Tag Archives: Rahul Joshi

بی جے پی 370 کا ہندسہ کیسے پار کرے گی؟ کہاں سے کتنی سیٹیں ملیں گی؟ امت شاہ نے بتادیا سب کچھ ، یہاں پڑھئے پورا انٹرویو 

Amit Shah Exclusive Interview: لوک سبھا انتخابات 2024 کے تیسرے مرحلے کی ووٹنگ سے قبل مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ملک کے سب سے بڑے نیوز نیٹ ورک ‘نیٹ ورک 18’ کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی کو دیے گئے اس انٹرویو میں امت شاہ نے کئی مسائل پر بات کی۔

راہل جوشی: امت جی، نیوز 18 نیٹ ورک کو یہ خصوصی انٹرویو دینے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ ہم آپ کے شہر میں ہیں۔ آپ کا حلقہ گاندھی نگر ہے۔ ہم سابرمتی ریور فرنٹ پر ہیں۔ آپ کہہ رہے تھے کہ آپ ہی نے اس کے کروز کا افتتاح بھی کیا۔ تو آئیے شروعات کرتے ہیں… اگر آپ پہلے دو مرحلوں کو دیکھیں تو ووٹر ٹرن آؤٹ تھوڑا کم رہا ہے۔ کچھ ریاستوں میں ووٹر ٹرن آؤٹ 5-6 فیصد کم  رہا ہے۔ تو 400 پار کا آپ کا نعرہ ہے، 370 بھارتیہ جنتا پارٹی… تو کیا ٹرین پٹری پر ہے؟

امت شاہ: بالکل پٹری پر۔ آپ نتائج کے دن دیکھ لیجئے گا ، 12:30 سے ​​پہلے این ڈی اے 400 کو پار کر جائے گی۔ مودی جی دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔ کم ٹرن آؤٹ کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ووٹر لسٹ کو 12 سال بعد اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سامنے سے کوئی لڑائی نہیں ہے، جس کی وجہ سے ٹرن آؤٹ پر ایک طرح کا اثر پڑتا ہے۔ لیکن ہماری پارٹی کی ٹیم اور میں نے خود بہت تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔ ہم دو مرحلوں میں 100 کو عبور کرکے اور 100 سے زیادہ سیٹیں جیت کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس لیے مجھے 400 کو پار کرنے کے ہدف میں کوئی پریشانی نظر نہیں آتی۔

راہل جوشی: پہلے شروعات کرتے ہیں امت جی ، ایشوز پر… وہ کون سے ایشوز ہیں جن پر بھارتیہ جنتا پارٹی آج تیسری بار عوام کے درمیان جا رہی ہے؟ مختصراً بتائیں کہ آپ کن حصولیابیوں لے کر عوام کے درمیان اتر رہے ہیں؟

امت شاہ: دیکھئے، سب سے پہلے اس ملک میں دہشت گردی اور نکسل ازم، دو ایسی پریشانیاں تھیں جو کئی دہائیوں سے ملک کی ترقی کے لیے رکاوٹ بن رہی تھیں۔ نریندر مودی جی نے 10 سال کے اندر دہشت گردی سے تقریباً 100 فیصد نجات پائی ہے اور نکسل ازم کے لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسے 95 فیصد تک ختم کر دیا گیا ہے۔

آج بہار، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، اوڈیشہ، تلنگانہ، آندھرا پردیش، مہاراشٹر… ان 7 ریاستوں سے نکسل ازم کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ چھتیس گڑھ کے صرف 4 اضلاع میں بچا ہے ۔ اب وہاں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بنی ہے اور گزشتہ 3 ماہ کے اندر تقریباً 100 نکسلائیٹس مارے جا چکے ہیں۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ مودی جی کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد ڈیڑھ دو سال کے اندر ملک کو نکسل ازم سے نجات مل جائے گی۔

دوسرا بڑا مسئلہ ملک کی معیشت ہے، جو ہر پہلو سے تباہ حال ہوگئی تھی۔ پالیسی بنتی ہی نہیں تھی اور پیداواری سرگرمیاں سست پڑ گئی تھیں۔ برآمدات اوندھے منہ گر رہا تھا ۔ ملک کے سبھی سرکاری بینکوں کی بیلنس شیٹ بھی  نہ بن پائے، اگر سچ میں بنانے جائیں ۔ اس طرح کی صورتحال تھی، مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی اور مجموعی طور پر بجٹ کے سولہ میں سے سولہ پیرامیٹر منفی دکھا رہے تھے۔ 10 ہی سال میں مودی جی نے اس منظر کو پوری طرح بدل دیا ہے۔ آج اسٹاک مارکیٹ آسمان کو چھو رہا ہے۔ FFI  کی فروخت کے بعد بھی ہندوستانی میوچول فنڈز نے مارکیٹ کو تقویت دی ہے۔ پی ایل آئی اسکیم اور ایک مضبوط ایکو سسٹم کی وجہ سے، ہندوستان مینوفیکچرنگ کے لیے دنیا میں پہلی ترجیحی منزل بنا ہے۔ ہمارے بچے ہر روز اسٹارٹ اپ رجسٹر کر رہے ہیں۔ ہماری کمپنیاں ہر روز پیٹنٹ رجسٹر کر رہی ہیں۔ خود روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ آج سبھی بینکوں کی بیلنس شیٹس بہت اچھی بن چکی ہے۔ انڈسٹریل گروتھ کے جتنے بھی پیرامیٹرس ہیں، وہ 25 سال کے ٹاپ موسٹ مارکنگ پر ہیں ۔ ایکسپورٹ ریکارڈ توڑ کر آگے ہی بڑھتا جارہا ہے ۔

اسی طرح ہم اگلے 25 سالوں تک دنیا بھر کی معیشت کو کچھ شعبوں میں ڈرائیو کرنے والے ہیں۔ ہندوستان آج ان تمام شعبوں میں سرخیل بن چکا ہے۔ جیسے گرین ہائیڈروجن مینوفیکچرنگ ، تھوڑے لیٹ ہیں ، لیکن سیمی کنڈکٹر، الیکٹریکل موٹر وہیکل موٹر، ​​بیٹری کی پیداوار، خلائی شعبہ۔ دیر ہونے کے باوجود میں پھر سے کہنا چاہوں گا کہ ڈیفنس بھی ۔ ایسے بہت سے شعبوں کے اندر، جو اگلے 25 سالوں تک عالمی معیشت کی سمت اور حالت کا فیصلہ کرنے والے ہیں، وہاں آج ہندوستان نے ایک مضبوط بنیاد رکھ چکا ہے اور اس بنیاد پر ایک بڑی عمارت تعمیر ہونی ہے۔ تو ملک کی معیشت بھی بہتر ہوئی ہے اور محفوظ بھی ہوئی ہے۔ ملک 11ویں نمبر کی معیشت تھا، آج 5ویں نمبر کی معیشت بن چکا ہے۔

