Tag Archives: Exclusive Interview

میری ڈکشنری میں نروسنیس لفظ نہیں ہے، میں نے تپسیا کی ہے : وزیراعظم مودی

نئی دہلی : وزیر اعظم نریندر مودی لوک سبھا انتخابات میں مسلسل ریلیاں، روڈ شو اور جلسہ عام کر رہے ہیں۔ وہ ایک دن میں 3 سے 4 ریاستوں کا احاطہ کر رہے ہیں۔ کل انہوں نے بہار میں تین مقامات پر جلسہ کیا اور شام کو وارانسی میں روڈ شو کیا۔ آج صبح، مہاکال اور ماں گنگا کی پوجا کرنے کے بعد انہوں نے وارانسی سے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا۔ وزیراعظم مودی تیسری بار وارانسی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے بعد نیوز 18 انڈیا کی کنسلٹنگ ایڈیٹر روبیکا لیاقت نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کئی مسائل پر بات چیت کی۔ جب ان سے انتخابات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ”یہ الیکشن مودی نہیں لڑ رہا ہے ۔ یہ الیکشن 140 کروڑ باشندگان وطن لڑ رہے ہیں۔ میرا بہت طویل تجربہ ہے انتخابات کا، عوام کے مزاج کا تجربہ ہے ، ان اتجربہ میں سمجھ سکتا ہوں، یہ الیکشن سے بھی کافی اوپر کا مرحلہ ہے ۔ یہ ووٹ دے کر چھوٹنے والا مرحلہ نہیں ہے، ملک کے لوگ مودی سے جڑ چکے ہیں اور زیادہ جڑنا چاہتے ہیں ۔

انتخابات میں بی جے پی کی جیت کو لے کر وزیر اعظم میں ایک الگ ہی اعتماد نظر آرہا تھا۔ جب ان سے اس اعتماد کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ملک کے لوگوں کو لگتا ہے کہ ملک نے کئی حکومتوں کے ماڈل دیکھے ہیں۔ لیکن بی جے پی نے ایک ایسا ماڈل پیش کیا ہے جس میں جدید ہندوستان کا عزم بھی ہے اور اور خواب بھی ہے۔ اور آج مودی ملک کے عام آدمی کے خوابوں کو پورا کرنے کا کام کر رہا ہے ۔ اس لیے زمینی سچائی میرے ساتھ جڑ چکی ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں کو تبدیلی واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا بن رہا ہے۔ ہم چاند پر پہنچ رہے ہیں۔ ملک گرین ہائیڈروجن کا مرکز بننے جا رہا ہے۔ اسٹارٹ اپ ہو رہے ہیں۔ ان سے نوجوانوں کو لگ رہا ہے کہ دنیا کے لیے ہندوستان کے دروازے کھل رہے ہیں۔ ملک کے نوجوان میری کامیابیوں سے اپنے خواب بن رہے ہیں۔

انتخابات کو لے کر آپ گھبرائے ہوئے ہیں؟ اس سوال پروزیراعظم مودی نے کہا کہ نروسنیس لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ میں نے اپنی زندگی میں تپسیا کی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے ہم وطنوں کے لیے صرف کیا ہے۔ اور میں نے یہ سب اس لیے کیا ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ بہت ڈیزرونگ ہیں۔ 70 سال تک ناانصافی ہوئی ہے۔ جب کوئی ان کے آنسو پونچھتا ہے، کوئی ان کے بیت الخلاء کی فکر کرتا ہے، ان باتوں کو وہ بھول نہیں سکتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کے مشکل وقت میں انہوں نے کسی گھر کا چولہا بجھنے نہیں دیا تھا۔ بچوں کو بھوکا سونے نہیں دیا تھا۔ ان تمام کاموں کی وجہ سے لوگوں کا حکومت پر اعتماد بڑھا ہے اور یہی اعتماد انہیں توانائی دیتا ہے۔

’دراندازوں‘ اور’ زیادہ بچے پیدا کرنے والوں‘ کی کیوں کہی بات؟ وزیراعظم مودی نے دیا یہ جواب

وارانسی : ‘اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ملک کی دولت کو ‘دراندازوں’ اور ‘جن کے زیادہ بچے ہیں’ ان کے درمیان تقسیم کر دے گی، وزیر اعظم نریندر مودی کی پچھلے دنوں کہی اس بات پر کافی ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ کانگریس نے وزیراعظم مودی کے اس بیان پر الیکشن کمیشن سے شکایت بھی کی ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم مودی نے نیوز 18 انڈیا کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اس بیان سے پیدا ہوئے ہنگامے کا جواب دیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے واضح طور پر کہا کہ وہ مسلمانوں سے اپنی محبت کی مارکیٹنگ نہیں کرتے اور جس دن ہندو مسلم کرنے لگیں گے ، تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔

نیوز 18 انڈیا کی کنسلٹنگ ایڈیٹر روبیکا لیاقت نے وزیراعظم مودی سے خصوصی بات چیت میں پوچھا کہ آپ نے اسٹیج پر دراندازوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کی بات کیوں بات کہی؟ تو وزیر اعظم نے کہا کہ ‘یہ غلط بات ہے، میں نے صرف مسلمانوں کی بات نہیں کی، میں نے ہر غریب خاندان کی بات کہی۔’ وزیر اعظم مودی نے یہ بھی کہا کہ ‘میں نے نہ ہندو کہا اور نہ ہی مسلمان… جس دن میں ہندو ۔ مسلمان کرنے لگوں گا، میں سیاست کرنا بند کردوں گا۔ میں سب کو برابر دیکھتا ہوں۔ یہ میری قرارداد ہے۔

وہیں جب وزیراعظم مودی سے پوچھا گیا کہ ‘آپ اس تاثر کو توڑنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے کہ آپ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ مسلمان کا سوال نہیں ہے۔ ذاتی طور پر مسلمان مجھے بھلے ہی پسند کریں، لیکن 2002 کے بعد میری شبیہ خراب کردی گئی ۔ وزیراعظم مودی نے ساتھ ہی کہا کہ ‘میں مسلمانوں کی محبت کی مارکیٹنگ نہیں کرتا۔’

وزیراعظم مودی نے کہا کہ میں بچپن میں مسلم کنبوں کے درمیان رہا ہوں۔ میرے کئی دوست مسلمان ہیں۔ میرے گھر کے ارد گرد سبھی مسلم کنبے رہتے تھے ۔ ہمارے یہاں عید کے دنا کھانا نہیں بنتا تھا ۔ سھی مسلم کنبوں سے ہمارے گھر کھانا آتا تھا۔ گودھرا کے بعد مانک چوک پر سبھی خریدار ہندو ہیں، سبھی دکاندار مسلمان ہیں، دیوالی میں بڑی بھیڑ ہوتی ہے ، میں نے 2002 میں وہاں سروے کروایا ، میں نے لڑکوں کو سروے کرنے بھیجا۔ وہاں مسلمان کہتے تھے کہ مودی کا نام مت لینا… مودی نہیں تھا تو بچے اسکول نہیں جاتے تھے۔ ان کی ماں اتنی خوش تھی کہ مودی کے آنے کے بعد بچوں کی زندگی بدل گئی ۔

