لوک سبھا انتخابات کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے نیوز 18 نیٹ ورک کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔

’وراثت ٹیکس، مسلم ریزرویشن …. ‘نیٹ ورک 18 کے ساتھ وزیراعظم مودی کا سب سے بڑا انٹرویو

راہول جوشی: مودی جی، نیوز 18 نیٹ ورک کو یہ خصوصی انٹرویو دینے کے لیے بہت بہت شکریہ۔ آپ نے اپنے پنشنگ (انتہائی مصروف) شیڈول سے ہمارے لیے وقت نکالا۔ ہم اس انٹرویو کو قدرے مختلف انداز میں کریں گے۔ کچھ بگ پکچر سوالات کریں گے۔ ہمارے ساتھ مہاراشٹر کے اینکر ہیں۔ دوسرے ہمارے کرناٹک کے ایڈیٹر ہیں۔ یہ دونوں ریاستیں اس الیکشن میں اہم ہیں۔ تو ہم نے سوچا کہ تھوڑے سوال یہ بھی آپس سے کریں گے ۔ شروع کرتے ہیں ۔ پہلا سوال-

پی ایم مودی: سب سے پہلے آپ کو اور آپ کے تمام ناظرین کو میرا نمسکار۔ مجھے اچھا لگا کہ کہ آپ نے اپنے ساتھ کرناٹک اور مہاراشٹر کو بھی شامل کردیا ہے۔ ایک طرح سے آپ نے میری مدد کی ہے ورنہ تینوں کو الگ الگ انٹرویو دینے پڑتے تو شاید مجھے مزید وقت دینا پڑتا۔

راہول جوشی: بہت بہت شکریہ، نیٹ ورک 18 میں خوش آمدید۔

سوال 1: ہم پورے ملک کا دورہ کر رہے ہیں۔ ادھر اور ادھر جارہے ہیں۔ ہم ساتھ میں تھے، بہار گئے اور ابھی مہاراشٹر میں بھی تھے، ہر جگہ یہی دیکھا گیا ہے کہ اپوزیشن سے بات کریں یا آپ کے امیدواروں سے بات کریں، لوگ کہتے ہیں کہ مودی جی جب یہاں آئیں گے تو سب کچھ بدل جائے گا۔ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ مودی جی آئیں گے تو ہوسکتا ہے سویپ ہوجائے، ہوسکتا ہے سیٹ نکل جائے، تو کیا 2024 کے اس الیکشن کو ہم نریندر مودی پر ایک ریفرینڈم کی طرح دیکھتے سکتے ہیں؟

پی ایم مودی: اب یہ تو سارا کھیل میڈیا والوں کا ہوتا ہے۔ کس وقت، کس طرح تجزیہ کرنا ہے، لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں ایسی کوئی حکومت نہیں چلاتا جو الیکشن کے دوران کام کرے۔ اگر آپ میرا 10 سالہ ریکارڈ دیکھیں گے تو اوسطاً جمعہ، ہفتہ، اتوار… میں ہندوستان کے کسی کونے میں گیا۔ میں عوام کے درمیان میں رہا ہوں اور اسی وجہ سے میرے دورے مسلسل جاری رہتے ہیں ۔ اور میں انتخابات کو جمہوریت کا جشن سمجھتا ہوں۔ سبھی سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک جائیں۔ لوگوں کے درمیان جا کر ایک طرح سے تربیتی کام ہونا چاہیے۔ رابطہ ہونا چاہیے۔ بحث ہونی چاہیے۔ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے، الیکشن ہوں یا نہ ہوں… میں اسے اپنا فرض سمجھتا ہوں اور اسی لیے جاتا ہوں۔

جہاں تک دو مرحلوں کا سوال ہے، میں نے بہت کم انتخابات میں ایسی عوامی حمایت دیکھی ہے، جو اس بار دیکھ رہا ہوں۔ ایک طرح سے جنتا جناردن یہ الیکشن لڑ رہی ہے۔ گڈ گورننس کے لیے لڑ رہی ہے ۔ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے لڑ رہی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میں ایک ساز ہوں۔ اس بار میرا تھوڑا زیادہ جوش ہے لوگوں کے درمیان جانے کا اور پہلے کے موازنہ میں شاید زیادہ بار جانا بھی چاہتا ہوں ، اس لئے کہ جو عوام نے اتنے جوش اور امنک کے ساتھ اتنی بڑی ذمہ داری اٹھالی ہے تو وہ عوام کو جاکرکے ان کو سلما کرنا، نمن کرنا، ان کا آشیرواد لینا … یہ مجھے اپنا فرض لگتا ہے اور میں دیکھتا تھا جو فرسٹ راونڈ ہوا، میں نے کسی دوست سے کہا تھا کہ پہلے راونڈ میں یہ ہمارے خلاف جو لوگ مورچہ لگا رہے ہیں، بیٹھنے کی کوشش کررہے ہیں پہلے راونڈ میں پست ہوگئے اور کل میں نے دیکھا دوسرے راونڈ میں یہ نیست و نابود ہوچکے ہیں ۔ یعنی پہلے لوگوں نے پست کردیا ، اب نیست و نابود کردیا ۔

