Tag Archives: Benjamin Netanyahu

Israel Hamas War: عالمی عدالت انصاف کےفیصلہ کے بعدحماس کا بڑااقدام ، جاری کیانیاویڈیو

بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کے کچھ دیر بعد حماس نے تین اسرائیلی خواتین کی ویڈیو جاری کی۔ پانچ منٹ کی ویڈیو میں نظر آنے والی تین خواتین میں سے دو اسرائیلی فوجی ہیں جب کہ ایک خاتون اسرائیلی شہری ہے۔ یہ وہی خواتین ہیں جن کو حماس نے قید کر رکھا ہے۔ ویڈیو میں خواتین نے بتایا کہ انہیں 107 دن تک یرغمال بنایا گیا۔ یاد رہے کہ کہ جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کی درخواست کی تھی۔ جنوبی افریقہ نے انسانی بحران کا حوالہ دیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعہ کو ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) نے کہا کہ اسرائیل کو فلسطینی علاقے میں ہلاکتوں اور نقصان کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ درخواست میں جنوبی افریقہ نے کہا تھا کہ نسل کشی روکنے کے لیے 1948 میں اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی منظوری دی گئی تھی۔ اسرائیل نے اس کی خلاف ورزی کی ہے۔

فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں کے اعدادوشمار

اسرائیل کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک حماس کے حملوں میں 1140 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کے مطابق دہشت گردوں نے تقریباً 250 اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا ہے جن میں سے 28 یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اب 132 شہری حماس کے کنٹرول میں رہ گئے ہیں۔ اسی دوران حماس کے مطابق فلسطین میں اسرائیلی حملوں میں 26 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں 70 فیصد خواتین، کمسن بچے اور نوجوان شامل ہیں۔

عدالت میں افریقہ اور اسرائیل نے اپنا موقف پیش کیا

عالمی عدالت انصاف کے حکم سے پہلے سماعت کے دوران عالمی عدالت میں جنوبی افریقہ کی وکیل عدیلہ ہاسم نے کہا تھا کہ گزشتہ 13 ہفتوں کے شواہد عدالت میں پیش کیے گئے ہیں۔ حسام نے کہا کہ غزہ کے عوام مشکلات کا شکار ہیں۔ عدالتی حکم ہی غزہ کے عوام کے مصائب کو روک سکتا ہے۔ سماعت کے دوران اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو کے ذریعے اپنا موقف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل پر نسل کشی کا الزام لگایا گیا ہے، دراصل اسرائیل نسل کشی سے لڑ رہا ہے۔

جنوبی افریقہ کی منافقت ، افسوسناک ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان لیور حیات نے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ایکس پر پوسٹ کیا تھا کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے عدالت میں پیش کیا گیا کیس سب سے بڑی منافقت ہے۔ ان کی قانونی ٹیم عدالت میں حماس کے نمائندے کے طور پر کام کر رہی ہے۔ جنوبی افریقہ کے دعوے بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔

غزہ میں شہریوں کی ہلاکتیں افسوسناک،عام شہریوں کی اموات کوکم کریں اسرائیل :عالمی عدالت انصاف

ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے مغربی ایشیا میں اسرائیل اور حماس کے درمیان پرتشدد تنازعہ پر تبصرہ کیا ہے۔ آئی سی جے نے اسرائیل کی طرف سے بھیجی گئی امداد غزہ تک پہنچانے کی ہدایت دی ہے ۔ تاہم آ ئی سی جے نے جنگ بندی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یہ مقدمہ جنوبی افریقہ کی جانب سے آئی سی جے میں دائر کیا گیا ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان پرتشدد لڑائی میں اب تک 26 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 110 دنوں سے جاری جنگ کی وجہ سے مغربی ایشیا میں انسانی بحران کا سامناہے۔ تازہ ترین پیشرفت ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے تبصروں سے متعلق ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی عدالت میں شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کی بات ہوئی۔ عدالت نے کہا کہ اسرائیل کو فلسطینی علاقے میں ہونے والی ہلاکتوں اور نقصانات کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ 1948 میں اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کو نسل کشی روکنے کے لیے منظور کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے اس کی خلاف ورزی کی ہے۔