مسلمانوں سے کیسا رشتہ ہے، کب کس نے شبیہ خراب کی؟ وزیراعظم مودی نے نیوز18 کو بتایا ، کہا: میں نہیں کرتا ہندو ۔ مسلمان

نئی دہلی: لوک سبھا انتخابات میں وارانسی سے ایک بار پھر پرچہ نامزدگی داخل کرنے والے وزیراعظم مودی نے نیوز 18 انڈیا کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ مہادیو کی نگری کاشی میں نیوز 18 کی مقبول اینکر روبیکا لیاقت کے ساتھ بات چیت میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ یہ الیکشن مودی نہیں لڑ رہا ہے، بلکہ 140 کروڑ عوام لڑ رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ وہ بچپن سے ہی مسلم خاندانوں سے گھرے رہے ہیں۔ آج بھی ان کے بہت سے مسلمان دوست ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2002 کے بعد ان کی شبیہ کو داغدار کردیا گیا۔ تو آئیے جانتے ہیں کہ وزیراعظم مودی نے مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات اور گودھرا کے بارے میں کیا کہا؟

آپ اس تاثر کو توڑنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوپائے کہ آپ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مسئلہ مسلمانوں کا نہیں ہے۔ ذاتی طور پر مسلمان کتنا بھی مودی کے ساتھ ہوگا، لیکن ایک خاص نظریاتی اثر ہے جو حکم کرتا ہے کہ آپ یہ کرو ، وہ کرو۔ اس کی بنیاد پر وہ فیصلہ کرتا ہے ۔ میرا جو گھر ہے، میرے ارد گرد میں سارے مسلم کنبے ہیں ۔ ہمارے گھر میں عید بھی منائی جاتی تھی، ہمارے گھر میں اور بھی تہوار ہوتے تھے۔ ہمارے گھر میں عید کے دن کھانا نہیں بنتا تھا ۔ سبھی ملسم گھروں سے میرے یہاں کھانا آجاتا تھا ۔ جب محرم نکلتا تھا، تب ہمارا تعزیہ کے نیچے سے نکلنا لازمی ہوتا تھا۔ ہمیں سکھایا جاتا تھا ۔ میں اس دنیا میں پرورش پایا ہوں۔ آج بھی میرے بہت سارے دوست مسلم ہیں ۔

وزیراعظم مودی نے گودھرا واقعہ کو کیا یاد

وزیراعظم مودی نے مزید کہا کہ 2002 کے بعد میری شبیہ بہت خراب کردی گئی ۔ گودھرا کے بعد میں نے سوچا کہ مجھے حقیقت کا علم ہونا چاہیے۔ میں نے اپنے 30 کارکنوں کا ایک تربیتی کیمپ لگایا اور انہیں سروے کرنے کا طریقہ سکھایا۔ ڈیٹا بیسڈ سروے نہیں بلکہ بات چیت پر مبنی سروے۔ احمد آباد میں مانک چوک نامی ایک جگہ ہے۔ لوگ شام کو کھانا کھانے وہاں جاتے ہیں۔ وہاں کے سبھی تاجر مسلمان ہیں اور خریدار ہندو ہیں۔ اور یہاں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ پیدل نہیں چل سکتے۔ دیوالی کے موقع پر کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ وہاں ہر قسم کی چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے اس بازار میں سروے کرانا ہے۔ میں نے لڑکوں کو بھیجا اور میں روزانہ کی رپورٹ دیکھتا تھا۔ اس نے جا کر پوچھتے تھے کہ آپ بتائیے دیوالی کیسی ہے، جواب آتا تھا کہ ہاں جی دیوالی اچھی ہے۔ میں 2002 کی بات کر رہا ہوں۔ سروے کرنے والا پھر کہتا تھا کہ مودی بیٹھا ہے یار اور دیوالی… تو جواب آتا تھا کہ مودی کا نام مت لینا۔ ایک نے کہا کہ اس کی ماں سنے گی تو رات کا کھانا نہیں دے گی ۔ سروے والے نے پوچھا کیوں، تو کہا کہ ارے مودی نہیں آیا تھا تو تب تک اسکول نہیں جانا تھا، مودی آیا ہے تو اسکول جارہا ہے ۔ دیوالی کی چھٹی ہے تو میرے یہاں دکان پر مدد کررہا ہے ۔ ان کی ماں اتنی خوش تھی کہ مودی کے آنے کے بعد بچوں کی زندگی بدل گئی ۔ مودی کے خلاف میرے پاس مت بولو کچھ ۔ تقریبا تقریبا 90 فیصد دکان والوں کا یہی جواب تھا ۔

وزیراعظم مودی نے سنایا مسلم خاتون کا قصہ

وزیراعظم مودی نے مزید کہا کہ مجھے ایک مرتبہ مسلم خاتون ملنے آئی ۔ بہت مبارک باد دے رہی تھی، کچھ توقعات لے کر آئی تھیں ۔ وہ جوہاپوری سے آئی تھی، جہاں تین چار لاکھ مسلمان ہیں ۔ میں نے پوچھا کوئی تکلیف ہے کیا، کوئی پولیس والا یا سرکار پریشان کرتی ہے کیا؟ بولی نہیں نہیں صاحب، ہم تو آپ کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں ۔ آپ نے بجلی کا کام کیا ہے، وہ بہت اچھا کام کیا ہے ۔ میں نے کہا کہ تو میں نے بہت برا کیا ۔ میں نے تو 35 کلو میٹر کیبل اکھاڑ کر پھینک دیا ہے اور وہاں کوئی سرکاری آدمی نہیں جا پاتا تھا ۔ وہ بلی وہی تو اچھا کام کیا ہے سر آپ نے ۔ میں نے کہا کہ کیسے ، میں نے تو کیبل کاٹ دیا ۔ اس نے کہا کہ نہیں سر، ہمارے یہاں ہر محلہ میں بجلی وزیر ہیں اور وہ بجلی دے کر ہم سے ادائیگی لیتے تھے ۔ سرکار کی بجلی چوری کرکے ہم کو بیچتے تھے ۔ ہمارے پیسے بہت جاتے تھے ۔ اب ریگولر بجلی آتی ہے ، کوئی داد  گیری نہیں ہوتی ، اس لئے ہم یہاں آئے ہیں ۔

انہوں نے انٹروید میں مزید کہا کہ پہلے میرے اوپر اخبارات میں ہوتا تھا مودی نے ظلم کردیا ، کیبل کاٹ دیا ۔ دراصل میں نے ان کا اچھا کیا ۔ ایسے میری زندگی میں سینکڑوں واقعات ہیں، مگر میں اس کی مارکیٹنگ نہیں کرتا ۔ میں ووٹ بینک کیلئے کام نہیں کرتا ۔ میں سب کا ساتھ، سب کا وکاس میں یقین رکھتا ہوں۔

’کانگریس کی منشا کا پردہ فاش ضروری‘، پیوش گوئل نے کہا : اب بھی پولرائزیشن کی سیاست چھوڑنے کو تیار نہیں