سوال نمبر 2: مودی جی، جب آپ نے مہم شروعات کی تھی تو اس کی شروعات بڑے ہائی نوٹ پر کی گئی تھی۔ آپ نے حکومت کے پورے کام کا تعارف کرایا۔ آپ اپنے ترقیاتی ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھے۔ آپ نے معیشت پر کافی روشنی ڈالی اور اس پر بہت کام ہوا بھی ہے۔ اس کے چند قدم بعد آپ نے راجستھان میں ایک ریلی میں کانگریس کے منشور پر سیدھا حملہ کیا۔ آپ نے یہاں تک کہا کہ ان کے پاس ایک سکیم ہے جس کے ذریعے وہ دولت کی تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کس کے پاس کتنی جمع پونجی ہے، کس کے پاس کتنا پیسہ ہے، کس کے پاس کتنا سونا اور چاندی ہے اور وہ اسے مسلمانوں اور دراندازوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ خطرہ اتنا حقیقی ہے؟ کیا آپ کو ایسا نظر آتا ہے؟

وزیراعظم مودی: مجھے لگتا ہے کہ شاید آپ کی ٹیم نے میری پوری مہم کو ٹریک نہیں کیا ہے۔ یا شاید ترقی کے بارے میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ٹی آر پی کے حساب پر بیٹھتی نہیں ہوں گی۔ لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ میری پوری انتخابی مہم دو چیزوں پر مرکوز ہے۔ ایک- ہم نے سماجی بہبود اور عوامی بہبود کے لیے کیا کام کیا؟ اور دوسری حکومتوں اور اس حکومت میں سب سے بڑا فرق ، وہ یہ کہ لاسٹ مائل ڈیلیوری ، یہ ہماری خاصیت ہے۔ ہر حکومت پالیسیاں بناتی ہے۔ کوئی حکومت برا کرنے نہیں آتی ہے۔ اچھا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ اچھا کرنا جانتے ہیں، کچھ لوگ اچھا ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ میں ایسا ہوں کہایسا ہوں کہ محنت کرکے جو اچھا ہے اسے کروں، میرا ہمیشہ ایسا رہا ہے ۔ اب دیکھئے میں الکشن میں لگاتار بول رہا ہوں کہ ہم نے غریبوں کے لئے چار کروڑ گھر بنائے، میں اتنا لوگوں کو کہتا ہوں کہ آپ اس الیکشن تشہیر میں جائیں تو میری مدد کریں کہ جس کا گھر بننا ابھی چھوٹ گیا ہو، ہر گاوں میں ایک دو نکلیں گے، ان کی فہرست مجھے بھیجو، تاکہ جیسے ہی میری تیسری مدت کار شروع ہوگی، میں اس کام کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ تین کروڑ گھر اور میں بنانا چاہتا ہوں ۔

آب آیوشمان بھارت یوجنا، دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اور ہیلتھ انشورینس کی اسکیم ہے ۔ 55 کروڑ لوگوں کو علاج کا بھروسہ …. کہ بھئی اب آپ کی مودی کی سرکار ہے۔ پانچ لاکھ روپے تک خرچ ہوگا، سنبھال لیں گے یہ۔ اس بار ہم نے انتخابی مشنور میں کہا ہے کہ کسی بھی طبقہ کا، کسی بھی سماج کا ، کسی بھی بیک گراونڈ کا شخص کیوں نہ ہو، جس بھی کنبہ میں 70 سے زیادہ کی عمر کے جو بھی افراد ہوں گے، مرد و عورت سب، ان سب کو ہم یہ پانچ لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولیت دیں گے ۔ اس بار ہم نے منشور میں یہ بی کہا ہے کہ جو آشاورکر ہیں، آنگن باڑی ورکر ہیں، ان کو ہم اس کا فائدہ دیں گے ۔ ٹرانسجینڈر جتنے بھی ہیں، کسی بھی طبقے کے کیوں نہ ہوں، ہم ان کو بھی یہ فائدہ دیں گے ۔ تو یہ بات ہم لوگوں کو بتاتے ہیں ۔