ہم آپ کو بتادیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان پرتشدد تنازعہ گزشتہ سال شروع ہوا تھا۔ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد، اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) کے فوجی غزہ کی پٹی میں حماس کے ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کر رہے ہیں۔ پرتشدد تنازعات میں اب تک 26 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 21 جنوری کی رپورٹ میں غزہ کی وزارت صحت نے 24 گھنٹوں میں 178 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔

ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک 26 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ 62,600 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے تقریباً 9000 دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اس کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ گنجان آباد اور رہائشی علاقوں میں جنگ کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اسرائیلی فوج (IDF) کے مطابق حملے کے آغاز سے اب تک 195 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے حماس کے خاتمے تک حملے بند نہ کرنے کا عزم کیا ہے۔ اسرائیل کے مطابق تقریباً 130 افراد حماس کے کنٹرول میں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 100 کے قریب لوگ زندہ بچ گئے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے یہاں پناہ گزین کیمپ موجود ہیں۔ اطلاعات کے مطابق غزہ کی تقریباً 85 فیصد آبادی اپنے گھر بار چھوڑ چکی ہے۔ ہزاروں لوگ اقوام متحدہ کی پناہ گاہوں اور جنوب میں کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ ریسکیو میں شامل اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے مطابق 23 لاکھ کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ بھوک سے مری کا شکار ہو رہا ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں انسانی امداد پہنچانے میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔

اسرائیل ۔ حماس جنگ: جنگ بندی کو لیکر اسرائیل کی نئی تجویز ، حماس کے جواب کا ہے انتظار

اکتوبر میں شروع ہونے والی اسرائیل حماس ۔جنگ میں اسرائیل ایک بار پھر جنگ بندی کی تجویز پر پیش کررہاہے۔ دراصل اسرائیل نے حماس کو ایک تجویز بھیجی ہے کہ اگر وہ تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیں تو اگلے دو ماہ تک غزہ پر کوئی حملہ نہیں ہو گا۔ عام طور پر دیکھا جائے تو اسرائیل جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔

قطر اور مصر کے ذریعے حماس کو بھیجی گئی تجویز

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل نے قطر اور مصر کے ثالثوں کے ذریعے حماس کو ایک پیشکش کی ہے جس میں معاہدے کے حصے کے طور پر جنگ میں دو ماہ کا وقفہ بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں دو اسرائیلی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس معاہدے میں غزہ میں قید باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی بھی شامل ہوگی۔

دو اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تجویز حماس کو پیش کی گئی ہے۔ تاہم ابھی تک اسرائیل، قطر یا مصر کی جانب سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے۔جانکاری کے مطابق اسرائیلی کابینہ نے حال ہی میں فلسطینی حمایت یافتہ گروپ حماس کے ساتھ یرغمالیوں کے معاہدے کی ایک نئی تجویز کی منظوری دی ہے۔

جنگ بندی پہلے بھی ہوئی تھی۔اس سے پہلے بھی حماس اور اسرائیل کے درمیان 24 نومبر سے 30 نومبر تک جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس دوران دونوں طرف سے یرغمالیوں اور قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ اس دوران حماس نے 100 سے زائد یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔ تاہم اس کے بعد اسرائیل کو 240 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا پڑا۔ اسی دوران اسرائیل نے کہا کہ اس کے 115 مرد، 20 خواتین اور دو بچے اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں۔

 

اسرائیل۔حماس جنگ: عام شہریوں کی ہلاکتیں ناقابل قبول، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستان کاموقف

ہندوستان نے بدھ کے روز اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں انسانی جانوں اور املاک کے نقصان کی شدید مذمت کی اور اسے ایک خطرناک انسانی بحران قرار دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (UNGA) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل نمائندہ روچیرا کمبوج نے کہا کہ تنازعہ کے پرامن حل کا واحد راستہ بات چیت اور سفارت کاری ہے۔