گاؤں ہو یا شہر، جنگل ہو یا ریگستان، سمندری ساحل ہو یا شہر… ہر جگہ انفراسٹرکچر کی ترقی کا کام ہو رہا ہے۔ آج 10 لاکھ کروڑ روپے کا انفراسٹرکچر پر خرچ ہندوستان کے بجٹ میں عام بات ہے۔ جی ایس ٹی کلیکشن اور براہ راست ٹیکس کی وصولی اپنے تمام ریکارڈ خود ہی توڑتی جا رہی ہے۔ نریندر مودی جی نے ملک کے اندر سرحدوں کو مضبوط کرنے کا کام بھی بہت اچھے طریقے سے کیا ہے۔ ہندوستان کا مستقبل لوگوں کے درمیان روشن ہے، اس طرح کے اعتماد کو پیدا کرنے کی قیادت کی جو ذمہ داری ہے، نریندر مودی جی نے بہت اچھی طرح سے کیا ہے۔ آج تمام 130 کروڑ لوگ اس اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ ہم دنیا میں ٹاپ بن سکتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم ہو، نئی اقتصادی پالیسی ہو یا پھر رام جنم بھومی، آرٹیکل 370 کو ہٹانا ہو، تین طلاق کا خاتمہ ہو، یو سی سی ہو یا ملک کے فوجداری قانون میں بنیادی تبدیلیاں کرنی ہو… ہر میدان میں یہ 10 سال سنہری حروف میں لکھے جانے والے 10 سال ہیں۔ عوام یہ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ کورونا جیسی وبا سے اتنی اچھی طرح سے لڑا جاسکا، وہ صرف اور صرف نریندر مودی جی کی قیادت ہے ۔

راہل جوشی: مالی اور اقتصادی موضوعات پر بھی آپ کی گرفت بہت اچھی ہے۔ آپ نے اس کا بہت اچھی طرح سے جاب دیا۔ میرا اس سے متعلق ایک سوال ہے۔ جب مہم شروعات ہوئی تھی تو پچھلے کچھ مہینوں سے حکومت معیشت کی بات کر رہی تھی، ترقی کی بات کر رہی تھی، جن باتوں کا آپ نے ابھی ذکر کیا ، اس کی بات کر کے عوام کے درمیان جارہی تھی۔ پہلے مرحلے کے بعد یہ دیکھا گیا کہ اس کا رخ تھوڑا پولرائزیشن کی طرف مڑا، تھوڑا ہندو مسلمان ہوا۔ آپ لوگوں نے کانگریس کے منشور پر حملہ کیا۔ وزیر اعظم نے راجستھان میں ایک ریلی میں کہا کہ کانگریس کے منشور میں ارن نکسل کی مہک ہے۔ اس میں ماؤنواز نظریات نظر آتے ہیں۔ تو یہ کہاں سے آیا؟

امت شاہ: دیکھئے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہمارے خلاف جو الیکشن لڑ رہے ہیں، ان لوگوں کے عزائم کو بے نقاب کریں ۔ آپ ہی بتائیے کہ کیا اس دور میں کوئی سیاسی جماعت پرسنل لا کی بات کر سکتی ہے، کیا ملک شریعہ کی بنیاد پر چلے گا؟ ایک طرف ہم اپنے منشور اور سنکلپ پتر میں کہہ رہے ہیں کہ ہم یکساں سول کوڈ لائیں گے اور کانگریس کہہ رہی ہے کہ ہم پرسنل لا کو فروغ دیں گے۔ کانگریس پارٹی کو جواب دینا چاہیے۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔

راہل جوشی: ”تو اس لیے آپ کہہ رہے ہیں کہ اس پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے؟

امت شاہ: یہ یقینی طور پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے۔

راہل جوشی: یہی دلیل ہے کہ مسلم لیگ کی چھاپ ہے؟

امت شاہ: آپ مجھے بتائیے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک کے ٹھیکوں میں اقلیتوں کو ترجیح دیں گے۔ کنٹریکٹس فرسٹ پووریسٹ کون ہے؟ پاسٹ پرفارمنس کیا ہے؟ کام کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں ہے؟ اس کی بنیاد پر طے ہوں گے یا کنٹریکٹر کے مذہب کی بنیاد پر طے ہوں گے؟ کس طرح یہ ملک چلانا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں ملک کے عوام کو سوچنا ہوگا۔ طویل عرصے کے بعد نریندر مودی جی نے ملک کو پولرائزیشن کی سیاست سے باہر نکالا ہے۔ وہ ہمیں دوبارہ اسی سمت لے جا رہے ہیں کیونکہ کانگریس جیتنے کا اعتماد کھو چکی ہے۔

امت شاہ کا پورا انٹرویو پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں ۔

راتوں رات مسلمانوں کو بیک ورڈ بنا دیا … مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے مسلم ریزرویشن پر کانگریس کو گھیرا

نئی دہلی : مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کانگریس پارٹی پر مسلمانوں کو دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے حقوق دینے کا الزام لگایا۔ نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی کو دئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں امت شاہ نے کہا کہ یہ منشور کا معاملہ نہیں ہے لیکن جب کرناٹک میں کانگریس کی حکومت تھی تو راتوں رات انہوں نے کرناٹک کے سبھی مسلمانوں کو بیک ورڈ بنا دیا تھا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پسماندگی کا نہ تو کوئی سروے ہوا اور نہ ہی کوئی کمیشن بنایا گیا۔ مذہب کی بنیاد پر تمام لوگوں کو پسماندہ قرار دیا گیا اور انہیں ریزرویشن بھی دیدیا گیا۔

نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی نے امت شاہ سے سوال کیا تھا کہ ‘ایک اور بات جس پر اس وقت بحث ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ کانگریس کے منشور کو دیکھتے ہوئے آپ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ او بی سی ریزرویشن کاٹ کر مسلمانوں کو دے گی۔ اس کی بنیاد کیا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے امت شاہ نے کہا کہ اب یہ ریزرویشن کٹا ، وہ او بی سی کا ہی کٹا ہے ۔ اسی طرح سے آندھرا پردیش میں جب متحدہ آندھرا میں ان کی حکومت تھی تو مسلمانوں کو چار فیصد ریزرویشن دیا گیا ۔ تو یہ کٹ کس کا حصہ کٹتا ہے؟ صرف SC-ST اور OBC کا ہی کٹتا ہے۔ جب میں نے کہا کہ ہم مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن ختم کریں گے تو میرے ویڈیو کو توڑ مروڑ کر عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔

امت شاہ نے کہا کہ راہل گاندھی کے کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد سیاست کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ آپ پارلیمنٹ میں بحث نہیں کر سکتے، شور و شرابہ کرنا ، بائیکاٹ کردینا ، بولنے نہیں دینا، بحث میں حصہ نہیں لینا اور باہر جا کر پریس کانفرنسیں کرنا کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ کیا سمجھتے ہیں کہ ملک کے عوام یہ سب نہیں جانتے؟ ملک کے عوام یہ سب باتیں اچھی طرح جان گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت میں صحت مند بحث ہونی چاہئے اور آپ لوگ بھی ان سے کچھ نہیں پوچھتے ہیں ۔ آپ لوگوں کو بھی پوچھنا چاہئے ۔ مگر آپ لوگ سوال ہم سے ہی پوچھتے ہیں ان سے نہیں پوچھتے ہیں ۔

نیہا ہیرے متھ قتل کیس لو جہاد کا پختہ معاملہ… ووٹ بینک کی سیاست کیلئے کتنے نیچے جائیں گے: امت شاہ

نئی دہلی : مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے نیٹ ورک 18 گروپ کے ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں سیاست کے علاوہ دیگر مسائل پر بھی گفتگو کی۔ انہوں نے بڑے ہی بے باک انداز میں سوالات کا جواب دیا۔ کرناٹک میں نیہا ہیرے متھ کے قتل سے متعلق پوچھے گئے سوال کا بھی امت شاہ نے دو ٹوک جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ نیہا ہیرے متھ قتل کیس لو جہاد کا ایک پختہ کیس ہے۔ انہوں نے ووٹ بینک کی سیاست کرنے پر کرناٹک کی سدارامیا حکومت پر بھی سخت تنقید کی۔ انہوں نے ریاست کی کانگریس حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔

نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے نیہا ہیرے متھ قتل کیس سے متعلق ایک سوال پوچھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ اس قتل کو لو جہاد کا رنگ دیا جا رہا ہے؟ اس پر امت شاہ نے کہا: ‘کوئی رنگ نہیں بھائی… یہ لو جہاد کا ایک پختہ معاملہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ (کرناٹک کی کانگریس حکومت) اپنے اقلیتی ووٹ بینک کی وجہ سے ایسا کہہ رہے ہیں۔ مجھے ایک بات بتائیے کسی بھی بچی کو کالج کیمپس میں سیکورٹی ملنی چاہیے یا نہیں ملنی چاہئے؟ اس طرح قتل ہوتا ہے اور اسے ذاتی معاملہ کہہ کر آپ اس سماجی آلودگی سے آنکھیں چرا رہے ہیں… وہ بھی صرف ووٹ بینک کے لیے۔

امت شاہ نے کرناٹک حکومت پر تیکھا حملہ بولا ۔ انہوں نے کہا کہ ان کو تم دھماکہ ہوتا ہے، وہ بھی گیس سلینڈر کا دھماکہ لگتا ہے ۔ جب این آئی اے تحقیقات سنبھالتی ہے تو پورا پکڑا جاتا ہے۔ بنگلورو میں 10 سال تک کوئی بم دھماکہ نہیں ہوا تھا۔ ان کی حکومت آئی تو ایس ڈی پی آئی کی حمایت لی اور اب بم دھماکے ہونے لگے۔ اپنی ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے وہ کتنے نیچے جائیں گے؟ کانگریس پارٹی ملک کی سلامتی، بنگلورو کی سلامتی، کرناٹک کی سلامتی کو طاق پر رکھ رہی ہے۔

ملک میں نکسل ازم کا 100 فیصد خاتمہ کب ہوگا؟ نیوز18 کے انٹرویو میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بتایا

Amit Shah Exclusive Interview: لوک سبھا انتخابات 2024 کے تیسرے مرحلے کی ووٹنگ سے قبل مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ملک کے سب سے بڑے نیوز نیٹ ورک ‘نیٹ ورک 18’ کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی کو دیے گئے اس انٹرویو میں امت شاہ نے کئی مسائل پر بات کی۔ آئیے اس انٹرویو کے کچھ اقتباسات پڑھتے ہیں …

راہل جوشی: امت جی، پہلے ایشوز سے شروعات کرتے ہیں۔ وہ کون سے ایشوز ہیں جن پر بھارتیہ جنتا پارٹی آج تیسری بار عوام کے درمیان جا رہی ہے؟ مختصراً بتائیں کہ آپ کن کارناموں کو عوام کے درمیان پیش کر رہے ہیں؟

امت شاہ: دیکھئے، سب سے پہلے اس ملک میں دہشت گردی اور نکسل ازم دو ایسے پریشانیاں تھیں جو کئی دہائیوں سے ملک کی ترقی کے لیے رکاوٹ بن رہی تھیں۔ نریندر مودی جی نے 10 سال کے اندر دہشت گردی سے تقریباً 100 فیصد نجات پائی ہے اور نکسل ازم کے لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسے 95 فیصد تک ختم کر دیا گیا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ’’آج بہار، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، اوڈیشہ، تلنگانہ، آندھرا پردیش، مہاراشٹر۔ ان 7 ریاستوں سے نکسل ازم کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ چھتیس گڑھ کے صرف 4 اضلاع میں بچا ہے ۔ اب وہاں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بن چکی ہے اور گزشتہ 3 ماہ کے اندر تقریباً 100 نکسلائیٹس مارے جا چکے ہیں۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ مودی جی کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد ڈیڑھ دو سال کے اندر ملک کو نکسل ازم سے نجات مل جائے گی۔

امت شاہ نے کہا کہ دوسرا بڑا مسئلہ ملک کی معیشت ہے، جو ہر پہلو سے تباہ حال ہوگئی تھی۔ پالیسی بنتی ہی نہیں تھی اور پیداواری سرگرمیاں سست پڑ گئی تھیں۔ برآمدات اوندھے منہ گر رہا تھا ۔ ملک کے سبھی سرکاری بینکوں کی بیلنس شیٹ بھی تیار نہیں کی جاتی تھی۔ ایسی ہی صورتحال تھی، مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی اور مجموعی طور پر بجٹ کے سولہ میں سے سولہ پیرامیٹر منفی دکھا رہے تھے۔ صرف 10 سالوں میں مودی جی نے اس منظر کو پوری طرح بدل دیا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے مزید کہا کہ آج اسٹاک مارکیٹ آسمان کو چھو رہا ہے۔ FFI  کی فروخت کے بعد بھی ہندوستانی میوچل فنڈز نے مارکیٹ کو تقویت دی ہے۔ پی ایل آئی اسکیم اور ایک مضبوط ایکو سسٹم کی وجہ سے، ہندوستان مینوفیکچرنگ کے لیے دنیا میں پہلی ترجیحی منزل بن گیا ہے۔ ہمارے بچے ہر روز اسٹارٹ اپ رجسٹر کر رہے ہیں۔ ہماری کمپنیاں ہر روز پیٹنٹ رجسٹر کر رہی ہیں۔ خود روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ آج سبھی بینکوں کی بیلنس شیٹس بہت اچھی بن چکی ہے۔

 بتا دیں کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے خصوصی انٹرویو کے دوران دیگر مسائل پر بھی کھل کر بات کی ہے۔ امت شاہ کا یہ خصوصی انٹرویو آج یعنی جمعرات کی رات 9 بجے نیٹ ورک 18 کے تمام چینلز پر ٹیلی کاسٹ کیا جائے گا۔

’ کیا ملک شریعہ کی بنیاد پر چلے گا؟‘، امت شاہ نے کانگریس پر سادھا نشانہ، کہا: مجھے لگتا ہے کہ…

نئی دہلی: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کانگریس نے اپنا منشور بنانے کا کام اقلیتوں اور انتہائی بائیں بازو کے لوگوں کو سونپ دیا ہے۔ انہوں نے پرسنل لاء کو فروغ دینے اور ملک کو پولرائزیشن کی سیاست میں واپس لے جانے کے لیے سب سے پرانی پارٹی کانگریس پر جم کر نشانہ سادھا ۔ نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں امت شاہ نے کہا کہ بی جے پی نے اس کے خلاف الیکشن لڑنے والوں کے عزائم کو بے نقاب کرنے کے لیے منشور کا مسئلہ اٹھایا ہے۔

نیوز 18 کو دیئے گئے اپنے خصوصی انٹرویو میں امت شاہ نے کہا کہ ‘مجھے بتائیے، اس زمانے میں کوئی بھی سیاسی پارٹی پرسنل لا کی بات کر سکتی ہے کیا، کیا ملک شریعہ کی بنیاد پر چلے گا؟ ایک طرف ہم اپنے منشور اور قرارداد میں کہہ رہے ہیں کہ ہم یکساں سول کوڈ لائیں گے اور کانگریس کہہ رہی ہے کہ ہم پرسنل لا کو فروغ دیں گے۔ کانگریس پارٹی کو جواب دینا چاہئے، کیونکہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے اس موقف کو دہراتے ہوئے کہ کانگریس کے منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے، وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ، ‘آپ مجھے بتائیے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک کے ٹھیکوں میں اقلیتوں کو ترجیح دیں گے۔ کنٹریکٹس فرسٹ پووریسٹ کون ہے؟ پاسٹ پرفارمنس کیا ہے؟ کام کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں ہے؟ اس کی بنیاد پر طے ہوں گے یا کنٹریکٹر کے مذہب کی بنیاد پر طے ہوں گے؟ وہ ملک کیسے چلانا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں ملک کے عوام کو سوچنا ہوگا۔ طویل عرصے کے بعد نریندر مودی جی نے ملک کو پولرائزیشن کی سیاست سے باہر نکالا ہے۔ وہ ہمیں دوبارہ اسی سمت لے جا رہے ہیں کیونکہ کانگریس جیتنے کا اعتماد کھو چکی ہے۔

