگانہ میں بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو مسلمانوں کو ملنے والے تحفظات کو ختم کردیا جائے گا۔ اس سب کے باوجود بھی ووٹنگ تناسب میں پہلے کے مقابلے میں کمی ہی آئی ہے۔ تلنگانہ اسمبلی انتخابات 2023 میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے 8، کانگریس کے 6، بھارت راشٹر سمیتی (بی آر ایس) کے 3 اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے 5 کے علاوہ کئی آزاد مسلم امیدوار میدان میں تھے۔

حیدر آباد ضلع کے اسمبلی حلقہ جات میں رائے دہی کا فیصد پوری ریاست کے مقابلہ میں سب سے کم ریکارڈ کیا گیا۔ حیدر آبادضلع  کی اسمبلی نشستوں پر صرف 47.88 فیصد رائے دہی ریکارڈ کی گئی۔ حلقہ اسمبلی گوشہ محل میں 55.38 فیصد،حلقہ اسمبلی چندرائن گٹہ میں 45.26 فیصد، حلقہ اسمبلی یا قوت پورہ میں 39.69 فیصد، حلقہ بہادر پورہ میں 45.5 فیصد، حلقہ اسمبلی چار مینار میں 43.27 فیصد، حلقہ کاروان میں 48.72 فیصد، حلقہ نامپلی میں 45.56 فیصد، حلقہ ملک پیٹ میں 41.32 فیصد، حلقہ مشیر آباد میں 50.55 فیصد، حلقہ عنبر پیٹ میں 52.5 فیصد، حلقہ جوبلی ہلز میں 47.49 فیصد، حلقہ صنعت نگر میں 51.96فیصد، حلقہ سکندر آباد میں 53.75 فیصد اور حلقہ سکندر آباد کنٹونمنٹ میں 49.36 فیصدرائے دہی درج کی گئی۔

اعداد و شمار  بحوالہ  الیکشن  کمیشن۔(کرافیکس : عاصم رسول انس )۔
اعداد و شمار بحوالہ الیکشن کمیشن۔(کرافیکس : عاصم رسول انس )۔

ضلع حیدرآباد کے اسمبلی حلقوں میں سال 2009، 2014 اور 2018 کے مقابلے میں 2023 کے انتخابات میں مسلم اکثریتی علاقوں میں سب سے کم ووٹنگ تناسب رہا ہے۔ آخر اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ سیاسی تجزیہ نگار اور عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر کے ناگیشور کا کہنا ہے کہ”حالیہ عرضہ میں ہوئی کورونا سے اموات یا ووٹروں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا ذکر انتخابی فہرست (electoral list) میں نہیں ہوتا۔ حقیقی ووٹرز کی اصل تعدادانتخابی فہرست میں درج فہرست تعداد سے کم ہو سکتی ہے“۔ لیکن اور بھی کئی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے ووٹنگ تناسب مسلسل گھٹتا جارہا ہے۔

  • کئی ووٹرس کے پاس ان کا ووٹر آئی ڈی کارڈ نہیں ہے لیکن الیکشن کمیشن آف انڈیا اور الیکشن کمیشن آف تلنگانہ نے انتخابات سے بیشتر ماہ قبل ہی رائے دہندگان کے لیے رہنمائی کی۔ اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے ای سی آئی نے معلومات فراہم کی۔ کیا اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا؟
  • جس دن انتخابات ہوتے ہیں، اس دن کو جشن جمہوریت اور اپنے پسند کے قائد کو منتخب کرنے کے دن کے بجائے ایک عام سی چھٹی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پہلے تو اس دن آرام سے دوپہر تک لوگ سوئے رہتے ہیں اور اس کے بعد گھر میں بزرگ ووٹ ڈالتے بھی ہیں تو خواتین اور دیگر لوگ ووٹنگ کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔
  • ایک اور اہم وجہ تعلیم یا ملازمت کی خاطر حیدرآباد کے نوجوانوں / خاندانوں کا بیرون ملک ہجرت ہے۔ عموماً ملک کی دوسری ریاستوں کے نوجوان اپنے ملک کی دوسری ریاستوں میں جاکر تعلیم یا ملازمت حاصل کرتے ہیں؛ وہ دوسری ریاست میں جا کر اپنے ووٹ ڈالنے کے مقام کو بھی تبدیل کر لیتے ہیں۔ جیسے اترپردیس کا کوئی شخص حیدرآباد میں پانچ یا دس سال سے رہ رہا ہے تو وہ اپنے ووٹ ڈالنے کے مقام کو تبدیل کرلیتا ہے اور کئی تو اپنے آبائی مقام کو واپس چلے جاتے ہیں۔ حیدرآباد کے بیشتر نوجوان/ خاندان اپنے ہی ملک کی دوسری ریاستوں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے یا ملازمت کرنے کی خواہش نہیں رکھتے اور وہ اس کو ترجیح بھی نہیں دیتے، جب کہ یہاں کے نوجوان تعلیم و ملازمت کیلئے بیرون ممالک کو ہی ترجیح دیتے ہیں؛ ایسے میں وہ حق رائے دہی سے محروم رہتے ہیں۔
اعداد و شمار  بحوالہ  الیکشن  کمیشن۔(کرافیکس : عاصم رسول انس )۔
اعداد و شمار بحوالہ الیکشن کمیشن۔(کرافیکس : عاصم رسول انس )۔
  • کئی لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ ضلع حیدرآباداور خاص کر پرانے شہر میں ”کانٹے کی ٹکر“کا مقابلہ نہیں ہوتا۔ جتنی پارٹیاں میدان میں ہوتی ہیں، ان میں سے اکثر و بیشتر امیدوار مسلم ہوتے ہیں، اسی لیے کئی ووٹرس کنفیوژن کا شکار ہو کر صحیح سے فیصلہ نہیں کرپاتے اور کئی تو اسی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالتے۔
  • اس بار مختلف مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے بہت ہی غیر منظم انداز میں مختلف پارٹیوں کی تائید کا اعلان کیا، کسی تنظیم نے فلاں پارٹی کا تائید کی تو دوسری تنظیم نے فلاں پارٹی کی تائید کی بلکہ ایک ہی تنظیم نے ایک سے زائد پارٹیوں کی تائید کا بھی اعلان کیا۔