روچیرا کمبوج نے یو این جی اے کے اجلاس کے دوران کہا، “اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعہ کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہری جانوں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کی جانوں ضائع ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک خطرناک انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔” یہ واضح طور پر ناقابل قبول ہے اور ہم نے شہریوں کی ہلاکتوں کی شدید مذمت کی ہے۔ ساتھ ہی، ہم جانتے ہیں کہ اس کی وجہ اسرائیل میں 7 اکتوبر کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے تھے، جو کہ چونکا دینے والے تھے اور ہم ان کی بلاشبہ مذمت کرتے ہیں۔ ہندوستان، دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا رویہ رکھتا ہے۔

ہندوستان کا پیغام

روچیرا کمبوج نے کہا، ‘اس تنازع کے آغاز سے ہندوستان نے جو پیغام دیا ہے وہ واضح اور مستقل ہے۔ لڑائی کو روکنا، انسانی امداد کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانا اور امن و استحکام کی جلد بحالی کے لیے کام کرنا ضروری ہے۔ مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کا پرامن حل ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

غزہ میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے ہندوستان کی کوششیں

میٹنگ کے دوران کمبوج نے غزہ میں جاری حالات کو معمول پر لانے کے لیے ہندوستان کی مسلسل کوششوں پر بھی روشنی ڈالی اور کہا، ‘ہندوستان کی قیادت اسرائیل اور فلسطین سمیت خطے کے رہنماؤں سے مسلسل رابطے میں ہے۔

ہم نے متاثرہ آبادیوں کے لیے انسانی امداد فراہم کرنے کا مطالبہ کیاہے اور اس سلسلے میں ہمیں امید ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد انسانی امداد کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوگی۔ کمبوج نے کہا کہ ہندوستان نے اب تک غزہ کو 70 ٹن پر محیاط انسانی امداد فراہم کی ہے جس میں دو قسطوں میں 16.5 ٹن ادویات اور طبی سامان شامل ہے۔

وزیراعظم مودی نے نیتن یاہو سے کی گفتگو، جانئے اسرائیل۔ حماس جنگ کو لے کر کیا ہوئی بات؟

نئی دہلی : وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو اپنے اسرائیلی ہم منصب نیتن یاہو سے بات کی اور اس دوران انسانی امداد اور اسرائیل-حماس تنازع کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق نیتن یاہو نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں اسرائیل-حماس لڑائی میں حالیہ پیش رفت سے آگاہ کیا۔ بات چیت کے دوران دونوں لیڈروں نے سمندری ٹریفک کی سیکورٹی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔

پی ایم او کے مطابق وزیراعظم مودی نے متاثرہ آبادی کے لئے انسانی امداد جاری رکھنے کی ضرورت کو دہرایا اور سبھی یرغمالیوں کی رہائی سمیت تنازع کے جلد اور پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا ۔ دونوں لیڈروں نے رابطہ میں رہنے پر اتفاق ظاہر کیا ۔ بعد میں وزیراعظم مودی نے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا : وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ جاری اسرائیل ۔ حماس لڑائی پر تبادلہ خیال کیا ، جس میں سمندری ٹریفک کی سیکورٹی پر مشترکہ تحفظات بھی شامل تھیں۔

انہوں نے کہا کہ متاثرین کیلئے لگاتار انسانی بنیادوں پر امداد کے ساتھ خطے میں امن اور استحکام کی جلد بحالی کے حق میں ہندوستان کے مستقل موقف کو اجاگر کیا۔ بتادیں کہ 7 اکتوبر کو حماس کے ذریعہ اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیل نے جوابی حملے شروع کیے، جس میں اب تک تقریباً 20,000 فلسطینیوں کی جانیں تلف ہوچکی ہیں جبکہ تقریباً 1.9 ملین لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  گیانواپی مسجد:الہ آباد ہائی کورٹ سےمسلم فریق کو مایوسی کاسامنا، تمام پانچ درخواستیں مسترد

یہ بھی پڑھئے: اپوزیشن کے ہنگامہ پر بڑی کارروائی، لوک سبھا سے آج مزید 49 ممبران پارلیمنٹ معطل