اب آپ دیکھئے، ہمارے ملک میں بینکوں کا نیشنلائزیشن ہوا۔ یہ جو مل کر ضبط کرنے کے کھیل چل رہے ہیں نا، پہلے کرچکے ہیں ۔ سارے بینک پرائیویٹ تھے، لوٹ لیا راتوں رات، غریبوں کے نام پر لوٹا گیا  لیکن ہمارے ملک کے بینک خستہ حال ہوگئے ۔ آدھے سے زیادہ آبادی ایسی تھی کہ غریبوں کے نام پر بینک تو لئے، لیکن بینک کھاتہ نہیں کھولا ۔ یہ مودی نے آکر 52 کروڑ بینک کھاتے کھولے اور اس کا سب سے بڑا میں نے فائدہ اٹھایا ۔ کھاتے کھول کر اعداد و شمار نہیں بنائے، میں نے جن دھن ، آدھار اور موبائل… اس ٹرمنیٹی کو لے کر ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر۔ 36 لاکھ کروڑ روپے ، یہ ہندستہ بہت بڑا ہوتا ہے ۔ 36 لاکھ کروڑ روپے ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر کے ذریعہ سے لوگوں کے کھاتے میں گئے۔ اگر میں نے بینک کھاتے نہ کھولے ہوتے تو اتنا بڑا فائنانشیل انکلوزن ہوتا۔ پوری دنیا میں ایک سال میں جتنے کھاتے کھلتے ہوں گے، اس سے زیادہ کھاتے ہمارے ملک میں کھلے ہیں ۔ جل جیون مشن، ہمارے ملک میں 3۔4 فیصدی گھروں میں ہی نل سے پانی آتا تھا، وہ بھی زیادہ تر شہروں میں ۔ آج 14 کروڑ دیہی کنبوں کو نل سے پانی پہنچتا ہے ۔

اب یہ سارے کام ہیں … 25 کروڑ لوگ، غربت سے باہر ایسے ہی آئے ہیں ۔ ہم نے ان کو اتنا طاقتور بنایا ، اور میری اسٹریٹجی یہی ہے کہ ہم غریب کو اتنا طاقت دیں، اتنی طاقت دیں کہ غریب خود غربت کو ہرا دے ۔ اور جب غریب اپنی محنت سے غربت کو مات دیتا ہے تو اس کے بعد اس کو غربت میں واپس نہیں جانا ، یہ عزم بن جاتا ہے ، اور وہ ملک کی طاقت بن جاتا ہے ۔ آج ہمیں فائدہ ہے ، 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے۔ یہ بہت بڑی حصولیابی ہے ۔ دنیا اس کی تعریف کررہی ہے اور یہ ایک ماڈل بنے گا۔ یہ ترقی پذیر ممالک کیلئے ماڈل بنے گا ۔

آپ دیکھیں 2014 سے پہلے کیا حال تھا ۔ 2014 سے پہلے آپ کے سارے میڈیا والے نکال دیجئے، فریجائل 5، فریجائل 5 …یہی ہیڈلائن ہوتی تھی۔ آج ہم وائبرینٹ اکنامی بن گئے ہیں ۔ آئی ایم ایف، دنیا کے 150 ممالک کا گروپ، جس میں چین بھی ہے، ہندوستان بھی ہے، جس کو ہم کہیں کہ ایک ترقی پذیر ملک ہے، یا جو ایمرجنگ اکنامی والے ملک ہیں ۔ ایسا ایک گروپ کا، ان کو کلاسیفائی کرکے، انہوں نے اس کا اینالسس کیا۔ بڑا انسٹرونگ ہے یہ۔ یعنی ایک طرح سے انڈیا کا پیئر گروپ ہم کہہ سکتے ہیں ۔