نئی دہلی : مرکزی وزیر پیوش گوئل نے اتوار کو کہا کہ کانگریس اب بھی لوک سبھا انتخابات کے لیے خوشامد کی سیاست پر منحصر ہے، جس کا انکشاف اس کے منشور میں کیا گیا ہے۔ نیٹ ورک 18 گروپ کے ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں گوئل نے ہندو مسلم ایجنڈے کے مقابلے میں بی جے پی کی ترقی کے بارے میں بات کی۔ یہاں ان کا انٹرویو ہے۔

راہل جوشی: پیوش جی، نیوز 18 کے اس خصوصی شو میں آپ کا استقبال ہے ۔ ہمارے اسٹوڈیو میں تشریف لانے کیلئے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ انتخابات زوروں پر ہیں اور تین مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ آپ کا الیکشن 20 مئی کو ہے۔ آپ پہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟

پیوش گوئل: میں بہت خوش ہوں۔ میں وزیر اعظم نریندر مودی کا شکر گزار ہوں کہ 40 سال سیاست کے میدان میں کام کرنے کے بعد مجھے عوام کی عدالت میں جاکر ان کی خوشی اور غم کو زمین پر اتارنے کا موقع ملا ہے۔

پچھلے 40 سالوں میں میں نے کئی الیکشن دیکھے ہیں، کئی الیکشن کے لیے حکمت عملی بنائی، کئی الیکشن میں دوسروں کے لیے کام کیا۔ میں نے لال کرشن اڈوانی جی کے پہلے الیکشن کی بھی دیکھ ریکھ کی تھی۔ انہوں نے پہلی بار 1989 میں لوک سبھا کا الیکشن لڑا تھا۔ اس سے پہلے انہوں نے کبھی کوئی الیکشن نہیں لڑا تھا۔ اب میری عمر تقریباً اتنی ہی ہے۔ تب ان کی عمر 62 سال رہی ہوگی۔

لیکن، جب کوئی شخص امیدوار ہوتا ہے، تو یہ ایک مختلف صورت حال ہوتی ہے۔ خدشات بھی ہوتے ہیں اور مجموعی طور پر ایک پختگی بھی پیدا ہوتی ہے۔ آپ لوگوں کے درمیان جائیں اور ان سے ان کی روزمرہ کی زندگی میں بات کریں۔

راہل جوشی: ہم مہاراشٹر پر واپس آئیں گے اور آپ کے حلقے کے بارے میں بھی بات کریں گے، لیکن آپ آج ہمارے ساتھ ہیں، آپ ایک قومی لیڈر ہیں، آپ نے کئی وزارتیں سنبھالی ہیں۔ ایک زمانے میں، مجھے لگتا ہے کہ آپ حکومت میں سب سے زیادہ محکموں کو سنبھال رہے تھے۔ تو آئیے پہلے آپ سے کچھ بڑے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ میں نے حال ہی میں امت شاہ جی کا انٹرویو کیا اور ان سے پہلا سوال پوچھا کہ آپ کا نعرہ ‘اب کی بار 400 پار’ ہے۔ کیا یہ اب بھی قائم ہے یا مہم پٹری سے اتر رہی ہے؟

پیوش گوئل: یہ اب بھی قائم ہے۔ اور جب آپ میدان میں آتے ہیں، جب آپ لوگوں کے درمیان جاتے ہیں تو آپ ان کا ردعمل دیکھتے ہیں۔ آپ ان کا ردعمل دیکھتے ہیں اور سیاسی رہنما لوگوں کے ردعمل سے اندازہ لگاتے ہیں کہ آپ کو کیا ردعمل مل رہا ہے۔ تقریر کے دوران کیا ردعمل ہوتا ہے، کسی مسئلے پر کیا ردعمل ہوتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ ہم 400 کے پار ضرور جائیں گے، لیکن جس طرح سے اپوزیشن اتنے ناگوار، متنازعہ اور خوفناک بیانات دے رہی ہے، جس طرح وہ جعلی بیانات سے ایشوز کو بھٹکانے کی کوشش کر رہی ہے، جس طرح سے INDI اتحاد میں اندرونی کشمکش سامنے آگئی ہے۔ کیرالہ میں سی پی ایم اور کانگریس کے درمیان لڑائی… مغربی بنگال میں وہ دوست ہیں، لیکن ٹی ایم سی اور کانگریس لڑ رہے ہیں۔

اس پوری اپوزیشن نے خود کو ایک انتہائی کمزور اپوزیشن کے طور پر اجاگر کیا ہے۔ ان کے پاس نہ لیڈر ہے، نہ قیادت، نہ پالیسی، نہ ملک کے تئیں  نیت۔ وہ ہم آہنگی اور حساسیت سے کیسے کام کریں گے؟ ایسے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی 10 سالہ میعاد اور ان کی 50 سالہ بے داغ عوامی زندگی لوگوں کو متاثر کرتی ہے اور انہیں یقین دلاتی ہے کہ وہ واحد ہیں ہے جو اس ملک کو عالمی سطح پر لے جا سکتے ہیں ۔

راہل جوشی: ہم نے دیکھا ہے کہ پہلے دو تین مرحلوں میں ووٹنگ کا فیصد تھوڑا کم تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے ہم نے اسٹاک مارکیٹوں میں بھی ہلکی سی گراوٹ دیکھی ہے۔ ایف آئی آئی فروخت کر رہے ہیں۔ بات ہو رہی ہے کہ آپ اپنی سیٹ کے ہدف تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ چار مہینے پہلے آپ نے مجھے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے 330 کا اعداد و شمار دیا تھا۔ تو، آپ کون سا نمبر دیکھ رہے ہیں؟ کیا ان خبروں میں کوئی صداقت ہے کہ کم ٹرن آؤٹ کی وجہ بی جے پی میں حد سے زیادہ اعتماد ہے اور کارکنان اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں ؟ آپ اس نیریٹیو کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟

پیوش گوئل: سب سے پہلے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں نے آپ کو جو 330 کا اعداد و شمار دیا ہے وہ جے ڈی (یو) کے ساتھ ہمارے اتحاد سے پہلے، چندرابابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی کے ساتھ اتحاد سے پہلے اور تمل ناڈو میں کسی بھی اتحاد سے پہلے تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ستمبر اکتوبر کے آس پاس تھا۔

ان تمام پیش رفت کے بعد یہ تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کے اعداد و شمار میں اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر این ڈی اے کے اعداد و شمار میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی حالات بھی بدل گئے۔ مثال کے طور پر مغربی بنگال، اڈیشہ اور تلنگانہ۔ ان تینوں ریاستوں میں ہمیں عوام کی جانب سے بی جے پی کے لیے امید سے کہیں بہتر ردعمل، پیار اور آشیرواد مل رہا ہے ۔

کیرالہ، تمل ناڈو اور آندھرا پردیش میں، ہم نے سوچا تھا کہ بی جے پی خالی ہاتھ رہ سکتی ہے، لیکن اب وہ بھی بہت امید افزا نظر آرہے ہیں۔

راہل جوشی: کیا اس بار بی جے پی کیرالہ اور تمل ناڈو میں اپنا کھاتہ کھولے گی؟

پیوش گوئل: یقیناً، ہم اپنا کھاتہ ضرور کھولیں گے۔ تقریباً سبھی متفق ہیں۔ ہم کیرالہ میں اپنا کھاتہ کھولیں گے اور سیٹوں اور ووٹ شیئر دونوں کے لحاظ سے چونکا دیں گے۔