ادھر منگل کو اسرائیل نے جنوبی غزہ کو نشانہ بناتے ہوئے حملے کئے جن میں 28 فلسطینیوں کی موت ہوگئی ۔ اسرائیل نے غزہ کے شمالی حصے میں واحد آپریٹنگ اسپتال پر بھی چھاپہ ماری کی۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیلی حملے میں تین یرغمالیوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ امریکہ کی جانب سے حمایت بڑھنے کے بعد اسرائیل نے حماس کے خلاف حملے تیز کر دئے ہیں۔

اسرائیل ۔حماس جنگ : کیا پھرایک بارہوگی جنگ بندی، امریکہ اور اسرائیل میں بات چیت جاری

امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اسرائیل اور حماس جنگ میں متعلق بات چیت جاری ہے۔ اسرائیل، جس نے کہا ہے کہ وہ عالمی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔ غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ ​​کے اگلے مرحلے پر امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے غور کیاجارہاہے۔ اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ اب غزہ میں جنگ کے دوران حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانا شروع کیا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ وسیع پیمانے پر بمباری اور زمینی کارروائیوں کے بجائے حماس کے دہشت گرد آقاؤں کی براہ راست تباہی کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اسرائیلی فوج کی حکمت عملی کب تبدیل ہوگی۔

یاد رہے کہ کہ 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے دہشت گردانہ حملے میں تقریباً 1200 افراد مارے گئے تھے۔ اسرائیلی فوجیوں کی جوابی کارروائی سمیت اب تک 19 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکی مشیر جیک سلیوان نے اپنے دورہ اسرائیل کے دوران کہا کہ اس جنگ کے ایک اور مرحلے میں تبدیلی آئے گی۔ اب حماس کے رہنماؤں اور ان کی انٹیلی جنس کارروائیوں کو نشانہ بناتے ہوئے مزید حملے کیے جائیں گے۔

اسرائیل کے نشانے پر حماس کا دہشت گرد ماسٹر

قابل ذکر ہے کہ محمد دیف کا نام بھی اسرائیل کے نمایاں ترین اہداف میں شامل ہے۔دیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حماس کے عسکری ونگ کا سربراہ ہے۔ اسے 7 اکتوبر کے حملے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔ حماس کے نمبر دو کمانڈر مروان عیسیٰ بھی اسرائیلی فوج کے نشانے پر ہیں۔ غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو بھی مارنے کی کوششیں جاری ہیں۔

سلیوان نے کہا کہ انہوں نے جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی جنگی کابینہ سے ملاقات کی۔ اس میں فوج کے اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔ جنگ کے دوسرے مرحلے میں منتقلی کے وقت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جنگی حکمت عملی پر کب عمل ہو گا؟ اس پر امریکہ اور اسرائیل کے درمیان گہری بات چیت جاری رہے گی۔ ملاقاتوں کے بعد، اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلانٹ نے سلیوان کو بتایا کہ ‘جنگ کئی ماہ تک جاری رہنے کا امکان ہے’۔ جنگ کی ہولناکیوں کے درمیان امریکی حکام نے کہا کہ بند کمروں میں ہونے والی اہم ملاقاتوں میں امریکہ اسرائیل پر حملے تیز کر کے جنگ کے خاتمے پر اصرار کر رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا تھا کہ غزہ میں بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سے عالمی برادری اسرائیل کے خلاف ہو رہی ہے۔ اسرائیلی حکام سے ملاقات کے بعد سلیوان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ فوجی امداد روک سکتا ہے؟ اس نے جواب دینے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ کسی معاہدے تک پہنچنے کا بہترین طریقہ ذاتی بات چیت ہے۔ سلیوان نے کہا کہ امریکہ ‘نتائج دیکھنا چاہتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکی اہلکار نے جمعہ کی شام دیر گئے فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کی۔

حماس سے جنگ کے درمیان اپنے ہی ملک میں ’برے پھنسے‘ نیتن یاہو، عدالت نے لیا ایکشن!