امت شاہ نے مزید کہا کہ اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ اقلیتوں میں تقسیم کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ‘یہ ملک کے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کا بیان ہے، یہ بہت مشہور بیان تھا کہ اس ملک کے وسائل پر اقلیتوں کا پہلا حق ہے اور اقلیتوں میں بھی مسلمانوں کا ہے۔ اب جب دولت کی تقسیم کی بات آتی ہے تو اس کی بنیاد صرف وسائل پر ہوگی۔ حکومت لوگوں کی جائیدادیں لے کر تقسیم کرے گی۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر یہ سچ نہیں ہے تو کانگریس پارٹی بتائے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟

لوگوں کی سماجی و اقتصادی حیثیت کا تعین کرنے اور اس کے مطابق دولت کی دوبارہ تقسیم کے لیے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے ‘ملک گیر ایکسرے’ کے خیال پر وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ یہ ان کی سوچ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اتنی پرانی پارٹی نے اپنا منشور بنانے کا کام اقلیتوں اور انتہائی بائیں بازو کے لوگوں کو سونپ دیا ہے۔

جب بی جے پی اور وزیراعظم مودی کے اس بیان کے بارے میں پوچھا گیا کہ ‘منگل سوتر چھین لیا جائے گا’، امت شاہ نے کہا کہ پیسے کے معاملے میں لوگوں کی بچت، جائیداد اور ‘استری دھن’ شامل ہیں۔ امت شاہ نے وراثتی ٹیکس کی بحث پر بھی زور دیا اور کانگریس کے غیر ملکی ونگ کے امریکہ میں مقیم صدر سیم پترودا پر طنز کیا، جنہوں نے حال ہی میں دولت کی دوبارہ تقسیم کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے امریکہ میں وراثت ٹیکس کے بارے میں بات کی تھی۔ امت شاہ نے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ سیم پترودا آئیوری ٹاورمیں رہ رہے ہیں۔ ان کا اس ملک کی ثقافت، لوگوں کے مزاج اور اس ملک کی روایات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بی جے پی کبھی کوئی وراثت ٹیکس نہیں لائے گی، وزیر داخلہ امت شاہ نے واضح طور پر کہا کہ ہم نے پوری شفافیت کے ساتھ اپنا سنکلپ پتر عوام کے سامنے رکھا ہے۔ تمام حقائق موجود ہیں۔ ہم چھپ کر کچھ نہیں کریں گے۔ بتا دیں کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے خصوصی انٹرویو کے دوران دیگر مسائل پر بھی کھل کر بات کی ہے۔ امت شاہ کا یہ خصوصی انٹرویو آج یعنی جمعرات کی رات 9 بجے نیٹ ورک 18 کے تمام چینلز پر ٹیلی کاسٹ کیا جائے گا۔

کیا ہے لوک سبھا الیکشن کی حکمت عملی؟ نیوز18 کے ساتھ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا ایکسکلوزیو انٹرویو دیکھئے آج رات 9 بجے

نئی دہلی : لوک سبھا انتخابات 2024 کے تیسرے مرحلے سے پہلے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ملک کے سب سے بڑے نیوز نیٹ ورک ‘نیٹ ورک 18’ کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ نیٹ ورک 18 گروپ کے ایڈیٹر ان چیف اور منیجنگ ڈائریکٹر راہل جوشی کو دئے گئے اس انٹرویو میں وزیر داخلہ امت شاہ نے سبھی انتخابی مسائل پر تفصیل سے بات کی۔ انہوں نے دیگر امور پر بھی پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیئے۔ آپ نیٹ ورک 18 گروپ کے مختلف چینلز پر جمعرات کی رات 9 بجے ان کا انٹرویو دیکھ سکتے ہیں۔ اس انٹرویو میں امت شاہ نے اس الیکشن میں اپنی حکمت عملی اور دیگر پلاننگ کے بارے میں بات کی ہے۔


مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنے مصروف انتخابی شیڈول سے کچھ وقت نکال کر نیٹ ورک 18 کے ساتھ یہ بات چیت کی ہے۔ وزیراعظم مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اس الیکشن میں 370 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا ہے۔ این ڈی اے کے لیے یہ ہدف 400 سیٹوں کا ہے۔ کیا اس بار این ڈی اے 400 کا ہندسہ عبور کرلے گا؟ امت شاہ کی ایسے سبھی سوالات کے سلسلے میں نیٹ ورک 18 گروپ کے چیف ایڈیٹر راہل جوشی سے بات چیت ہوگی ۔

وزیر داخلہ امت شاہ خود ان سوالوں کا تفصیلی جواب دیں گے۔ وہ بتائیں گے کہ بی جے پی اور این ڈی اے لوک سبھا سیٹیں حاصل کرنے کا ہدف کیسے حاصل کر گا ۔ وہ دیگر مسائل پر بھی تفصیل سے جواب دیں گے۔ لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے ووٹنگ کا تیسرا مرحلہ 7 مئی کو ہے۔ اب تک دو مرحلوں میں ووٹنگ ہو چکی ہے۔ امت شاہ تیسرے مرحلے کی ووٹنگ اور انتخابی مہم میں کافی مصروف ہیں۔ وہ مسلسل انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔

بھارت رتن یا پدم ایوارڈ کسی پارٹی کی نجی جائیداد نہیں، اس پر بی جے پی کا کاپی رائٹ نہیں: وزیراعظم مودی

نئی دہلی : بھارت رتن اور پدم ایوارڈز سے نوازنے میں اپنی حکومت کے غیر جانبدارانہ انداز کو اجاگر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے نیوز 18 نیٹ ورک کو ایک میگا خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ایوارڈز پر کسی پارٹی یا ان کی ذاتی ملکیت کا کاپی رائٹ نہیں ہیں۔ نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ایوارڈز ملک کے وصول کنندگان کے لیے ہیں اور کہا کہ ان کی حکومت نے حال ہی میں غیر بی جے پی آئیکنوں کو بھارت رتن سے نوازا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پرنب مکھرجی، نرسمہا راؤ، چودھری چرن سنگھ، کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دیا۔ اس ملک میں کسی نے ہمارے انتخاب پر سوال نہیں اٹھایا۔ ہر کوئی سمجھتا تھا کہ یہ مستحق تھے۔ وہ اپوزیشن پارٹیوں سے تھے اور پہلے بھی ہم پر تنقید کر چکے تھے لیکن ہمارا فیصلہ ایسی چیزوں پر مبنی نہیں تھا۔

وزیراعظم مودی نے مزید کہا کہ پدم ایوارڈز پر غور کریں – ملائم سنگھ، ترون گوگوئی، پی اے سنگما، ایس ایم کرشنا… سبھی دوسری پارٹیوں سے تھے، لیکن ہم نے انہیں ان کے متعلقہ شعبوں میں ان کی شراکت داری کے لئے پدم ایوارڈز سے نوازا ہے۔ یہ کسی پارٹی کا نہیں ملک کا ایوارڈ ہے۔ یہ مودی کی ذاتی جائیداد نہیں ہے۔ بی جے پی کا اس پر کاپی رائٹ نہیں ہے۔