راہل جوشی: ووٹ شیئر کے معاملے پر سبھی متفق ہیں۔ لیکن کیا یہ سیٹوں میں تبدیل ہوگا؟

پیوش گوئل: دو یا تین سیٹیں ہیں جن میں ہم بہت مضبوطی سے دوڑ میں ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ ہم یقینی طور پر ایک جیتیں گے۔

راہل جوشی: تمل ناڈو میں؟

پیوش گوئل: نہیں، تمل ناڈو نہیں… کیرالہ۔ تمل ناڈو میں بھی تقریباً یہی صورتحال ہے۔ ہم یقینی طور پر دو جیتیں گے اور ہم چار یا پانچ میں مضبوط پوزیشن میں ہیں۔

راہل جوشی: اور اگر ہم پورے جنوب کو دیکھیں، جہاں تقریباً 130 سیٹیں ہیں…

پیوش گوئل: اگر ہم پورے جنوب کو دیکھیں تو ایک وقت میں تین یا چار ریاستوں میں ہماری موجودگی تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ اور آج ہم واحد پارٹی ہیں جس کی ہر ریاست میں موجودگی ہے۔ جیسے ہی ہم کیرالہ، تمل ناڈو میں اپنا کھاتہ کھولیں گے اور اس بار آندھرا میں ہمیں اچھے نتائج ملیں گے، جیسا کہ آپ نے وجئے واڑہ میں ملنے والے ردعمل سے اندازہ لگایا ہوگا، جو حیرت انگیز تھا۔

تلنگانہ میں جس طرح سے حالات پیدا ہو رہے ہیں، ہم اپوزیشن اور حکمراں پارٹی سے بہت آگے ہیں۔ اور کرناٹک میں ہم کافی حد تک اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

راہل جوشی: پیوش جی، آئیے کچھ بڑے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اتنا یقین ہے کہ 400 سیٹیں آسانی سے پار ہوجائیں گی، بی جے پی کو 370 سیٹیں مل جائیں گی، جب یہ الیکشن زور پکڑنے لگے تو آپ کی پارٹی ترقی کی بات کر رہی تھی، معیشت کی بات کر رہی تھی، مودی جی کے دور میں ہوے بڑے بڑے کاموں کی باتیں کر رہی تھیں۔  لیکن پھر، خاص طور پر دو مرحلوں کے بعد پوری مہم ہندو مسلم پر مرکوز ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم نے راجستھان میں اپنی ریلی میں بھی اس کا ذکر کیا تھا۔ یہاں تک کہا گیا کہ کانگریس جائیداد کی تقسیم کی بات کر رہی ہے، وہ ہندوؤں کی بچت لے کر مسلمانوں اور دراندازوں میں بانٹ دے گی۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟ اس وقت یہ ایشو اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟

پیوش گوئل: ہم نے یہ بحث شروع نہیں کی ہے۔ آپ مودی کی گارنٹی دیکھ لیں۔ یہ بہت مثبت بیانیہ ہے۔ ہم نے ملک کے ہر مسئلے کو بہت سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ رکھا ہے۔ ہم نے اس امرت کال میں ہم کس طرح ایک ترقی یافتہ ہندوستان بن سکتے ہیں اور اپنی تیسری میعاد میں اس سمت میں کیا قدم اٹھائیں گے، اس کا وزن ہم نے رکھا ہے ۔

مجھے یہ بدقسمتی معلوم ہوتی ہے کہ کانگریس کا منشور جاری ہونے کے بعد وہ پوری طرح سے بے نقاب ہو گئے کہ وہ اب بھی پولرائزیشن کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ آج بھی وہ سام پیترودا کے دکھائے گئے معاشی راستے پر چلنے کا سوچ رہے ہیں۔ ان کے لیے بھید بھاو کی سیاست اب بھی ترجیح ہے۔ اور معاشرے میں جس قسم کا کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کی، اسے صحیح طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہمیں ضروری لگا اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ترقی اور مثبت ایجنڈے پر بات کرنا بند نہیں کیا ہے۔

لیکن، فطری طور پر، خواہ وہ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، ہمیشہ سنسنی خیز، ٹی آر پی اور ہیڈ لائن ہنٹنگ کی طرف کچھ جھکاؤ ہوتا ہے۔ تو ایسا لگتا ہے کہ نیریٹیو بدل گیا ہے۔ لیکن آپ ہم میں سے کسی کی بھی تقریریں دیکھ سکتے ہیں، خواہ وہ وزیر اعظم ہوں، امت بھائی ہوں، جے پی نڈا جی ہوں، راج ناتھ جی ہوں، یا ہمارے جیسے امیدوار، ہم لوگوں کے درمیان بہت مثبت رویہ کے ساتھ جا رہے ہیں اور مثبت انداز میں مہم چلا رہے ہیں۔ یہ الیکشن ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا، اس پر ہماری توجہ ہے۔ یہ الیکشن طے کرے گا کہ مودی جی وزیر اعظم بنیں گے یا ادھر ، اس پر سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ بھلے ہی انہوں نے کہا ہے کہ وہ پانچ سالوں میں پانچ وزرائے اعظم مقرر کریں گے لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ وہ پانچ کون ہوں گے اور پہلا کون ہوگا۔

پیوش گوئل کے پورے انٹرویو کو اس لنک پر پڑھیں ۔

راہل گاندھی کی ہار کو چھپانے کا بہانہ تلاش کررہی اپوزیشن، ای وی ایم سے چھیڑچھاڑ کے سوال پر پیوش گوئل نے کہا

نئی دہلی : مرکزی وزیر پیوش گوئل نے اتوار کو کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے خلاف الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) سے چھیڑ چھاڑ کا اپوزیشن کا الزام لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی کی شکست کو چھپانے کے لیے ایک بہانہ ہے۔ نیٹ ورک 18 گروپ کے ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں گوئل نے بتایا کہ کس طرح گاندھی خاندان نے کہا کہ بی جے پی اور وزیر اعظم ای ڈی، سی بی آئی اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بغیر الیکشن نہیں جیت پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس اور اپوزیشن ‘انڈیا’ اتحاد کو معلوم ہے کہ وہ انتخابات ہار جائیں گے اور اسی لیے وہ راہل اور گاندھی-نہرو خاندان کو بچانے کے لیے ‘احمقانہ کہانی’ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ … یہ ایک انتہائی احمقانہ بیان ہے۔ وہ پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ وہ ہارنے والے ہیں، اس لیے اب وہ اس کہانی کو چھپانے کے لیے زمین تیار کر رہے ہیں کہ یہ راہل گاندھی کی ہار ہے۔ اس لیے وہ ای وی ایم کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ پھر وہ شرد پوار یا ادھو ٹھاکرے پر بھی مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ انہیں صرف راہل گاندھی اور گاندھی نہرو خاندان کو بچانا ہے۔