نئی دہلی: اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہوئے دو ماہ گزر چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج غزہ پٹی میں تباہی مچا رہی ہے۔ ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے لئے ایک بری خبر آئی ہے۔ نیتن یاہو اپنے ہی ملک میں شدید مشکلات کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ دراصل وزیراعظم کے خلاف بدعنوانی کے ایک کیس میں دوبارہ تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی رپورٹ کے مطابق بیزیک واللا رشوت ستانی کیس میں وزیر اعظم کے خلاف سماعت منگل کو یروشلم میں دوبارہ شروع ہوگی۔

جنگ کی وجہ سے عدالت تقریباً ڈھائی ماہ کی چھٹی پر تھی، اس دوران صرف انتہائی ضروری سماعت ہی ہوئی۔ عدالت نے نیتن یاہو کے مختلف بدعنوانی کے مقدمات کو انتہائی ضروری نہیں سمجھا، اس لئے انہیں جنگ کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔ اس معاملہ کو کیس 4000 کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ نیتن یاہو نے نیوز ویب سائٹ واللا پر سازگار میڈیا کوریج کے بدلے بیزیک ٹیلی کمیونیکیشن کو فائدہ پہنچانے کے لئے ریگولیٹری اقدامات کئے تھے۔ واللا پہلے بیزیک کی ملکیت تھا۔

نیوز18 اردو اب وہاٹس ایپ پر بھی، جوائن کرنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

نیتن یاہو کی سیاسی جماعت لیکوڈ کے ارکان نے مقدمے کی پیروی کرنے پر استغاثہ پر تنقید کی۔ کہا گیا کہ ملک حماس کے ساتھ جنگ ​​لڑ رہا ہے، ایسے وقت میں یہ سب باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ وزارت انصاف کے وزیر اور لیکوڈ کے رکن ڈیوڈ امسالیم نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا: ‘جنگ؟ یرغمال؟ مہاجرین؟ معیشت؟ نہیں اور نہیں… اب سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کو بے بنیاد الزامات اور گمراہ کن چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھانا۔ ہاں، ہاں… آپ نے اسے صحیح پڑھا۔ اس میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ ایک توہین ہے!‘‘

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل فوج کے ترجمان کا بڑا بیان، کہا جنوبی غزہ میں حماس کے خاتمہ کوبنایاجائیگا یقینی

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں اسرائیل کی بمباری، 24 گھنٹوں میں 700 سے زائد فلسطینی شہید

واللا ویب سائٹ کے سابق ایڈیٹر ان چیف ینون میگل اور واللا نیوز کے سابق ایڈیٹر ایوی الکلی کیس میں گواہی دے چکے ہیں ۔ اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی رپورٹ کے مطابق یمجص 433 میجر کرائمز یونٹ کے ایرن بوچنک اور ڈوٹن مالیچی اور سیکیورٹیز اتھارٹی کے تفتیش کار، کیس 4000 تفتیشی ٹیم کے تفتیش کار لیور شپٹز کو عدالت کے سامنے گواہی دینی ہے ۔

فلسطین : مسجد اقصیٰ کےامام مفتی اعظم شیخ عکرمہ صبری کےمکان کومہندم کرنےکی تیاری

اسرائیلی فوج نےمسجد اقصیٰ کے ایک مبلغ اور یروشلم کے سابق مفتی اعظم شیخ عکرمہ صبری کے گھر پرچھاپہ ماری کی اور ان کی رہائش گاہ کو مسمارکرنے کے مقصد سے اسے ’’غیرمجازتعمیرات‘‘قراردیاہے۔ نیوزایجنسی انادولو نے رپورٹ کیا کہ مقبوضہ مشرقی یروشلم کے ساونح محلے میں 18 رہائشی کمپلیکس میں 100 سے زیادہ فلسطینیوں کا گھرتھا۔ فلسطین کی خبر رساں ایجنسی وفا سے ملنے والی مزید اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ پیر کو یروشلم کے الثوری محلے میں بھی اسرائیلی چھاپہ اور گرفتاری کی ایک اور کارروائی ہوئی جس میں سات فلسطینیوں کو گرفتارکرلیا گیا۔