وزیراعظم مودی نے مزید کہا کہ اگر آپ دلچسپی رکھتے ہیں، تو یہ کہانی دیکھنے کے قابل ہے کہ ملک میں پدم ایوارڈز کیسے بدل گئے ہیں۔ ہم نے اسے بدل دیا ہے۔ ایسے فیصلوں کے پیچھے سوچ کیلئے ہماری تعریف کی جانی چاہیے، وصول کنندگان کے انتخاب کے بارے میں سوال نہیں کیا جانا چاہیے۔

شرد پوار، جنہیں ان کی حکومت نے 2017 میں پدم وبھوشن سے نوازا تھا، کے ذریعہ ان کا موازنہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے کئے جانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ وہ این سی پی کے سرپرست کا بہت احترام کرتے ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ مراٹھا لیڈر کا بیان متضاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جو لوگ طویل عرصے سے عوامی زندگی میں ہیں وہ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف، ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوتن جیسے شخص کی قیادت والی حکومت سے ایوارڈ حاصل کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑا تضاد ہے۔

’وراثت ٹیکس، مسلم ریزرویشن …. ‘نیٹ ورک 18 کے ساتھ وزیراعظم مودی کا سب سے بڑا انٹرویو

راہول جوشی: مودی جی، نیوز 18 نیٹ ورک کو یہ خصوصی انٹرویو دینے کے لیے بہت بہت شکریہ۔ آپ نے اپنے پنشنگ (انتہائی مصروف) شیڈول سے ہمارے لیے وقت نکالا۔ ہم اس انٹرویو کو قدرے مختلف انداز میں کریں گے۔ کچھ بگ پکچر سوالات کریں گے۔ ہمارے ساتھ مہاراشٹر کے اینکر ہیں۔ دوسرے ہمارے کرناٹک کے ایڈیٹر ہیں۔ یہ دونوں ریاستیں اس الیکشن میں اہم ہیں۔ تو ہم نے سوچا کہ تھوڑے سوال یہ بھی آپس سے کریں گے ۔ شروع کرتے ہیں ۔ پہلا سوال-

پی ایم مودی: سب سے پہلے آپ کو اور آپ کے تمام ناظرین کو میرا نمسکار۔ مجھے اچھا لگا کہ کہ آپ نے اپنے ساتھ کرناٹک اور مہاراشٹر کو بھی شامل کردیا ہے۔ ایک طرح سے آپ نے میری مدد کی ہے ورنہ تینوں کو الگ الگ انٹرویو دینے پڑتے تو شاید مجھے مزید وقت دینا پڑتا۔

راہول جوشی: بہت بہت شکریہ، نیٹ ورک 18 میں خوش آمدید۔

سوال 1: ہم پورے ملک کا دورہ کر رہے ہیں۔ ادھر اور ادھر جارہے ہیں۔ ہم ساتھ میں تھے، بہار گئے اور ابھی مہاراشٹر میں بھی تھے، ہر جگہ یہی دیکھا گیا ہے کہ اپوزیشن سے بات کریں یا آپ کے امیدواروں سے بات کریں، لوگ کہتے ہیں کہ مودی جی جب یہاں آئیں گے تو سب کچھ بدل جائے گا۔ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ مودی جی آئیں گے تو ہوسکتا ہے سویپ ہوجائے، ہوسکتا ہے سیٹ نکل جائے، تو کیا 2024 کے اس الیکشن کو ہم نریندر مودی پر ایک ریفرینڈم کی طرح دیکھتے سکتے ہیں؟

پی ایم مودی: اب یہ تو سارا کھیل میڈیا والوں کا ہوتا ہے۔ کس وقت، کس طرح تجزیہ کرنا ہے، لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں ایسی کوئی حکومت نہیں چلاتا جو الیکشن کے دوران کام کرے۔ اگر آپ میرا 10 سالہ ریکارڈ دیکھیں گے تو اوسطاً جمعہ، ہفتہ، اتوار… میں ہندوستان کے کسی کونے میں گیا۔ میں عوام کے درمیان میں رہا ہوں اور اسی وجہ سے میرے دورے مسلسل جاری رہتے ہیں ۔ اور میں انتخابات کو جمہوریت کا جشن سمجھتا ہوں۔ سبھی سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک جائیں۔ لوگوں کے درمیان جا کر ایک طرح سے تربیتی کام ہونا چاہیے۔ رابطہ ہونا چاہیے۔ بحث ہونی چاہیے۔ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے، الیکشن ہوں یا نہ ہوں… میں اسے اپنا فرض سمجھتا ہوں اور اسی لیے جاتا ہوں۔

جہاں تک دو مرحلوں کا سوال ہے، میں نے بہت کم انتخابات میں ایسی عوامی حمایت دیکھی ہے، جو اس بار دیکھ رہا ہوں۔ ایک طرح سے جنتا جناردن یہ الیکشن لڑ رہی ہے۔ گڈ گورننس کے لیے لڑ رہی ہے ۔ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے لڑ رہی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میں ایک ساز ہوں۔ اس بار میرا تھوڑا زیادہ جوش ہے لوگوں کے درمیان جانے کا اور پہلے کے موازنہ میں شاید زیادہ بار جانا بھی چاہتا ہوں ، اس لئے کہ جو عوام نے اتنے جوش اور امنک کے ساتھ اتنی بڑی ذمہ داری اٹھالی ہے تو وہ عوام کو جاکرکے ان کو سلما کرنا، نمن کرنا، ان کا آشیرواد لینا … یہ مجھے اپنا فرض لگتا ہے اور میں دیکھتا تھا جو فرسٹ راونڈ ہوا، میں نے کسی دوست سے کہا تھا کہ پہلے راونڈ میں یہ ہمارے خلاف جو لوگ مورچہ لگا رہے ہیں، بیٹھنے کی کوشش کررہے ہیں پہلے راونڈ میں پست ہوگئے اور کل میں نے دیکھا دوسرے راونڈ میں یہ نیست و نابود ہوچکے ہیں ۔ یعنی پہلے لوگوں نے پست کردیا ، اب نیست و نابود کردیا ۔

سوال نمبر 2: مودی جی، جب آپ نے مہم شروعات کی تھی تو اس کی شروعات بڑے ہائی نوٹ پر کی گئی تھی۔ آپ نے حکومت کے پورے کام کا تعارف کرایا۔ آپ اپنے ترقیاتی ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھے۔ آپ نے معیشت پر کافی روشنی ڈالی اور اس پر بہت کام ہوا بھی ہے۔ اس کے چند قدم بعد آپ نے راجستھان میں ایک ریلی میں کانگریس کے منشور پر سیدھا حملہ کیا۔ آپ نے یہاں تک کہا کہ ان کے پاس ایک سکیم ہے جس کے ذریعے وہ دولت کی تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کس کے پاس کتنی جمع پونجی ہے، کس کے پاس کتنا پیسہ ہے، کس کے پاس کتنا سونا اور چاندی ہے اور وہ اسے مسلمانوں اور دراندازوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ خطرہ اتنا حقیقی ہے؟ کیا آپ کو ایسا نظر آتا ہے؟