مرکزی وزیر تجارت نے کہا کہ اگر ای وی ایم میں کوئی خرابی ہے تو کرناٹک اور تلنگانہ میں کانگریس کی قیادت والی حکومتوں کو یہ کہتے ہوئے فوراً استعفیٰ دے دینا چاہئے کہ ای وی ایم سے کرائے گئے اسمبلی انتخابات کے نتائج غلط ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس نے کرناٹک اور تلنگانہ میں انتخابات جیتے ہیں، اس لیے انہیں یہ کہتے ہوئے فوری استعفیٰ دے دینا چاہئے کہ ای وی ایم کے نتائج غلط ہیں۔ انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ وہ حکومت نہیں بنائیں گے اور وہ انتخابات کے لیے بیلٹ باکس واپس چاہتے ہیں۔ اس لیے ایسے میں انہیں فیصلہ کرنے دیجئے ۔

پیوش گوئل نے کہا کہ جب کوئی فیصلہ ان کے حق میں نہیں آتا تھا تو اپوزیشن ہندوستان کی عدالت عظمی کی تنقید کرے اور جب یہ ان کے فائدہ کیلئے ہوتا تھا تو اس کی سراہنا کرکے عدالت کو “جذباتی طور پر بلیک میل” کرتی تھی ۔

پیوش گوئل نے ہیمنت کرکرے پر دئے گئے بیان کو بتایا شرمناک، ’فتوی‘ کی بھی تنقید کی

نئی دہلی : مرکزی وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبئی نارتھ کے امیدوار پیوش گوئل نے نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں فتویٰ اور خوشامد کی سیاست کی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 26/11 کے شہداء اور اس وقت کے اسپیشل ٹاسک فورس کے سربراہ ہیمنت کرکرے پر تبصرہ کرنا شرم کی بات ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ جمعیۃ علماء نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ مسلمان کانگریس، ادھو ٹھاکرے اور شرد پوار کی پارٹی کو ووٹ دیں۔ اس کے جواب میں راج ٹھاکرے، جو بی جے پی کے ساتھ ہیں، نے کہا کہ انہوں نے بھی ایک “فتویٰ” جاری کیا ہے کہ تمام ہندووں کو بی جے پی، شندے سینا اور اجیت پوار کو ووٹ دیان دینا چاہئے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے گوئل نے کہا کہ “راج ٹھاکرے جی کوئی مذہبی لیڈر نہیں ہیں۔ انہوں نے غصے میں یہ کہا ہے۔ یہ ایک طرح کا ردعمل اور جوابی حملہ ہے۔ کسی کو بھی غصے میں فتویٰ دینے کا حق نہیں ہے۔‘‘


مذہبی رہنماوں کی طرف سے مذہب کی بنیاد پر فتویٰ جاری کیا جاتا ہے۔ ہم فتوے کی شدید تنقید کرتے ہیں۔ ایسا فتویٰ جاری کرنے سے سماجی ہم آہنگی تباہ ہوتی ہے۔ راج ٹھاکرے جی ایک سیاسی لیڈر ہیں… سیاسی لیڈر اپیل کرتے ہیں، اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور لوگوں کی حمایت اور آشیرواد حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے غصے میں یہ لفظ استعمال کیا تھا۔

مرکزی وزیر نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ مذہب اور سیاست کو نہیں ملانا چاہیے۔ یہ ملک سیکولر ہے۔ ایک سیکولر ملک میں ہم سب کو اپنے مذہب کی پیروی کرنی چاہئے، سیاست میں ہمیں سیاسی اور ٹھوس ایشوز پر الیکشن لڑنا چاہئے۔

پیوش گوئل نے کہا : وزیراعلی عہدہ اور بیٹے کیلئے اودھو نے وزیراعظم مودی کو دیا دھوکہ، بیٹی کیلئے شرد پوار نے چھوڑی این سی پی

ممبئی : مرکزی وزیر اور شمالی ممبئی سے بی جے پی کے امیدوار پیوش گوئل نے نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ مہاراشٹر کے ووٹر وزیر اعظم نریندر مودی اور دیویندر فڑنویس کے تئیں ہمدردی کا اظہار کریں گے، کیونکہ ادھو ٹھاکرے نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔

گوئل نے کہا کہ مہاراشٹر کی سیاست نے 2019 میں ایک نیا موڑ لیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2019 کا لوک سبھا الیکشن نریندر مودی کے نام پر لڑا گیا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اپنے علاقے سے شیو سینا کے ایم پی کو کامیابی دلوانے کیلئے میں گھر گھر سے لے کر ریذیڈنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی میٹنگوں میں گیا تھا اور کہا تھا کہ لوگوں کو مودی جی کو ووٹ دینا چاہئے کیونکہ یہ وزیراعظم منتخب کرنے کیلئے مودی جی کا انتخاب ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ شیوسینا کے ممبران پارلیمنٹ مودی جی کے نام پر الیکشن جیتے ہیں اور وہ اس سے واقف ہیں۔ یہاں تک کہ 2019 کے اسمبلی انتخابات میں بھی بار بار کہا گیا کہ دیویندر فڑنویس ہی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ یہاں تک کہ کئی اسٹیجوں پر عوامی میٹنگوں میں، جہاں ادھو ٹھاکرے جی بھی موجود تھے، یہ کہا گیا کہ دیویندر فڑنویس کو وزیر اعلی بنایا جائے گا۔

مرکزی وزیر نے کہا کہ ادھو ٹھاکرے نے ہمیں دھوکہ دیا۔ انہوں نے مودی جی اور فڑنویس کو دھوکہ دیا۔ آخر یہ ہمارا اتحاد تھا۔ اتحاد کو اکثریت مل گئی۔ کسی نہ کسی طرح سے ان کے وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش اور شاید اپنے بیٹے کو قائم کرنے کی خواہش نے بالاصاحب ٹھاکرے کے ہر اس اصول کو ترک کرنے پر مجبور کیا جس کے لیے شیو سینا کھڑی تھی۔

پیوش گوئل نے مزید کہا کہ ادھو ٹھاکرے نے ہندوتوا کو چھوڑ دیا۔ بالا صاحب ٹھاکرے کا مشہور بیان تھا – میں اپنی پارٹی تحلیل کر دوں گا، لیکن کانگریس سے کبھی ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔ ادھو ٹھاکرے نے اسے چھوڑ دیا۔

وزیرخارجہ جے شنکر نے راہل گاندھی پر سادھا نشانہ، کہا: کانگریس کے دور میں چین نے کیا کئی علاقوں پر قبضہ

نئی دہلی : ملک کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے نیوز 18 انڈیا کو ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ چین نے ہندوستان کے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے، وہ سبھی 1960 کی دہائی میں کیا ہے۔ چین نے گزشتہ 10 سالوں میں ہندوستان کی کسی بھی زمین پر قبضہ نہیں کیا۔ لیکن کانگریس والے یہ بھرم پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اب یہ سب ہو رہا ہے۔ پیش ہے ان کے انٹرویو کا کچھ حصہ۔

سوال: راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ چین ہندوستان سرحد میں آ گیا ہے۔ ہماری زمین پر قبضہ کرکے بیٹھا ہے۔ اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اڑی ہوا تو پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک ہوگئی، اگر پلوامہ ہوا تو ایئر اسٹرئیک ہوگئی، چین پر خاموشی کیوں رہی ہے؟

