Tag Archives: Congress

کانگریس کے امیدوار کنہیا کمار کو ایک نامعلوم شخص نےماردیازوردار تھپڑ، ویڈیو وائرل

نئی دہلی: جمعہ کو، ملک کی راجدھانی دہلی میں انتخابی جوش و خروش کے درمیان، شمال مشرقی سیٹ سے کانگریس کے امیدوار کنہیا کمار کو ایک نامعلوم شخص نے زوردار تھپڑ مار دیا۔ جب یہ واقعہ ہوا، کنہیا لوک سبھا انتخابات 2024 کی مہم چلا رہے تھے۔ ہار پہنانے کے بہانے یہ شخص کنہیا کے پاس پہنچا اور اسے زور سے تھپڑ مارا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس شخص نے یہ نا زیبا حرکت کرنے سے پہلے ویڈیو بنائی تھی۔ اس کا ساتھی موبائل کیمرہ پکڑ کر پہلے کہتا ہے کہ ‘کنہیا کو اب مارا پیٹا جائے گا’۔ جبکہ اس وقت اس کا ساتھی بھیڑ میں آہستہ آہستہ کنہیا کی طرف مالا لے کر آگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انہیں ہار پہنانے کے بعد اس شخص نے کنہیا کمار کو تھپڑ مارا جس کے بعد کافی ہنگامہ ہوا۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کنہیا کو تھپڑ مارنے والا شخص کون ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں دہلی پولیس کو ابھی تک کوئی باضابطہ شکایت نہیں دی گئی ہے۔ نیوز 18 اردو اپنے طورپر اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کر سکتاہے۔

 

یادرہے کہ انڈیا الائنس کے تحت دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے۔ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی چار سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے جبکہ کانگریس پارٹی کو تین سیٹیں ملی ہیں۔

جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کی سیاست میں نام کمانے کے بعد کنہیا کمار کانگریس پارٹی میں شامل ہوگئے۔ بعد میں انہیں کانگریس پارٹی کی طلبہ یونین یونٹ کا صدر بھی بنایا گیا۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران کانگریس پارٹی نے انہیں دہلی کی سیاست میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، ان کا نام سامنے آنے کے بعد، ارویندر سنگھ لولی، جو ریاستی یونٹ کے صدر تھے، نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

سیم پترودا نے اوورسیز کانگریس صدر کے عہدہ سے دیا استعفی، ’نسلی‘ تبصرہ پر تنازع کے بعد اٹھایا قدم

نئی دہلی : سیم پیترودا نے بدھ کو انڈین اوورسیز کانگریس (IOC) کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش نے ٹویٹ کرکے یہ جانکاری دی۔ انہوں نے بتایا کہ پترودا کا استعفیٰ پارٹی صدر ملکارجن کھرگے نے قبول کر لیا ہے۔

پترودا نے یہ قدم ایک ایسے وقت میں اٹھایا ہے جب ملک میں ان کے ایک ریمارک پر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’مشرق کے لوگ چینی اور جنوبی ہندوستانی افریقیوں کی طرح نظر آتے ہیں‘‘۔ حالانکہ کانگریس نے پترودا کے تبصروں سے خود کو الگ کرتے ہوئے اس کو بدقسمتی اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ پارٹی نے کہا کہ وہ ان تبصروں سے خود کو مکمل طور پر الگ کرتی ہے۔

دوسری طرف حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے پترودا کو ان کے ‘نسلی’ تبصروں پر نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ اس سے اپوزیشن پارٹی کی ‘تقسیم’ کرنے سیاست بے نقاب ہوگئی ہے۔ انڈین اوورسیز کانگریس کے سربراہ پترودا نے ایک پوڈ کاسٹ میں کہا کہ “ہم 75 سالوں سے بہت ہی خوشگوار ماحول میں رہ رہے ہیں، جہاں کچھ لڑائیوں کو چھوڑ دیں تو لوگ ساتھ رہ سکتے ہیں ۔ ”

پترودا نے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کررہے اس انٹرویو میں کہا کہ “ہم ہندوستان جیسے متنوع ملک کو متحد رکھ سکتے ہیں۔ جہاں مشرق کے لوگ چینیوں کی طرح لگتے ہیں، مغرب کے لوگ عربوں جیسے لگتے ہیں، شمال کے لوگ گورے اور جنوبی ہند کے لوگ افریقیوں جیسے لگتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم سب بہن بھائی ہیں۔ ہندوستان میں الگ الگ خطوں کے لوگوں کے رسم و رواج، کھانا پینا، مذہب، زبان الگ الگ ہیں، لیکن ہندوستان کے لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔

سیم پترودا کے نئے بیان سے مچا ہنگامہ، کانگریس نے اختیار کی کنارہ کشی، بی جے پی ہوئی حملہ آور

نئی دہلی : کانگریس لیڈر سیم پترودا نے بدھ کو ایک اور تنازعہ کو جنم دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مشرقی حصے میں رہنے والے لوگ چینی جیسے اور ساوتھ میں رہنے والے افریقیوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد حکمراں بی جے پی نے اس معاملے کو لپک لیا اور اسے نسل پرستانہ تبصرہ ہونے کا دعوی کیا ۔ بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ سیم پترودا کے اس بیان نے اپوزیشن پارٹی کی ‘تقسیم’ کی سیاست کو بے نقاب کردیا ہے۔ ادھر کانگریس نے پترودا کے بیان سے خود کو الگ کرلیا ہے ۔ کانگریس نے اس تبصرہ کو بدقسمتی اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

آج ایک پوڈ کاسٹ میں انڈین اوورسیز کانگریس کے سربراہ سیم پترودا نے کہا کہ ‘ہم گزشتہ 75 سالوں سے بہت خوشگوار ماحول میں رہ رہے ہیں۔ جہاں مختلف قسم کے لوگ یہاں ۔ وہاں کچھ جھگڑوں کو چھوڑ کر ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ۔ ہم ملک کو ایک ساتھ ہندوستان کے طور پر متنوع شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں مشرق کے لوگ چینیوں کی طرح نظر آتے ہیں، مغرب میں لوگ عربوں کی طرح نظر آتے ہیں، شمال میں لوگ شاید گورے جیسے اور جنوب کے لوگ افریقیوں کی طرح نظر آتے ہیں، پترودا نے کہا کہ ہم سب بھائی بہن ہیں۔

پترودا کے بیان سے خود کو الگ کرتے ہوئے کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ٹویٹر پر کہا کہ ‘سیم پترودا کی طرف سے پوڈ کاسٹ میں ہندوستان کے تنوع کو اجاگر کرنے کے لیے کھینچی گئی تصویر انتہائی بدقسمتی اور ناقابل قبول ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس ان تبصروں سے پوری طرح الگ ہے۔’ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی نے کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جیسے جیسے لوک سبھا انتخابات آگے بڑھ رہے ہیں ، اپوزیشن پارٹی کانگریس کی حقیقت تیزی سے اجاگر ہوتی جارہی ہے ۔ بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ پترودا کے ‘نسل پرستانہ’ تبصروں نے ملک کو نسل، مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے کانگریس کے اصلی ارادے کو بے نقاب کردیا ہے۔

بی جے پی لیڈر راجیو چندر شیکھر اور سدھانشو ترویدی نے دعویٰ کیا کہ پترودا نے ہندوستان کے اس خیال پر روشنی ڈالی ہے جس پر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی جیسے سینئر کانگریسی لیڈر بھروسہ کرتے ہیں۔ ترویدی نے کہا کہ موجودہ لوک سبھا انتخابات اب ہندوستان میں غیر ملکی ذہنیت کے زیر اثر کام کرنے والوں اور ان لوگوں کے درمیان ایک لڑائی بن گئے ہیں، جو خود کفیل اور عزت نفس کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔

بی جے پی کے ہوئے اروند سنگھ لولی، راجکمار چوہان اور نصیب سنگھ نے بھی کانگریس کو دیا جھٹکا

نئی دہلی : دہلی کانگریس کے سابق صدر ارویندر سنگھ لولی ہفتہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شامل ہو گئے۔ لولی کے ساتھ سابق ایم ایل اے نیرج بسویا اور نصیب سنگھ کے ساتھ ساتھ سابق وزیر راج کمار چوہان بھی بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔ ارویندر لولی اور راج کمار چوہان دونوں شیلا دکشت حکومت میں وزیر رہے تھے۔

کانگریس لیڈر ارویندر سنگھ لولی نے 28 اپریل کو کانگریس کی دہلی یونٹ کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے کو لکھے ایک خط میں لولی نے کہا تھا کہ وہ پارٹی کی دہلی یونٹ کے صدر کے عہدہ پر بنے رہنے میں قاصر ہیں۔  شیلا دکشت کی حکومت میں وزیر رہے لولی  کو گزشتہ سال اگست میں دہلی کانگریس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