وزیراعظم مودی: مجھے لگتا ہے کہ شاید آپ کی ٹیم نے میری پوری مہم کو ٹریک نہیں کیا ہے۔ یا شاید ترقی کے بارے میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ٹی آر پی کے حساب پر بیٹھتی نہیں ہوں گی۔ لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ میری پوری انتخابی مہم دو چیزوں پر مرکوز ہے۔ ایک- ہم نے سماجی بہبود اور عوامی بہبود کے لیے کیا کام کیا؟ اور دوسری حکومتوں اور اس حکومت میں سب سے بڑا فرق ، وہ یہ کہ لاسٹ مائل ڈیلیوری ، یہ ہماری خاصیت ہے۔ ہر حکومت پالیسیاں بناتی ہے۔ کوئی حکومت برا کرنے نہیں آتی ہے۔ اچھا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ اچھا کرنا جانتے ہیں، کچھ لوگ اچھا ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ میں ایسا ہوں کہایسا ہوں کہ محنت کرکے جو اچھا ہے اسے کروں، میرا ہمیشہ ایسا رہا ہے ۔ اب دیکھئے میں الکشن میں لگاتار بول رہا ہوں کہ ہم نے غریبوں کے لئے چار کروڑ گھر بنائے، میں اتنا لوگوں کو کہتا ہوں کہ آپ اس الیکشن تشہیر میں جائیں تو میری مدد کریں کہ جس کا گھر بننا ابھی چھوٹ گیا ہو، ہر گاوں میں ایک دو نکلیں گے، ان کی فہرست مجھے بھیجو، تاکہ جیسے ہی میری تیسری مدت کار شروع ہوگی، میں اس کام کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ تین کروڑ گھر اور میں بنانا چاہتا ہوں ۔

آب آیوشمان بھارت یوجنا، دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اور ہیلتھ انشورینس کی اسکیم ہے ۔ 55 کروڑ لوگوں کو علاج کا بھروسہ …. کہ بھئی اب آپ کی مودی کی سرکار ہے۔ پانچ لاکھ روپے تک خرچ ہوگا، سنبھال لیں گے یہ۔ اس بار ہم نے انتخابی مشنور میں کہا ہے کہ کسی بھی طبقہ کا، کسی بھی سماج کا ، کسی بھی بیک گراونڈ کا شخص کیوں نہ ہو، جس بھی کنبہ میں 70 سے زیادہ کی عمر کے جو بھی افراد ہوں گے، مرد و عورت سب، ان سب کو ہم یہ پانچ لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولیت دیں گے ۔ اس بار ہم نے منشور میں یہ بی کہا ہے کہ جو آشاورکر ہیں، آنگن باڑی ورکر ہیں، ان کو ہم اس کا فائدہ دیں گے ۔ ٹرانسجینڈر جتنے بھی ہیں، کسی بھی طبقے کے کیوں نہ ہوں، ہم ان کو بھی یہ فائدہ دیں گے ۔ تو یہ بات ہم لوگوں کو بتاتے ہیں ۔

اب آپ دیکھئے، ہمارے ملک میں بینکوں کا نیشنلائزیشن ہوا۔ یہ جو مل کر ضبط کرنے کے کھیل چل رہے ہیں نا، پہلے کرچکے ہیں ۔ سارے بینک پرائیویٹ تھے، لوٹ لیا راتوں رات، غریبوں کے نام پر لوٹا گیا  لیکن ہمارے ملک کے بینک خستہ حال ہوگئے ۔ آدھے سے زیادہ آبادی ایسی تھی کہ غریبوں کے نام پر بینک تو لئے، لیکن بینک کھاتہ نہیں کھولا ۔ یہ مودی نے آکر 52 کروڑ بینک کھاتے کھولے اور اس کا سب سے بڑا میں نے فائدہ اٹھایا ۔ کھاتے کھول کر اعداد و شمار نہیں بنائے، میں نے جن دھن ، آدھار اور موبائل… اس ٹرمنیٹی کو لے کر ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر۔ 36 لاکھ کروڑ روپے ، یہ ہندستہ بہت بڑا ہوتا ہے ۔ 36 لاکھ کروڑ روپے ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر کے ذریعہ سے لوگوں کے کھاتے میں گئے۔ اگر میں نے بینک کھاتے نہ کھولے ہوتے تو اتنا بڑا فائنانشیل انکلوزن ہوتا۔ پوری دنیا میں ایک سال میں جتنے کھاتے کھلتے ہوں گے، اس سے زیادہ کھاتے ہمارے ملک میں کھلے ہیں ۔ جل جیون مشن، ہمارے ملک میں 3۔4 فیصدی گھروں میں ہی نل سے پانی آتا تھا، وہ بھی زیادہ تر شہروں میں ۔ آج 14 کروڑ دیہی کنبوں کو نل سے پانی پہنچتا ہے ۔

اب یہ سارے کام ہیں … 25 کروڑ لوگ، غربت سے باہر ایسے ہی آئے ہیں ۔ ہم نے ان کو اتنا طاقتور بنایا ، اور میری اسٹریٹجی یہی ہے کہ ہم غریب کو اتنا طاقت دیں، اتنی طاقت دیں کہ غریب خود غربت کو ہرا دے ۔ اور جب غریب اپنی محنت سے غربت کو مات دیتا ہے تو اس کے بعد اس کو غربت میں واپس نہیں جانا ، یہ عزم بن جاتا ہے ، اور وہ ملک کی طاقت بن جاتا ہے ۔ آج ہمیں فائدہ ہے ، 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے۔ یہ بہت بڑی حصولیابی ہے ۔ دنیا اس کی تعریف کررہی ہے اور یہ ایک ماڈل بنے گا۔ یہ ترقی پذیر ممالک کیلئے ماڈل بنے گا ۔

آپ دیکھیں 2014 سے پہلے کیا حال تھا ۔ 2014 سے پہلے آپ کے سارے میڈیا والے نکال دیجئے، فریجائل 5، فریجائل 5 …یہی ہیڈلائن ہوتی تھی۔ آج ہم وائبرینٹ اکنامی بن گئے ہیں ۔ آئی ایم ایف، دنیا کے 150 ممالک کا گروپ، جس میں چین بھی ہے، ہندوستان بھی ہے، جس کو ہم کہیں کہ ایک ترقی پذیر ملک ہے، یا جو ایمرجنگ اکنامی والے ملک ہیں ۔ ایسا ایک گروپ کا، ان کو کلاسیفائی کرکے، انہوں نے اس کا اینالسس کیا۔ بڑا انسٹرونگ ہے یہ۔ یعنی ایک طرح سے انڈیا کا پیئر گروپ ہم کہہ سکتے ہیں ۔

اب دیکھیے تجزیہ کیا ہے۔ ‘1998 ہندوستان فی کس جی ڈی پی’ اس پیئر گروپ سے تقریباً 30 فیصد تھی۔ یعنی یہ  پورے 150 ممالک کی طرح ہے، اٹل جی اس وقت حکومت میں تھے۔ نائنٹیز کے آخر میں اٹل جی کی سرکار آئی ،  1998 سے 2004 تک… اٹل جی اپنی مدت کار 30 فیصد سے 35 فیصد لے گئے ۔ اچھی ترقی ہوئی، لیکن بدقسمتی سے 2004 میں یہ تمام کھچڑی کمپنیاں آگئیں اور اس کھچڑی کمپنی نے اٹل جی کی محنت پر پانی پھیر دیا ۔ یہ لوگ 35 فیصد کو 30 پر لے آئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان تمام ممالک نے ہندوستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ہم نے برا کیا۔ یو پی اے حکومت کے دور میں ہندوستان ترقی پذیر دنیا کے مقابلہ زیادہ غریب ہو گیا۔ جو ہم سے غریب تھے وہ بھی ہم سے آگے نکل گئے۔ لیکن ہم 2014 میں آئے، حکومت بننے کے بعد 2019 تک، آپ کو خوشی ہوگی کہ ہم اسے 30 فیصد سے 37 فیصد تک لے گئے۔ اور 2024 تک جب میں پہنچا ہوں تو یہ معاملہ 42 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یعنی 30 چھوڑا تھا اور ہم 42 لے آئے ۔ یعنی ہماری انم دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ  میں بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ اگر آپ 10 سال کی مدت میں مہنگائی کو بھی لیں، جس کے بارے میں وہ بہت زیادہ بات کرتے ہیں، تو یہ 10 سال کا عرصہ سب سے کم مہنگائی کا دور رہا ہے۔ میں جو بھی کہتا ہوں، حقیقت کی بنیاد پر کہتا ہوں۔ سخٹت محنت کرنے کے بعد حاصل کیا ہے۔ پوری حکومت متحرک ہو چکی ہے۔ اور ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی مودی کیا کہتا ہے؟ مودی تو کہا، بھائی یہ تو ٹریلر ہے، مجھے تو اور آگے جانا ہے، اور نئی نئی امنگیں، میں بہت تیزی سے بڑھنا چاہتا ہوں ، ملک کو لے کر اور کانگریس کا جہاں تک منشور ہے، کوئی مجھے بتائے، کیا الیکشن کے اندر، سیاسی پارٹیوں کے منشور، یہ کوئی شوپیس کے لئے ہوتے ہیں کیا؟ سچ میں تو یہ میڈیا کا کام ہے کہ ہر ایک سیاسی پارٹی کے منشور کو باریکی سے جانچ پڑتا کرے ۔