جے شنکر: چین پر خاموشی نہیں ہے۔ چین کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ کانگریس پارٹی اور راہل گاندھی کہتے ہیں کہ لداخ میں چین نے ہماری سرزمین پر ایک پل بنایا ہے۔ اگر آپ باریکی میں جائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ پل ضرور بنایا گیا ہے۔ وہاں ایک جھیل ہے پینگونگ ۔ پینگونگ پر چین نے 1958 میں قبضہ کیا تھا۔

کانگریس کہتی ہے کہ چین اروناچل پردیش میں ایک گاؤں آباد کر رہا ہے۔ اروناچل پردیش کا ایک مقام ہے لونگجو ۔ اگر آپ پارلیمنٹ کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پنڈت نہرو نے 1959 میں ہندوستان کی پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ لونگجو پر چین نے قبضہ کرلیا ہے۔ یہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

کانگریس کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ چین نے وادی سنکیانگ میں کراکورم کے قریب ایک لنک روڈ بنایا ہے۔ اس لنک روڈ کے ذریعے چین سیاچن کے پاس تک آجائے گا۔ یہ علاقہ 1963 میں ہندوستان کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا۔ وہ زمین چین کے پاس ضرور گئی لیکن یہ 1958 اور 1962 کے درمیان میں گئی تھی۔

اور ہماری کوشش ہے کہ ہم چین کے ساتھ سرحد پر کوئی معاہدہ کریں۔ اس لیے کانگریس والے جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ دکھانا چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اب ہو رہا ہے۔ یہ اب نہیں ہو رہا بلکہ پہلے ہو چکا ہے۔ 1962 میں ہم بغیر تیاری کے چلے گئے۔ نہ سڑکیں تھیں، نہ انفراسٹرکچر۔ ہمارے فوجیوں تک خوراک، گولہ بارود اور ہتھیار پہنچنے کو یقینی بنانے کا کوئی نظام نہیں تھا۔

اب جو بھی انفراسٹرکچر بنایا گیا ہے، وہ پچھلے 10 سالوں میں بنایا گیا ہے۔ جب مودی جی حکومت میں آئے تھے تو چائنا بارڈر انفراسٹرکچر کا بجٹ 3500 کروڑ روپے تھا۔ اس وقت بجٹ 15000 کروڑ روپے ہے۔

سوال: اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں، کیا ہندوستان بھی وہاں مبصر بھیجے گا؟

جے شنکر: یہاں کے انتخابی عمل کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے الگ الگ سیاسی جماعتوں کے لوگ ہندوستان آئے ہیں۔ میرے خیال میں ان کے ارادے مثبت ہیں۔ ہم انہیں بھی خوش آمدید کہتے ہیں۔ اگلے چند دنوں میں میں خود ان سے ملوں گا۔ ہمارے انتخابات پر جو تبصرے ہو رہے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے نہیں بلکہ بیرون ملک بیٹھے میڈیا والوں کے ذریعہ ہورہے ہیں۔

بھارت رتن یا پدم ایوارڈ کسی پارٹی کی نجی جائیداد نہیں، اس پر بی جے پی کا کاپی رائٹ نہیں: وزیراعظم مودی

نئی دہلی : بھارت رتن اور پدم ایوارڈز سے نوازنے میں اپنی حکومت کے غیر جانبدارانہ انداز کو اجاگر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے نیوز 18 نیٹ ورک کو ایک میگا خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ایوارڈز پر کسی پارٹی یا ان کی ذاتی ملکیت کا کاپی رائٹ نہیں ہیں۔ نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ایوارڈز ملک کے وصول کنندگان کے لیے ہیں اور کہا کہ ان کی حکومت نے حال ہی میں غیر بی جے پی آئیکنوں کو بھارت رتن سے نوازا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پرنب مکھرجی، نرسمہا راؤ، چودھری چرن سنگھ، کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دیا۔ اس ملک میں کسی نے ہمارے انتخاب پر سوال نہیں اٹھایا۔ ہر کوئی سمجھتا تھا کہ یہ مستحق تھے۔ وہ اپوزیشن پارٹیوں سے تھے اور پہلے بھی ہم پر تنقید کر چکے تھے لیکن ہمارا فیصلہ ایسی چیزوں پر مبنی نہیں تھا۔

وزیراعظم مودی نے مزید کہا کہ پدم ایوارڈز پر غور کریں – ملائم سنگھ، ترون گوگوئی، پی اے سنگما، ایس ایم کرشنا… سبھی دوسری پارٹیوں سے تھے، لیکن ہم نے انہیں ان کے متعلقہ شعبوں میں ان کی شراکت داری کے لئے پدم ایوارڈز سے نوازا ہے۔ یہ کسی پارٹی کا نہیں ملک کا ایوارڈ ہے۔ یہ مودی کی ذاتی جائیداد نہیں ہے۔ بی جے پی کا اس پر کاپی رائٹ نہیں ہے۔

وزیراعظم مودی نے مزید کہا کہ اگر آپ دلچسپی رکھتے ہیں، تو یہ کہانی دیکھنے کے قابل ہے کہ ملک میں پدم ایوارڈز کیسے بدل گئے ہیں۔ ہم نے اسے بدل دیا ہے۔ ایسے فیصلوں کے پیچھے سوچ کیلئے ہماری تعریف کی جانی چاہیے، وصول کنندگان کے انتخاب کے بارے میں سوال نہیں کیا جانا چاہیے۔

شرد پوار، جنہیں ان کی حکومت نے 2017 میں پدم وبھوشن سے نوازا تھا، کے ذریعہ ان کا موازنہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے کئے جانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ وہ این سی پی کے سرپرست کا بہت احترام کرتے ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ مراٹھا لیڈر کا بیان متضاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جو لوگ طویل عرصے سے عوامی زندگی میں ہیں وہ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف، ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوتن جیسے شخص کی قیادت والی حکومت سے ایوارڈ حاصل کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑا تضاد ہے۔

’وراثت ٹیکس، مسلم ریزرویشن …. ‘نیٹ ورک 18 کے ساتھ وزیراعظم مودی کا سب سے بڑا انٹرویو

راہول جوشی: مودی جی، نیوز 18 نیٹ ورک کو یہ خصوصی انٹرویو دینے کے لیے بہت بہت شکریہ۔ آپ نے اپنے پنشنگ (انتہائی مصروف) شیڈول سے ہمارے لیے وقت نکالا۔ ہم اس انٹرویو کو قدرے مختلف انداز میں کریں گے۔ کچھ بگ پکچر سوالات کریں گے۔ ہمارے ساتھ مہاراشٹر کے اینکر ہیں۔ دوسرے ہمارے کرناٹک کے ایڈیٹر ہیں۔ یہ دونوں ریاستیں اس الیکشن میں اہم ہیں۔ تو ہم نے سوچا کہ تھوڑے سوال یہ بھی آپس سے کریں گے ۔ شروع کرتے ہیں ۔ پہلا سوال-

پی ایم مودی: سب سے پہلے آپ کو اور آپ کے تمام ناظرین کو میرا نمسکار۔ مجھے اچھا لگا کہ کہ آپ نے اپنے ساتھ کرناٹک اور مہاراشٹر کو بھی شامل کردیا ہے۔ ایک طرح سے آپ نے میری مدد کی ہے ورنہ تینوں کو الگ الگ انٹرویو دینے پڑتے تو شاید مجھے مزید وقت دینا پڑتا۔