اب دیکھیے تجزیہ کیا ہے۔ ‘1998 ہندوستان فی کس جی ڈی پی’ اس پیئر گروپ سے تقریباً 30 فیصد تھی۔ یعنی یہ  پورے 150 ممالک کی طرح ہے، اٹل جی اس وقت حکومت میں تھے۔ نائنٹیز کے آخر میں اٹل جی کی سرکار آئی ،  1998 سے 2004 تک… اٹل جی اپنی مدت کار 30 فیصد سے 35 فیصد لے گئے ۔ اچھی ترقی ہوئی، لیکن بدقسمتی سے 2004 میں یہ تمام کھچڑی کمپنیاں آگئیں اور اس کھچڑی کمپنی نے اٹل جی کی محنت پر پانی پھیر دیا ۔ یہ لوگ 35 فیصد کو 30 پر لے آئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان تمام ممالک نے ہندوستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ہم نے برا کیا۔ یو پی اے حکومت کے دور میں ہندوستان ترقی پذیر دنیا کے مقابلہ زیادہ غریب ہو گیا۔ جو ہم سے غریب تھے وہ بھی ہم سے آگے نکل گئے۔ لیکن ہم 2014 میں آئے، حکومت بننے کے بعد 2019 تک، آپ کو خوشی ہوگی کہ ہم اسے 30 فیصد سے 37 فیصد تک لے گئے۔ اور 2024 تک جب میں پہنچا ہوں تو یہ معاملہ 42 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یعنی 30 چھوڑا تھا اور ہم 42 لے آئے ۔ یعنی ہماری انم دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ  میں بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ اگر آپ 10 سال کی مدت میں مہنگائی کو بھی لیں، جس کے بارے میں وہ بہت زیادہ بات کرتے ہیں، تو یہ 10 سال کا عرصہ سب سے کم مہنگائی کا دور رہا ہے۔ میں جو بھی کہتا ہوں، حقیقت کی بنیاد پر کہتا ہوں۔ سخٹت محنت کرنے کے بعد حاصل کیا ہے۔ پوری حکومت متحرک ہو چکی ہے۔ اور ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی مودی کیا کہتا ہے؟ مودی تو کہا، بھائی یہ تو ٹریلر ہے، مجھے تو اور آگے جانا ہے، اور نئی نئی امنگیں، میں بہت تیزی سے بڑھنا چاہتا ہوں ، ملک کو لے کر اور کانگریس کا جہاں تک منشور ہے، کوئی مجھے بتائے، کیا الیکشن کے اندر، سیاسی پارٹیوں کے منشور، یہ کوئی شوپیس کے لئے ہوتے ہیں کیا؟ سچ میں تو یہ میڈیا کا کام ہے کہ ہر ایک سیاسی پارٹی کے منشور کو باریکی سے جانچ پڑتا کرے ۔

میں انتظار کررہا تھا کہ میڈیا کرے، پہلے دن میں نے ایک کمنٹ تو کردیا تھا، میں کوئی آج کر نہیں رہا ہوں کہ مجھے منشور دیکھ کرکے لگتا ہے کہ اس پر پوری طرح مسلم لیگ کی چھاپ ہے ۔ مجھے لگا کہ میڈیا چونک جائے گا، اینالسس کرنے والے چونک جائیں گے، لیکن پتہ نہیں کہ ان کا انتظام کچھ اور ہے ۔ منشور میں ان کی طرف سے جو جو پروسا گیا اتنی ہی گڈی گڈی اچھالتے رہے۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ یہ تو ایکو سسٹم کی بڑی ملی بھگت لگتی ہے ۔ اب مجھے سچائی لے کر جانا پڑے گا۔ میں نے 10 دن انتظار کیا کہ ملک اس منشور میں جو برائیاں ہیں، اس کو کوئی نہ کوئی، کیونکہ غیر جانبدار طریقہ سے آتا ہے تو اچھا ہوتا ہے ۔ آخر کار مجھے مجبور یہ سچائیاں لے کر آنی پڑیں ۔ اب دیکھئے ان کے ایک شخص نے امریکہ میں انٹرویو دے دیا ۔ انہیرٹینس ٹیکس کی بات لے آئے ۔ 55 فیسڈ ٹیک آپ کی پراپرٹی پر … اب میں ترقی اور وراثت کی بات کررہا ہوں اور یہ وراثت کو لوٹنے کی بات کرتے ہیں ۔ دولت کی دوبارہ تقسیم کی بات کرتے ہیں تو میں وراثت کی بات کرتا ہوں اور ان کا آج تک کی تاریخ ہے کہ وہ کریں گے کیا، تو پھر یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں باشندگان وطن کو بتاوں کہ یہ ملک کو اس سمت میں لے جارہے ہیں ۔ اب آپ طے کیجئے، جانا نہ جانا ان کا حق ہے ، لیکن میرا فریضہ بنتا ہے کہ حقائق کی بنیاد پر ، دلیل کی بنیاد پر ، ان کی حقیقتوں کی بنیاد پر مجھے بتانا چاہئے ۔ وہ میں بتا رہا ہوں ۔