مفتی اعظم شیخ عکرمہ صبری کا گھر بھی انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی انتہا پسندوں کا نشانہ تھا۔ 13 اکتوبر کو، مڈل ایسٹ آئی (MEE) نے اطلاع دی کہ ‘نازی ہنٹرز رواں سال 7 اکتوبر کے صرف دو دن بعد قائم کردہ ایک چینل نے اپنے پلیٹ فارم پر صابری کے خطاب کی تشہیر کی اور ان کے قتل کا مطالبہ کیا۔ صابری کو انتہائی دائیں بازو کے گروپ نے “ختم کرنے کے لیے سب سے اہم اہداف میں سے ایک” قراردیاہے۔

نیوز18 اردو اب وہاٹس ایپ پر بھی، جوائن کرنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

صابری کی قانونی ٹیم کے سربراہ خالد زبرقہ نے MEE کو بتایا کہ 85 سالہ مبلغ کے خلاف یہ دھمکیاں خاص طورپر تشویشناک ہیں کیونکہ ایسی کالز کو “اسرائیلی حکومت کے اندر موجود عناصر کی حمایت حاصل ہے”۔

خالدنے مزید کہا کہ ۔۔جیسا کہ، ’’ہمارے پاس سیکورٹی کی کمی ہے۔ اسرائیلی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمیں یا ہمارے فلسطینی رہنماؤں کو کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کرتے،‘

مفتی اعظم شیخ عکرمہ صبری فلسطین پراسرائیل کے قبضے اور آبادکاروں کے تشدد کی مذمت کے لیے اپنی بااثر آواز استعمال کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سے بار بار کی بے حرمتی کے پیش نظر الاقصیٰ کے تحفظ پر صابری نے اگست میں کہا تھا کہ “ہمارے فلسطینی عوام اسے نقصان پہنچانے یا چھونے کی اجازت نہیں دیں گے”۔

اگست میں مڈل ایسٹ مانیٹر نے رپورٹ کیا کہ مفتی اعظم شیخ عکرمہ صبری نے تمام مسلمانوں سے “مسجد کی حفاظت، تعمیر نو اور دفاع کرنے کا مطالبہ کیا۔”

یہ بھی پڑھیں:

اکتوبر میں، قطر کی وزارت خارجہ (ایم او ایف اے) نے “تشدد کے اس چکر پر تنقید کی جو فلسطینی عوام اور ان کی زمینوں اور مقدس مقامات کے حقوق کے خلاف (اسرائیل) کی منظم پالیسی کے نتیجے میں آئے گی۔”یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب درجنوں اسرائیلی آباد کاروں نے اسرائیلی پولیس کی موجودگی میں مسجد کے صحن میں چھاپے ماری کی ہے۔

وزارت خارجہ کے اکتوبر کے اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ “وزارت فلسطینی کازکے انصاف کے حوالے سے ریاست قطر کے مضبوط موقف کا اعادہ کرتی ہے۔”وزارت نے اس بات پر زور دیا کہ اس میں “برادر فلسطینی عوام کے جائز حقوق، بشمول اپنی مذہبی رسومات کو بغیر کسی پابندی کے ادا کرنے کا مکمل حق، اور 1967 کی سرحدوں پر اپنی آزاد ریاست قائم کرنے کا، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو” شامل ہے۔

اسرائیل حماس جنگ:دنیابھرمیں حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنےکامنصوبہ بنارہاہےاسرائیل : رپورٹ

اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک ہفتہ طویل جنگ بندی کے بعد جمعہ کو دوبارہ جنگ شروع ہو گئی۔ دریں اثناء اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے مبینہ طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حماس کے رہنماؤں کو تلاش کرنے اور قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے انٹیلی جنس ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ نہ صرف غزہ بلکہ پوری دنیا میں حماس کے رہنماؤں کو تلاش کرکے ہلاک کریں۔

اس حکم کے بعد اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں اس حکم کو پورا کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ اسے مکمل ہونے میں ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ ڈبلیو ایس جے کی رپورٹ میں حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ترکی، لبنان اور قطر میں حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔

نیوز18 اردو اب وہاٹس ایپ پر بھی، جوائن کرنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کے کئی رہنما قطر میں مقیم ہیں۔ حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ھنیہ، حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار اور خان یونس کے قصائی کے طور پر جانے جاتے ہیں، بھی قطر میں رہتے ہیں۔ قطر میں حماس کا سیاسی دفتر بھی ہے۔ یہ دفتر سال 2013 میں کھولا گیا، جب امریکہ نے اسے بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ قطر نے غزہ میں سات روزہ جنگ بندی کرانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے حماس نے غزہ سے 100 سے زائد یرغمالیوں کو رہا کرایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں :

امریکی اخبار لکھتا ہے کہ نیتن یاہو نے انٹیلی جنس افسران سے کہا ہے کہ وہ یہ کام خفیہ طور پر انجام دیں۔ تاہم 22 نومبر کو نیتن یاہو نے عوامی سطح پر کچھ ایسا ہی کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جب نیتن یاہو یہ سب کہہ رہے تھے تو ان کے ساتھ اسرائیلی وزیر دفاع Yoav Galant کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا تھا، حماس کے رہنما ادھار کی زندگی گزار رہے ہیں، ان کی موت کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

Israel-Hamas War: ‘غزہ پر حملے میں اپنے ہی لوگوں کو مارا، اب لاشیں بھی نہیں لے رہا اسرائیل’، حماس نے لگایا الزام

غزہ: اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کے دوران اسرائیل نے حراست میں لیے گئے سات خواتین، بچوں اور غزہ پر بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے تین قیدیوں کی لاشیں قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ گزشتہ چھ دنوں کی طرح آج یعنی جمعرات کو بھی عارضی جنگ بندی میں توسیع کے بعد قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ ہونا تھا۔

لیکن حماس نے الزام لگایا کہ اسرائیل نے تین قیدیوں کی لاشیں قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حماس نے کہا کہ یہ تعداد اسی زمرے کے قیدیوں کی ہے جس پر اتفاق کیا گیا تھا۔ حماس نے کہا کہ ثالثوں نے اس کی تصدیق کی ہے۔ حماس نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں ایک حملے میں تقریباً 240 یرغمالیوں کو یرغمال بنایا، جس سے جنگ چھڑ گئی تھی۔

رشمیکا مندانا کے ڈیپ فیک ویڈیو معاملے کی جانچ میں رکاوٹ، امریکی کمپنیاں نہیں کر رہی ہیں تعاون

روہت شرما کے چہرے پر لوٹی مسکان، ورلڈ کپ فائنل میں شکست کے بعد پہلی بار سامنے آئے، اہلیہ نے کہا…

خالصتانی دہشت گرد گروپتونت سنگھ پنوں کو مارنے کی کس نے رچی سازش؟ کون ہے نکھل گپتا؟ امریکی پولیس نے کیا گرفتار

Uttarkashi Tunnel Rescue: سرنگ سے بچائے گئے 41 مزدور آخر کب جا سکیں گے گھر؟ رشیکیش ایمس نے دی جانکاری، بتایا صحت کا حال

حماس کے دعوے کی جانچ کر رہا اسرائیل
موصولہ اطلاعات کے مطابق کفیر بیباس کی عمر صرف نو ماہ تھی جب اسے حماس کے جنگجوؤں نے 7 اکتوبر کو اسرائیل میں اس کے گھر سے پکڑ لیا۔ اچانک حملے کے دوران اس کی والدہ اور چار سالہ بھائی کو بھی یرغمال بنا لیا گیا۔ حماس نے بدھ کے روز کہا تھا کہ یہ تینوں غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں مارے گئے ہیں، تاہم اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ اس دعوے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے ایک بیان میں کہا کہ وہ معلومات کی صداقت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ “حماس غزہ کی پٹی میں تمام یرغمالیوں کی حفاظت کی مکمل ذمہ دار ہے۔ “حماس کے اقدامات نو بچوں سمیت یرغمالیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔”

جانئے حماس نے کیا دعویٰ کیا
حماس نے دعویٰ کیا کہ کیفیر، اس کا بھائی ایریل اور اس کی ماں شیری جنگ بندی کے نفاذ سے چند روز قبل اسرائیلی بمباری میں مارے گئے تھے۔ بچے کیفیر کی عمر کی وجہ سے، بیباس کا خاندان 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملوں میں پکڑے گئے ہائی پروفائل یرغمالیوں میں شامل تھا۔