راہول جوشی: بہت بہت شکریہ، نیٹ ورک 18 میں خوش آمدید۔

سوال 1: ہم پورے ملک کا دورہ کر رہے ہیں۔ ادھر اور ادھر جارہے ہیں۔ ہم ساتھ میں تھے، بہار گئے اور ابھی مہاراشٹر میں بھی تھے، ہر جگہ یہی دیکھا گیا ہے کہ اپوزیشن سے بات کریں یا آپ کے امیدواروں سے بات کریں، لوگ کہتے ہیں کہ مودی جی جب یہاں آئیں گے تو سب کچھ بدل جائے گا۔ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ مودی جی آئیں گے تو ہوسکتا ہے سویپ ہوجائے، ہوسکتا ہے سیٹ نکل جائے، تو کیا 2024 کے اس الیکشن کو ہم نریندر مودی پر ایک ریفرینڈم کی طرح دیکھتے سکتے ہیں؟

پی ایم مودی: اب یہ تو سارا کھیل میڈیا والوں کا ہوتا ہے۔ کس وقت، کس طرح تجزیہ کرنا ہے، لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں ایسی کوئی حکومت نہیں چلاتا جو الیکشن کے دوران کام کرے۔ اگر آپ میرا 10 سالہ ریکارڈ دیکھیں گے تو اوسطاً جمعہ، ہفتہ، اتوار… میں ہندوستان کے کسی کونے میں گیا۔ میں عوام کے درمیان میں رہا ہوں اور اسی وجہ سے میرے دورے مسلسل جاری رہتے ہیں ۔ اور میں انتخابات کو جمہوریت کا جشن سمجھتا ہوں۔ سبھی سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک جائیں۔ لوگوں کے درمیان جا کر ایک طرح سے تربیتی کام ہونا چاہیے۔ رابطہ ہونا چاہیے۔ بحث ہونی چاہیے۔ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے، الیکشن ہوں یا نہ ہوں… میں اسے اپنا فرض سمجھتا ہوں اور اسی لیے جاتا ہوں۔

جہاں تک دو مرحلوں کا سوال ہے، میں نے بہت کم انتخابات میں ایسی عوامی حمایت دیکھی ہے، جو اس بار دیکھ رہا ہوں۔ ایک طرح سے جنتا جناردن یہ الیکشن لڑ رہی ہے۔ گڈ گورننس کے لیے لڑ رہی ہے ۔ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے لڑ رہی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میں ایک ساز ہوں۔ اس بار میرا تھوڑا زیادہ جوش ہے لوگوں کے درمیان جانے کا اور پہلے کے موازنہ میں شاید زیادہ بار جانا بھی چاہتا ہوں ، اس لئے کہ جو عوام نے اتنے جوش اور امنک کے ساتھ اتنی بڑی ذمہ داری اٹھالی ہے تو وہ عوام کو جاکرکے ان کو سلما کرنا، نمن کرنا، ان کا آشیرواد لینا … یہ مجھے اپنا فرض لگتا ہے اور میں دیکھتا تھا جو فرسٹ راونڈ ہوا، میں نے کسی دوست سے کہا تھا کہ پہلے راونڈ میں یہ ہمارے خلاف جو لوگ مورچہ لگا رہے ہیں، بیٹھنے کی کوشش کررہے ہیں پہلے راونڈ میں پست ہوگئے اور کل میں نے دیکھا دوسرے راونڈ میں یہ نیست و نابود ہوچکے ہیں ۔ یعنی پہلے لوگوں نے پست کردیا ، اب نیست و نابود کردیا ۔

سوال نمبر 2: مودی جی، جب آپ نے مہم شروعات کی تھی تو اس کی شروعات بڑے ہائی نوٹ پر کی گئی تھی۔ آپ نے حکومت کے پورے کام کا تعارف کرایا۔ آپ اپنے ترقیاتی ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھے۔ آپ نے معیشت پر کافی روشنی ڈالی اور اس پر بہت کام ہوا بھی ہے۔ اس کے چند قدم بعد آپ نے راجستھان میں ایک ریلی میں کانگریس کے منشور پر سیدھا حملہ کیا۔ آپ نے یہاں تک کہا کہ ان کے پاس ایک سکیم ہے جس کے ذریعے وہ دولت کی تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کس کے پاس کتنی جمع پونجی ہے، کس کے پاس کتنا پیسہ ہے، کس کے پاس کتنا سونا اور چاندی ہے اور وہ اسے مسلمانوں اور دراندازوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ خطرہ اتنا حقیقی ہے؟ کیا آپ کو ایسا نظر آتا ہے؟

وزیراعظم مودی: مجھے لگتا ہے کہ شاید آپ کی ٹیم نے میری پوری مہم کو ٹریک نہیں کیا ہے۔ یا شاید ترقی کے بارے میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ٹی آر پی کے حساب پر بیٹھتی نہیں ہوں گی۔ لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ میری پوری انتخابی مہم دو چیزوں پر مرکوز ہے۔ ایک- ہم نے سماجی بہبود اور عوامی بہبود کے لیے کیا کام کیا؟ اور دوسری حکومتوں اور اس حکومت میں سب سے بڑا فرق ، وہ یہ کہ لاسٹ مائل ڈیلیوری ، یہ ہماری خاصیت ہے۔ ہر حکومت پالیسیاں بناتی ہے۔ کوئی حکومت برا کرنے نہیں آتی ہے۔ اچھا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ اچھا کرنا جانتے ہیں، کچھ لوگ اچھا ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ میں ایسا ہوں کہایسا ہوں کہ محنت کرکے جو اچھا ہے اسے کروں، میرا ہمیشہ ایسا رہا ہے ۔ اب دیکھئے میں الکشن میں لگاتار بول رہا ہوں کہ ہم نے غریبوں کے لئے چار کروڑ گھر بنائے، میں اتنا لوگوں کو کہتا ہوں کہ آپ اس الیکشن تشہیر میں جائیں تو میری مدد کریں کہ جس کا گھر بننا ابھی چھوٹ گیا ہو، ہر گاوں میں ایک دو نکلیں گے، ان کی فہرست مجھے بھیجو، تاکہ جیسے ہی میری تیسری مدت کار شروع ہوگی، میں اس کام کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ تین کروڑ گھر اور میں بنانا چاہتا ہوں ۔

آب آیوشمان بھارت یوجنا، دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اور ہیلتھ انشورینس کی اسکیم ہے ۔ 55 کروڑ لوگوں کو علاج کا بھروسہ …. کہ بھئی اب آپ کی مودی کی سرکار ہے۔ پانچ لاکھ روپے تک خرچ ہوگا، سنبھال لیں گے یہ۔ اس بار ہم نے انتخابی مشنور میں کہا ہے کہ کسی بھی طبقہ کا، کسی بھی سماج کا ، کسی بھی بیک گراونڈ کا شخص کیوں نہ ہو، جس بھی کنبہ میں 70 سے زیادہ کی عمر کے جو بھی افراد ہوں گے، مرد و عورت سب، ان سب کو ہم یہ پانچ لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولیت دیں گے ۔ اس بار ہم نے منشور میں یہ بی کہا ہے کہ جو آشاورکر ہیں، آنگن باڑی ورکر ہیں، ان کو ہم اس کا فائدہ دیں گے ۔ ٹرانسجینڈر جتنے بھی ہیں، کسی بھی طبقے کے کیوں نہ ہوں، ہم ان کو بھی یہ فائدہ دیں گے ۔ تو یہ بات ہم لوگوں کو بتاتے ہیں ۔