کھرگے کو لکھے ایک خط میں انہوں نے کہا تھا کہ میں نے دہلی پردیش کانگریس کمیٹی (DPCC) کے صدر کے کردار کو شکریہ کے ساتھ قبول کیا جس کا واحد مقصد کانگریس پارٹی کے مقامی کارکنوں کی مدد کرنا ہے، جن کے ساتھ میرا بہت قریبی اور زندگی بھر کا جڑاو رہا ہے ۔

لولی نے خط میں کہا تھا کہ چونکہ میں پارٹی کارکنوں کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتا ہوں، اس لیے مجھے اس عہدے پر برقرار رہنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی ہے۔ لہذا، گہرے افسوس اور بھاری دل کے ساتھ میں ڈی پی سی سی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔

لولی نے کہا کہ کانگریس کی دہلی یونٹ AAP کے ساتھ اتحاد کے خلاف تھی، لیکن انہوں نے پھر بھی عوامی طور پر اس کی حمایت کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ پوری یونٹ “ہائی کمان کے احکامات پر عمل کرے۔” انہوں نے کہا تھا کہ پارٹی کے مفاد میں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ دوسرے سینئر لیڈروں کو ٹکٹ مل سکے، یہاں تک کہ انہوں نے لوک سبھا انتخابات کے ممکنہ امیدوار کے طور پر اپنا نام واپس لے لیا۔

کانگریس نےامیٹھی سےکشوری لال شرماکو کیوں بنایاامیدوار؟کیاکانگریس لہرائیگی کامیابی کاپرچم؟

امیٹھی: امیٹھی سے کانگریس امیدوار کشوری لال شرما نے پرینکا گاندھی کی موجودگی میں اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا۔ امیٹھی بھی اب ہاٹ سیٹ بن گئی ہے۔ گاندھی خاندان بھلے ہی براہ راست انتخابات میں حصہ نہ لے رہا ہو، لیکن مقابلہ گاندھی خاندان کے نمائندے سے ہے، جو گاندھی خاندان کی پسند کے مطابق پہلی بار انتخابی میدان میں اترا ہے۔ اس بار امیٹھی سے کانگریس کے امیدوار کشوری لال شرما ہے جو گاندھی خاندان کے قریبی کارکنوں میں سے ایک ہیں۔ وہ بنیادی طور پر کھتری برہمن ہیں اور لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ راجیو گاندھی کے قریب تھے، پہلی بار ان کے ساتھ امیٹھی آئے اور تب سے یہاں قیا م کیے ہوئے ہیں۔

کشوری لال بھی ذات کی مساوات میں فٹ بیٹھتے ہیں۔ امیٹھی میں دلت (26 فیصد)، مسلمانوں (20 فیصد) اور برہمن (18 فیصد) کا غلبہ ہے۔ یہاں کی سب سے زیادہ آبادی او بی سی کیٹیگری سے تعلق رکھتی ہے۔ امیٹھی لوک سبھا حلقہ میں او بی سی زمرہ کے تقریباً 34 فیصد ووٹر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امیٹھی میں تقریباً 8 فیصد برہمن اور تقریباً 12 فیصد راجپوت ووٹر ہیں۔ ایسے میں کانگریس کو لگتا ہے کہ کے ایل شرما ذات پات کے مساوات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ گاندھی خاندان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ انتخابی مہم میں کشوری لال شرما کی مکمل حمایت کریں گے۔

 

یہ بات بھی اہم ہے کہ 2019 کے انتخابات میں ایس پی۔بی ایس پی نے اتحاد میں الیکشن لڑا تھا اور اس اتحاد نے امیٹھی سیٹ سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ اس بار بی ایس پی کے ننھے سنگھ چوہان کے داخلے سے مقابلہ سہ رخی ہو گیا ہے۔

شرما کی بات کریں تو اس وقت بھی جب گاندھی خاندان نے ان دو سیٹوں پر الیکشن نہیں لڑا تھا، کے ایل شرما یہاں ہی رہے اور مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل گئے۔

جب سے سونیا گاندھی ایم پی بنی ہیں، کے ایل شرما امیٹھی اور رائے بریلی سیٹوں پر زمینی کام کرنے اور کروانے کی تمام ذمہ داری لے رہے ہیں۔ اس علاقے سے آنے والے لوگ کے ایل شرما کا نام جانتے ہوں گے۔ وہ نرم گو ہے، سادہ شخصیت کے مالک ہیں، ایک ہنر مند منیجر ہیں اور میڈیا کی چکاچوند سے دور رہتے ہیں۔