انتخابات کے دوران رائے دہی کے گھٹتے ہوئے فیصد کوکیسے کم کیا جائے؟ اس پر معروف سیاسی تجزیہ نگار اور روزنامہ منصف کے کالم نگار ایڈوکیٹ ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد کا کہنا ہے کہ ”الیکشن کے ذریعہ صحیح عوامی نمائندوں کو منتخب کرنا رائے دہندوں کی ذمہ داری ہے۔ ووٹ، شہریوں کا حق بھی ہے اور ایک فرض بھی ہے۔ باشعور شہریوں کی جانب سے حق رائے دہی سے احتراز  ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کردیتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں سے شکایت سکتی ہے۔ حکومتوں کی کارکردگی سے عوام مطمئن بھی نہیں ہوتے ہیں لیکن اس بنیاد پر اپنے جمہوری حق کو استعمال نہ کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں :

جمہوریت میں عوام ہی کو حکومت بنانے کا حق حاصل ہے۔ کوئی بھی پارٹی عوام کی رائے کی بنیاد پر ہی برسر اقتدار آتی ہے۔ اس لیے ووٹ کے استعمال کے بارے میں شعور بیداری کا کام ہر سطح پر ہونا ضروری ہے“۔ انتخابی سیاست میں ہر ایک کو اپنی عددی طاقت (Numerical strength)کے مظاہرہ کرنے کا موقع ملتا ہے، لیکن اس سے غفلت برتنا افسوس ناک ہے۔

جو لوگ ووٹ نہیں ڈالتے ان کا سب سے بڑا بہانہ ووٹر آئی ڈی نہ ہونے کا ہوتا ہے، جب کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ویب سائٹ پر کبھی بھی جانچ کی جاسکتی ہے کہ ہمارا ووٹر آئی کارڈ ہے یا نہیں۔ اگر کسی کا ووٹر آئی ڈی نہیں ہے یا جو 18 سال کا ہوگیا ہے تو وہ فارم 6 کو پرُ کرکے ویب سائٹ  https://voters.eci.gov.in/login  پرآن لائن رجسٹر کر سکتا ہے۔

نیا ووٹر آئی کارڈ بنانے کے لیے ضروری دستاویزات میں پاسپورٹ سائز فوٹو کی اسکین کاپی(جی پی جی فارمیٹ، سائز2 ایم بی سے کم)، موبائیل نمبر، ای میل آئی ڈی، آدھا نمبر، تاریخ پیدائش کے ثبوت کیلئے برتھ سرٹیفکیٹ یا آدھار کارڈ یا پین کارڈ یا ڈرائیونگ لائنسس یا پاسپورٹ یا ایس ایس سی سرٹیفکیٹ، رہائشی ثبوت کیلئے واٹریا الیکٹریسٹی یا کیس کنیشن  بل جس میں گھر کا پتہ ہو، جو کہ ایک سال کے اندر ہو، گھر میں کسی ایک فرد خاندان  کا حوالہ جس کے پاس پہلے ووٹر آئی ڈی ہو ضروری ہے۔ بہت سے غیر جمہوری ملکوں میں عوام رائے دہی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، ان پر کوئی بادشاہ مسلط رہتا ہے۔ رائے دہی کے جمہوری حق کو استعمال کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔نیا سال شروع ہوتے ہی پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میں ووٹنگ تناسب میں اضافہ ضروری ہے۔