سوال 3 : سیم پترودا انہیریٹینس ٹیکس کی بات کی ہے ۔ یعنی جو ہم لوگوں کی جمع پونجی ہے، جب ہم اپنی فیملی کے لئے بچت کرتے ہیں، جسے ہم اپنی آنے والی نسل کو دیں گے تو اس پر بھی ٹیکس لگے گا اور یہ ٹیکس بہت بڑا ٹیکس ہوسکتا ہے تو کیا آپ کہیں گے کہ بی جے پی اگر آئے گی تو اس ٹیکس کو کبھی نہیں لاگو کرے گی؟

وزیراعظم مودی: بھارتیہ جنتا پارٹی کیا کرے گی ہمارے منشور میں سب ہم لکھ کرکے لائے ہیں ۔ اب انہوںنے کہیں شگوفہ چھوڑ دیا تو می بھی جھنڈا لے کر گھوموں گا، یہ سوال آپ کے من میں کیسے آجاتا ہے ؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کا نظریہ صاف ہے۔ ہم اپنے نظریہ کی بنیاد پر پروگرم لے کر کے منشور کو لے کر کے ملک کے سامنے جاتے ہیں۔ براہ کرم کرکے ایسے افراد کے خیالات کو ہم پر مت تھوپیئے ۔

سوال 4: مودی جی، راہل گاندھی نے ایک اور بات کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ نیشنل ایکسرے کروائیں گے۔ اس سے متعلق ایک سوال ہے، اسی لیے پوچھنا چاہتا ہوں۔ نیشنل ایکسرے کروائیں گے۔ بات صرف کاسٹ مردم شماری کی نہیں ہے جو وہ کرتے ہیں، اس پر بھی آپ کی رائے جاننا چاہوں گا۔ گر بات جو وہ کہتے ہیں کہ بات کاسٹ کی نہیں، بات جسٹس کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جو ہیں ایک سوشیو انکنای سروے لائیں گے، ایک انسٹی ٹیوشنل سروے لائیں گے اور اس میں دیکھیں گے کہ کس جات اور کس طبقہ کے پاس کیا ہے، کتنا پیسہ ہے، کتنی انسٹی ٹیوشن میں شراکت داری ہے اور اس کی بنیاد پر ہم اس پورے سسٹم کو دوبارہ تقسیم کریں گے، اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں ۔

وزیراعظم مودی : سب سے پہلے تو اس ملک میں جو لوگ اپنے آپ کو سیاست کا ایکسپرٹ مانتے ہیں، جو لوگ ملک کے اتار چڑھاو کو بڑی باریکی سے تجریہ کرتے ہیں، سب سے پہلے ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے پوچھیں کہ جن حالات کے بارے میں آپ بات کررہے ہیں… اگر یہ صحیح ہے تو 50، 60، 65 سال تو آپ نے راج کیا ہے۔ یہ مصیبت کے پیدا کرنے والے آپ ہو، اور آپ نے یہ بربادی لائی ہی کیوں، پہلے ان کا جواب مانگیں ۔ نمبر ون ۔

نمبر دو- ایکسرے کا کیا مطلب ہے؟ مطلب ہر گھر میں جانا۔ گھر گھر چھاپے مارنا۔ اگر کسی عورت نے اپنے زیورات اناج کے ڈبے میں چھپا رکھے ہیں تو اس کا بھی ایکسرے کیا جائے گا۔ ان کے زیورات چھین لیے جائیں گے۔ زمینوں کا حساب لیا جائے گا اور پھر دوبارہ تقسیم کیا جائے گا۔ یہ دنیا میں ایک ماؤسٹ آئیڈیا نے سب کیا ہے۔ دنیا برباد ہو چکی ہے۔ یہ مکمل طور پر اربن نکسل ہے… یہ اسی سوچ کا براہ راست اظہار ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ منشور کے سامنے آنے کے 10 دن کے بعد بھی یہ کمیونٹی جو روزانہ پڑھائی لکھائی کرتی ہے خاموش ہے۔ ان کے پروٹیکشن میں چپ رہی ہے۔ تب مل کر میری ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ملک کو جگانا، کہ دیکھئے یہ آپ کو لوٹنے کا … اور دوسرا پارٹ ہے ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ جی وغیرہ نے ہر بار کہا ہے کہ جو بھی جائیداد ہوگی، اس پر پہلا حق کس کا ہوگا، تو حساب کتاب تو صاف ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔

وزیراعظم نریندر مودی کے پورے انٹرویو کو اس لنک پر پڑھیں ۔