راہل گاندھی نےرائے بریلی سیٹ سےداخل کیاپرچہ نامزدگی، بڑی تعداد میں ریلی میں شریک ہوئےلوگ

رائے بریلی: راہل گاندھی نے جمعہ کو رائے بریلی لوک سبھا سیٹ سے پرچہ نامزدگی داخل کیا۔ اس دوران سونیا گاندھی، پرینکا گاندھی اور اشوک گہلوت موجود تھے۔ جمعہ کی صبح ہی کانگریس پارٹی نے امیٹھی اور رائے بریلی سیٹوں سے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیاتھا۔ جس کے بعد راہل گاندھی اپنی والدہ سونیا گاندھی، بہن پرینکا گاندھی واڈرا، راجستھان کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت، پارٹی کے قومی صدر ملکارجن کھرگے اور دیگر کے ساتھ رائے بریلی کے فرسات گنج ہوائی اڈے پر طیارے سے اترے۔

قیاس آرائیو ں کو ختم کرتے ہوئے، پارٹی نے جمعہ کی صبح اعلان کیا کہ راہول گاندھی رائے بریلی سیٹ سے لوک سبھا الیکشن لڑیں گے، جو پہلے ان کی ماں سونیا گاندھی کا حلقہ تھا۔ پارٹی نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ گاندھی خاندان کے قریبی ساتھی کشوری لال شرما کو امیٹھی لوک سبھا سیٹ سے میدان میں اتارا گیا ہے۔ شرما نے گاندھی خاندان کی غیر موجودگی میں ان دو باوقار حلقوں میں کام کیاہے۔ سات مرحلوں والے لوک سبھا انتخابات کے پانچویں مرحلے میں جن سیٹوں کے لیے ووٹنگ 20 مئی کو ہوگی، ان کے لیے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کی آج آخری تاریخ ہے۔

 

رائے بریلی اور امیٹھی سیٹوں کے لیے ووٹنگ صرف 20 مئی کو ہوگی۔ ووٹوں کی گنتی 4 جون کو ہوگی۔ اس دوران امیٹھی سے کانگریس امیدوار کشوری لال شرما نے پرینکا گاندھی کی موجودگی میں اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا۔

آپ کو بتا دیں کہ اس سے قبل قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ پرینکا گاندھی امیٹھی سے الیکشن لڑ سکتی ہیں۔ لیکن اب امیدواروں کے ناموں کے اعلان کے بعد تمام قیاس آرائیاں ختم ہوگئیں۔

کانگریس نے جاری کی امیدواروں ایک اور فہرست، راج ببر گروگرام سے لڑیں گے الیکشن، آنند شرما کو بھی ٹکٹ ملا

نئی دہلی : کانگریس نے منگل کو اپنے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر آنند شرما کو ہماچل پردیش کے کانگڑا لوک سبھا حلقہ سے اپنا امیدوار اعلان کیا ہے ۔ پارٹی نے اداکار اور اتر پردیش کانگریس کمیٹی کے سابق صدر راج ببر کو ہریانہ کے گروگرام (گڑگاؤں) پارلیمانی حلقہ سے ٹکٹ دیا ہے۔ کانگریس کی طرف سے جاری کردہ امیدواروں کی فہرست کے مطابق ہماچل پردیش کے ہمیر پور سے ستپال رائے زادہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے جو اطلاعات و نشریات کے وزیر انوراگ ٹھاکر کو چیلنج کریں گے۔ پارٹی نے بھوشن پٹیل کو ممبئی شمالی لوک سبھا حلقہ سے نامزد کیا ہے، جہاں ان کا مقابلہ بی جے پی کے پیوش گوئل سے ہوگا۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی قیادت والی حکومت میں وزیر تجارت اور صنعت رہے آنند شرما طویل عرصے تک راجیہ سبھا کے رکن رہے ہیں۔ ایوان بالا میں ان کی میعاد اپریل 2022 میں مکمل ہوئی تھی، حالانکہ اس کے بعد پارٹی نے انہیں راجیہ سبھا نہیں بھیجا تھا۔