میں انتظار کررہا تھا کہ میڈیا کرے، پہلے دن میں نے ایک کمنٹ تو کردیا تھا، میں کوئی آج کر نہیں رہا ہوں کہ مجھے منشور دیکھ کرکے لگتا ہے کہ اس پر پوری طرح مسلم لیگ کی چھاپ ہے ۔ مجھے لگا کہ میڈیا چونک جائے گا، اینالسس کرنے والے چونک جائیں گے، لیکن پتہ نہیں کہ ان کا انتظام کچھ اور ہے ۔ منشور میں ان کی طرف سے جو جو پروسا گیا اتنی ہی گڈی گڈی اچھالتے رہے۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ یہ تو ایکو سسٹم کی بڑی ملی بھگت لگتی ہے ۔ اب مجھے سچائی لے کر جانا پڑے گا۔ میں نے 10 دن انتظار کیا کہ ملک اس منشور میں جو برائیاں ہیں، اس کو کوئی نہ کوئی، کیونکہ غیر جانبدار طریقہ سے آتا ہے تو اچھا ہوتا ہے ۔ آخر کار مجھے مجبور یہ سچائیاں لے کر آنی پڑیں ۔ اب دیکھئے ان کے ایک شخص نے امریکہ میں انٹرویو دے دیا ۔ انہیرٹینس ٹیکس کی بات لے آئے ۔ 55 فیسڈ ٹیک آپ کی پراپرٹی پر … اب میں ترقی اور وراثت کی بات کررہا ہوں اور یہ وراثت کو لوٹنے کی بات کرتے ہیں ۔ دولت کی دوبارہ تقسیم کی بات کرتے ہیں تو میں وراثت کی بات کرتا ہوں اور ان کا آج تک کی تاریخ ہے کہ وہ کریں گے کیا، تو پھر یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں باشندگان وطن کو بتاوں کہ یہ ملک کو اس سمت میں لے جارہے ہیں ۔ اب آپ طے کیجئے، جانا نہ جانا ان کا حق ہے ، لیکن میرا فریضہ بنتا ہے کہ حقائق کی بنیاد پر ، دلیل کی بنیاد پر ، ان کی حقیقتوں کی بنیاد پر مجھے بتانا چاہئے ۔ وہ میں بتا رہا ہوں ۔

سوال 3 : سیم پترودا انہیریٹینس ٹیکس کی بات کی ہے ۔ یعنی جو ہم لوگوں کی جمع پونجی ہے، جب ہم اپنی فیملی کے لئے بچت کرتے ہیں، جسے ہم اپنی آنے والی نسل کو دیں گے تو اس پر بھی ٹیکس لگے گا اور یہ ٹیکس بہت بڑا ٹیکس ہوسکتا ہے تو کیا آپ کہیں گے کہ بی جے پی اگر آئے گی تو اس ٹیکس کو کبھی نہیں لاگو کرے گی؟

وزیراعظم مودی: بھارتیہ جنتا پارٹی کیا کرے گی ہمارے منشور میں سب ہم لکھ کرکے لائے ہیں ۔ اب انہوںنے کہیں شگوفہ چھوڑ دیا تو می بھی جھنڈا لے کر گھوموں گا، یہ سوال آپ کے من میں کیسے آجاتا ہے ؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کا نظریہ صاف ہے۔ ہم اپنے نظریہ کی بنیاد پر پروگرم لے کر کے منشور کو لے کر کے ملک کے سامنے جاتے ہیں۔ براہ کرم کرکے ایسے افراد کے خیالات کو ہم پر مت تھوپیئے ۔

سوال 4: مودی جی، راہل گاندھی نے ایک اور بات کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ نیشنل ایکسرے کروائیں گے۔ اس سے متعلق ایک سوال ہے، اسی لیے پوچھنا چاہتا ہوں۔ نیشنل ایکسرے کروائیں گے۔ بات صرف کاسٹ مردم شماری کی نہیں ہے جو وہ کرتے ہیں، اس پر بھی آپ کی رائے جاننا چاہوں گا۔ گر بات جو وہ کہتے ہیں کہ بات کاسٹ کی نہیں، بات جسٹس کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جو ہیں ایک سوشیو انکنای سروے لائیں گے، ایک انسٹی ٹیوشنل سروے لائیں گے اور اس میں دیکھیں گے کہ کس جات اور کس طبقہ کے پاس کیا ہے، کتنا پیسہ ہے، کتنی انسٹی ٹیوشن میں شراکت داری ہے اور اس کی بنیاد پر ہم اس پورے سسٹم کو دوبارہ تقسیم کریں گے، اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں ۔

وزیراعظم مودی : سب سے پہلے تو اس ملک میں جو لوگ اپنے آپ کو سیاست کا ایکسپرٹ مانتے ہیں، جو لوگ ملک کے اتار چڑھاو کو بڑی باریکی سے تجریہ کرتے ہیں، سب سے پہلے ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے پوچھیں کہ جن حالات کے بارے میں آپ بات کررہے ہیں… اگر یہ صحیح ہے تو 50، 60، 65 سال تو آپ نے راج کیا ہے۔ یہ مصیبت کے پیدا کرنے والے آپ ہو، اور آپ نے یہ بربادی لائی ہی کیوں، پہلے ان کا جواب مانگیں ۔ نمبر ون ۔

نمبر دو- ایکسرے کا کیا مطلب ہے؟ مطلب ہر گھر میں جانا۔ گھر گھر چھاپے مارنا۔ اگر کسی عورت نے اپنے زیورات اناج کے ڈبے میں چھپا رکھے ہیں تو اس کا بھی ایکسرے کیا جائے گا۔ ان کے زیورات چھین لیے جائیں گے۔ زمینوں کا حساب لیا جائے گا اور پھر دوبارہ تقسیم کیا جائے گا۔ یہ دنیا میں ایک ماؤسٹ آئیڈیا نے سب کیا ہے۔ دنیا برباد ہو چکی ہے۔ یہ مکمل طور پر اربن نکسل ہے… یہ اسی سوچ کا براہ راست اظہار ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ منشور کے سامنے آنے کے 10 دن کے بعد بھی یہ کمیونٹی جو روزانہ پڑھائی لکھائی کرتی ہے خاموش ہے۔ ان کے پروٹیکشن میں چپ رہی ہے۔ تب مل کر میری ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ملک کو جگانا، کہ دیکھئے یہ آپ کو لوٹنے کا … اور دوسرا پارٹ ہے ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ جی وغیرہ نے ہر بار کہا ہے کہ جو بھی جائیداد ہوگی، اس پر پہلا حق کس کا ہوگا، تو حساب کتاب تو صاف ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔

وزیراعظم نریندر مودی کے پورے انٹرویو کو اس لنک پر پڑھیں ۔ 

کانگریس نے 1990 سے 2009 تک کیا کیا؟ اقلیتوں کو لے کر بیان پر وزیراعظم مودی کا جواب

PM Narendra Modi Exclusive Interview: لوک سبھا انتخابات کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے نیوز 18 نیٹ ورک کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ اس دوران نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر راہل جوشی نے اقلیتوں سے متعلق دئے گئے بیان پر ان سے سوال کیا۔ یہ پوچھنے پر کہ کانگریس کہتی ہے کہ اقلیتوں کے حوالے سے اس کے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہے، پھر یہ چیزیں آپ کے پاس کہاں سے آئیں؟ جواب میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ یہ کانگریس کا کردار رہا ہے۔ انہوں نے 1990 سے 2009 تک جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی بار بار اقلیتوں کا ذکر کرکے کانگریس کو گھیر رہے ہیں۔ وہ انتخابی جلسوں میں کہہ رہے ہیں کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ دوسرے لوگوں کی جائیدادیں چھین کر ایک خاص طبقے میں بانٹ دے گی۔ اس بارے میں ان سے سوال کیا گیا ۔

وزیراعظم مودی سے پوچھا گیا کہ کانگریس کہتی ہے کہ انہون نے اقلیتوں کے بارے میں خاص طور پر کوئی بات نہیں کہی ہے۔ منشور میں صرف یہ لکھا ہے کہ وہ اقلیتی زمرے کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں گے اور ان کی مدد کریں گے۔ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اقلیتوں کو مواقع کا منصفانہ حصہ ملے۔ اگر ایسا ہے تو آپ اسے کیسے پڑھیں گے ؟

جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اسے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے آپ کو 1990 سے اب تک کا حساب دیا ہے۔ جب آپ 1990 کا حساب دیکھیں گے تو اس کے بعد آپ مجھ سے کیا کہیں گے؟ اب مجھے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

وزیر اعظم مودی نے مزید کہا کہ اگر آپ 1990 سے لے کر 2009 میں منموہن سنگھ کے بیانات تک سب کچھ دیکھیں تو اس سے آپ کیا نتیجہ اخذ کریں گے؟ میں کوئی الگ نتیجہ اخذ نہیں کر رہا ہوں۔ کوئی بھی یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو یہی کریں گے۔ یہ ان کا ارادہ ہے۔

وزیراعظم مودی نے منموہن سنگھ کے بیان پر سادھا نشانہ، کہا: او بی سی کا 27 فیصد ریزرویشن مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے کانگریس

نئی دہلی: لوک سبھا انتخابات کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے نیوز 18 نیٹ ورک کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ ایک انٹرویو میں ملک میں او بی سی کے لیے 27 فیصد ریزرویشن کو “لوٹنے کی کوشش” قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس پر نشانہ سادھا ۔ وزیراعظم مودی نے کئی مثالوں کے ذریعے اشارہ کیا کہ سب سے پرانی پارٹی کانگریس مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن پر زور دیتی ہے۔ غریب مسلمانوں کا ملک کے وسائل پر پہلا حق ہونے کے بارے میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے 2006 کے ویڈیو پر نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر راہل جوشی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے کانگریس کے انتخابی منشور کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ اس میں مسلم لیگ کی مہر ہے ۔ وزیر اعظم نے یہ ثابت کرنے کے لیے مثال دیا کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ ہمیشہ او بی سی ریزرویشن کا حصہ لینا چاہتے تھے اور اپنی مدت کار میں کئی بار مسلمانوں کو دینا چاہتے تھے۔

وزیراعظم مودی نے جواب دیا کہ آپ کانگریس کی تاریخ دیکھیں۔ یہ مطالبہ (ریزرویشن کے لیے) 1990 کی دہائی سے اٹھایا جا رہا ہے۔ ملک میں سماج کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے، جس کو لگتا تھا کہ ان کے لیے کچھ کیا جانا چاہئے، اس کے لئے احتجاج بھی ہوئے۔ 1990 سے پہلے کانگریس نے اس کی مکمل مخالفت کی اور اسے دبا دیا۔ پھر انہوں نے جو بھی کمیشن بنائے، جو بھی کمیٹیاں بنائیں، ان کی رپورٹیں بھی او بی سی کے حق میں آنے لگیں۔ وہ ان نظریات کی تردید کرتے رہے، رد کرتے رہے اور دباتے رہے۔ لیکن 90 کی دہائی کے بعد ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے انہیں لگا کہ کچھ کرنا چاہئے۔

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ تو انہوں نے پہلا گناہ کیا کیا تھا؟ 90 کی دہائی میں انہوں نے کرناٹک میں مسلمانوں کو او بی سی کے طور پر درجہ بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے وہ پہلے او بی سی کو مسترد کررہے تھے اور دبا رہے تھے، لیکن سیاسی فائدے کے لیے انھوں نے او بی سی کا لیبل مسلمانوں کو دے دیا۔ کانگریس  مرکز سے بے دخل ہوگئی۔ یہ اسکیم 2004 تک تعطل کا شکار رہی۔ جب کانگریس 2004 میں واپس آئی تو اس نے فوری طور پر آندھرا پردیش میں مسلمانوں کو او بی سی کوٹہ دینے کا فیصلہ کیا۔ عدالت میں معاملہ الجھ گیا۔ ہندوستانی پارلیمنٹ نے آئین کی بنیادی روح کے مطابق او بی سی کو 27 فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب انہوں نے اس 27 فیصد کوٹے کو لوٹنے کی کوشش کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ گرینڈ اولڈ پارٹی نے 2009 کے انتخابات کے لیے اپنے منشور میں ایک بار پھر اس مطالبے کا ذکر کیا تھا۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ 2011 میں اس پر کابینہ کا نوٹ ہے، جہاں کانگریس نے او بی سی کوٹے سے مسلمانوں کو حصہ دینے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے یوپی کے انتخابات میں بھی یہ کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 2012 میں آندھرا ہائی کورٹ نے اس کو منسوخ کر دیا۔ وہ سپریم کورٹ گئے، وہاں بھی انہیں کوئی راحت نہیں ملی ۔ 2014 کے منشور میں بھی مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کی بات کی گئی تھی۔

وزیراعظم مودی نے کہا کہ جب ہندوستان کا آئین بنایا گیا تھا ، تب آر ایس ایس یا بی جے پی کے لوگ موجود نہیں تھے۔ بابا صاحب امبیڈکر، پنڈت نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور ہمارے ملک کی کئی عظیم شخصیات موجود تھیں اور انہوں نے کافی غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا کہ ہندوستان جیسے ملک میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا ہے۔ لیکن 2024 کے انتخابات کے لیے ان کا منشور دیکھئے۔ اس پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے، جس طرح وہ آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، جس طرح وہ امبیڈکر کی توہین کر رہے ہیں۔ ایس سی اور ایس ٹی کے ریزرویشن پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ وہ او بی سی کی زندگی مشکل بنا دیں گے۔ کیا مجھے میں اس بارے میں ملک کے لوگوں کو آگاہ نہیں کرنا چاہئے؟

او بی سی ججوں کی کمی کے ساتھ ساتھ میڈیا میں کمیونٹی کی نمائندگی نہ ہونے کی کانگریس کی دلیل پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے پوچھا کہ کیا یہ ان کی حکومت تھی، جس نے 2014 سے او بی سی کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے کوئی پالیسی بنائی ہے؟