کانگریس نے راج ببر کو دہلی سے متصل گروگرام پارلیمانی حلقہ سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ اتر پردیش کی سیاست میں اب تک سرگرم رہنے والے راج ببر پہلی بار ہریانہ میں اپنی سیاسی قسمت آزمانے جا رہے ہیں۔ وہ ہریانہ کے سابق وزیر اعلی بھوپیندر سنگھ ہڈا کے قریبی مانے جاتے ہیں۔

ہماچل پردیش کی چاروں لوک سبھا سیٹوں کے لیے یکم جون کو اور ہریانہ کی سبھی 10 لوک سبھا سیٹوں کے لیے 25 مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ووٹوں کی گنتی 4 جون کو ہوگی۔

فرضی ویڈیو کے معاملہ پرامت شاہ نے کانگریس کو بنایانشانہ، کہا۔انتخابات منشورپر لڑنا چاہیے

گوہاٹی: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے آج گوہاٹی میں پریس کانفرنس کی۔ اس دوران انہوں نے اپنے فرضی ویڈیو پر کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایاہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے ان کا فرضی ویڈیو بنایا ہے۔ کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے امت شاہ نے کہا کہ اپوزیشن کو منشور پر الیکشن لڑنا چاہئے نہ کہ جعلی ویڈیوز ےدم پر۔ شاہ نے کہا کہ راہول گاندھی کی قیادت میں سیاست اپنی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ کانگریس کو بتانا چاہئے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔

یاد رہے کہ دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے اتوار کو بتایا کہ مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کی ایک ڈاکٹریٹ والی ویڈیو کو عام کرنے کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی ہے جس میں ریزرویشن پر ان کے موقف کو غلط بتایا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ہینڈلز کا ذکر کیاگیاہے۔ جنہوں نے شاہ کے بیانات میں ترمیم کرتے ہوئے جھوٹا دعویٰ کیا کہ وزیر داخلہ نے ملک میں ریزرویشن ختم کرنے کی دلیل دی تھی۔

 

مرکزی وزیر کرن رجیجو نے ‘X’ پر وزیر داخلہ کا اوریجنل اور ‘ترمیم شدہ’ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو گمراہ کرنا جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ امن کو خراب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔” دہلی پولیس کی یہ کارروائی بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ کے اس بیان کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے کہ تلنگانہ کانگریس ونگ امیت شاہ کا ایک ایڈیٹ شدہ ویڈیو پھیلا رہی ہے، “جو مکمل طور پر جعلی ہے اور اس سے بڑے پیمانے پر جرائم کا امکان ہے”۔

 

مالویہ نے منگل کو کہا کہ شاہ کے فرضی ویڈیو کا پرچار کانگریس کے سینئر لیڈروں نے کیا تھا، اس لیے ملک بھر میں ایف آئی آر درج کر کے قانونی کارروائی شروع کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، “ہم عوامی بحث کو جعلی خبروں سے پاک کرنے کے اپنے عزم پر قائم ہیں۔”

ارویندر سنگھ لولی نے چھوڑا دہلی کانگریس صدر کا عہدہ، لوک سبھا انتخابات سے پہلے پارٹی کو بڑا جھٹکا

نئی دہلی : لوک سبھا انتخابات 2024 کی سرگرمیوں کے درمیان کانگریس کو دہلی میں بڑا جھٹکا لگا ہے۔ دہلی کانگریس کے صدر ارویندر سنگھ لولی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دہلی میں ابھی تک انتخابات نہیں ہوئے ہیں، اس لیے لولی کا ووٹنگ سے پہلے صدر کا عہدہ چھوڑنا پارٹی کے لیے بالکل اچھا اشارہ نہیں کہا جا سکتا۔ بتا دیں کہ لوک سبھا انتخابات کے لیے اب تک دو مرحلوں میں ووٹنگ ہو چکی ہے۔ تیسرے مرحلے کی ووٹنگ سے پہلے سبھی پارٹیاں انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف کانگریس پارٹی ایسے وقت میں بھی اندرونی کشمکش سے نبرد آزما ہے۔

دہلی کانگریس کے صدر کے عہدے سے ارویندر سنگھ لولی کے استعفیٰ سے سیاست اچانک گرم ہو گئی ہے۔ لولی نے عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانے کی براہ راست مخالفت کی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ کانگریس کی دہلی یونٹ اس پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے کے خلاف تھی جس کی تشکیل کا ہی واحد مقصد کانگریس پارٹی کے خلاف بدعنوانی کے جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگانا تھا ۔

ارویندر سنگھ لولی نے عہدہ چھوڑی کی یہ وجوہات بتائیں

دہلی پردیش کانگریس کے صدر اروند سنگھ لولی نے اپنے استعفیٰ کی پہلی اہم وجہ دہلی کانگریس کے انچارج دیپک بابریا کو قرار دیا۔

کانگریس اور عام آدمی پارٹی کا اتحاد۔

شمال مشرقی دہلی اور شمال مغربی دہلی سے باہر کے امیدواروں کو میدان میں اتارنا۔

شمال مغربی دہلی کے امیدوار ادت راج کا پارٹی لیڈروں کے خلاف بیان اور شمال مشرقی دہلی کے امیدوار کنہیا کمار کا کانگریس کے موقف سے ہٹ کر اروند کیجریوال کی تعریف کرنا ۔

کانگریس کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ دہلی کے ریاستی انچارج دیپک بابریا کی نوک جھونک کو بھی وجہ بتائی۔

دہلی میں کانگریس کو صرف تین سیٹیں ملنا بھی ایک وجہ ہے۔

شمال مشرقی دہلی اور شمال مغربی دہلی سے امیدواروں کو کھڑا کرنے کے فیصلے کے بارے میں ڈی پی سی سی کو پیشگی اطلاع نہ دینا۔

’ان کو مسلم ووٹ چاہئے، مگر امیدوار نہیں…‘، اس لیڈر کا چھلکا درد، کہا: لوگوں کو جواب نہیں دے پارہا ہوں

نئی دہلی: مہاراشٹر کانگریس اور اس کے ساتھی اتحاد مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) گروپ میں اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ پارٹی لیڈر محمد عارف ‘نسیم’ خان نے ریاست میں کسی بھی مسلم لیڈر کو امیدوار نہ بنانے پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے پارٹی کی مہم کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے پارٹی سربراہ ملکارجن کھرگے کو ایک خط لکھ کر کہا کہ وہ لوک سبھا انتخابات کے لیے مہم نہیں چلائیں گے کیونکہ اپوزیشن مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) نے کوئی مسلم امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔

سابق ریاستی وزیر نے اپنے خط میں لکھا کہ مہاراشٹر کی کل 48 لوک سبھا سیٹوں میں سے ایم وی اے نے ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر کی کئی مسلم تنظیمیں، لیڈر اور پارٹی کارکنان امید کر رہے تھے کہ کانگریس اقلیتی برادری سے کم از کم ایک امیدوار کو نامزد کرے گی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔

60 سالہ کانگریس لیڈر نے کہا کہ پارٹی کے سبھی رہنما اور کارکنان اب ان سے پوچھ رہے ہیں کہ کانگریس کو مسلم ووٹ چاہئے، امیدوار کیوں نہیں ؟ میں مسلمانوں کا سامنا نہیں کر پارہا ہوں اور میرے پاس ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔

کانگریس مہاراشٹر کی 48 لوک سبھا سیٹوں میں سے 17 پر شیوسینا (یو بی ٹی) اور این سی پی (شرد چندر پوار) کے ساتھ اتحاد میں الیکشن لڑ رہی ہے۔ وہ اپوزیشن مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) کا ایک حصہ ہے۔ محمد عارف خان ممبئی نارتھ سینٹرل سے ٹکٹ کی ریس میں تھے، لیکن پارٹی نے اس حلقے کے لیے سٹی یونٹ کی صدر ورشا گائیکواڑ کا انتخاب کیا۔ انہوں نے ممبئی کے چندیوالی سے 2019 کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا، جہاں وہ صرف 409 ووٹوں سے ہار گئے تھے ۔

پی ٹی آئی سے الگ سے بات کرتے ہوئے مسٹر خان نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کانگریس دیرینہ نظریہ سے ہٹ گئی ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر نے کہا کہ انہیں اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں اور ان سماجی گروپوں سے پارٹی کارکنوں کے کال موصول ہوئے، ان سے پوچھا گیا کہ مہاراشٹر میں انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی الاٹمنٹ کے دوران کانگریس نے انہیں نظر انداز کیوں کیا۔

ناراض خان نے کہا کہ میں اس سوال کا سامنا کرنے سے قاصر ہوں کہ (اقلیتی گروپوں کے ساتھ) ناانصافی کیوں کی گئی۔ پارٹی اپنے جامع نظریہ اور سبھی کمیونٹی کو نمائندگی دینے سے ہٹ گئی ہے۔