اب آپ دیکھئے، ہمارے ملک میں بینکوں کا نیشنلائزیشن ہوا۔ یہ جو مل کر ضبط کرنے کے کھیل چل رہے ہیں نا، پہلے کرچکے ہیں ۔ سارے بینک پرائیویٹ تھے، لوٹ لیا راتوں رات، غریبوں کے نام پر لوٹا گیا  لیکن ہمارے ملک کے بینک خستہ حال ہوگئے ۔ آدھے سے زیادہ آبادی ایسی تھی کہ غریبوں کے نام پر بینک تو لئے، لیکن بینک کھاتہ نہیں کھولا ۔ یہ مودی نے آکر 52 کروڑ بینک کھاتے کھولے اور اس کا سب سے بڑا میں نے فائدہ اٹھایا ۔ کھاتے کھول کر اعداد و شمار نہیں بنائے، میں نے جن دھن ، آدھار اور موبائل… اس ٹرمنیٹی کو لے کر ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر۔ 36 لاکھ کروڑ روپے ، یہ ہندستہ بہت بڑا ہوتا ہے ۔ 36 لاکھ کروڑ روپے ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر کے ذریعہ سے لوگوں کے کھاتے میں گئے۔ اگر میں نے بینک کھاتے نہ کھولے ہوتے تو اتنا بڑا فائنانشیل انکلوزن ہوتا۔ پوری دنیا میں ایک سال میں جتنے کھاتے کھلتے ہوں گے، اس سے زیادہ کھاتے ہمارے ملک میں کھلے ہیں ۔ جل جیون مشن، ہمارے ملک میں 3۔4 فیصدی گھروں میں ہی نل سے پانی آتا تھا، وہ بھی زیادہ تر شہروں میں ۔ آج 14 کروڑ دیہی کنبوں کو نل سے پانی پہنچتا ہے ۔

اب یہ سارے کام ہیں … 25 کروڑ لوگ، غربت سے باہر ایسے ہی آئے ہیں ۔ ہم نے ان کو اتنا طاقتور بنایا ، اور میری اسٹریٹجی یہی ہے کہ ہم غریب کو اتنا طاقت دیں، اتنی طاقت دیں کہ غریب خود غربت کو ہرا دے ۔ اور جب غریب اپنی محنت سے غربت کو مات دیتا ہے تو اس کے بعد اس کو غربت میں واپس نہیں جانا ، یہ عزم بن جاتا ہے ، اور وہ ملک کی طاقت بن جاتا ہے ۔ آج ہمیں فائدہ ہے ، 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے۔ یہ بہت بڑی حصولیابی ہے ۔ دنیا اس کی تعریف کررہی ہے اور یہ ایک ماڈل بنے گا۔ یہ ترقی پذیر ممالک کیلئے ماڈل بنے گا ۔

آپ دیکھیں 2014 سے پہلے کیا حال تھا ۔ 2014 سے پہلے آپ کے سارے میڈیا والے نکال دیجئے، فریجائل 5، فریجائل 5 …یہی ہیڈلائن ہوتی تھی۔ آج ہم وائبرینٹ اکنامی بن گئے ہیں ۔ آئی ایم ایف، دنیا کے 150 ممالک کا گروپ، جس میں چین بھی ہے، ہندوستان بھی ہے، جس کو ہم کہیں کہ ایک ترقی پذیر ملک ہے، یا جو ایمرجنگ اکنامی والے ملک ہیں ۔ ایسا ایک گروپ کا، ان کو کلاسیفائی کرکے، انہوں نے اس کا اینالسس کیا۔ بڑا انسٹرونگ ہے یہ۔ یعنی ایک طرح سے انڈیا کا پیئر گروپ ہم کہہ سکتے ہیں ۔

اب دیکھیے تجزیہ کیا ہے۔ ‘1998 ہندوستان فی کس جی ڈی پی’ اس پیئر گروپ سے تقریباً 30 فیصد تھی۔ یعنی یہ  پورے 150 ممالک کی طرح ہے، اٹل جی اس وقت حکومت میں تھے۔ نائنٹیز کے آخر میں اٹل جی کی سرکار آئی ،  1998 سے 2004 تک… اٹل جی اپنی مدت کار 30 فیصد سے 35 فیصد لے گئے ۔ اچھی ترقی ہوئی، لیکن بدقسمتی سے 2004 میں یہ تمام کھچڑی کمپنیاں آگئیں اور اس کھچڑی کمپنی نے اٹل جی کی محنت پر پانی پھیر دیا ۔ یہ لوگ 35 فیصد کو 30 پر لے آئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان تمام ممالک نے ہندوستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ہم نے برا کیا۔ یو پی اے حکومت کے دور میں ہندوستان ترقی پذیر دنیا کے مقابلہ زیادہ غریب ہو گیا۔ جو ہم سے غریب تھے وہ بھی ہم سے آگے نکل گئے۔ لیکن ہم 2014 میں آئے، حکومت بننے کے بعد 2019 تک، آپ کو خوشی ہوگی کہ ہم اسے 30 فیصد سے 37 فیصد تک لے گئے۔ اور 2024 تک جب میں پہنچا ہوں تو یہ معاملہ 42 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یعنی 30 چھوڑا تھا اور ہم 42 لے آئے ۔ یعنی ہماری انم دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ  میں بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ اگر آپ 10 سال کی مدت میں مہنگائی کو بھی لیں، جس کے بارے میں وہ بہت زیادہ بات کرتے ہیں، تو یہ 10 سال کا عرصہ سب سے کم مہنگائی کا دور رہا ہے۔ میں جو بھی کہتا ہوں، حقیقت کی بنیاد پر کہتا ہوں۔ سخٹت محنت کرنے کے بعد حاصل کیا ہے۔ پوری حکومت متحرک ہو چکی ہے۔ اور ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی مودی کیا کہتا ہے؟ مودی تو کہا، بھائی یہ تو ٹریلر ہے، مجھے تو اور آگے جانا ہے، اور نئی نئی امنگیں، میں بہت تیزی سے بڑھنا چاہتا ہوں ، ملک کو لے کر اور کانگریس کا جہاں تک منشور ہے، کوئی مجھے بتائے، کیا الیکشن کے اندر، سیاسی پارٹیوں کے منشور، یہ کوئی شوپیس کے لئے ہوتے ہیں کیا؟ سچ میں تو یہ میڈیا کا کام ہے کہ ہر ایک سیاسی پارٹی کے منشور کو باریکی سے جانچ پڑتا کرے ۔

میں انتظار کررہا تھا کہ میڈیا کرے، پہلے دن میں نے ایک کمنٹ تو کردیا تھا، میں کوئی آج کر نہیں رہا ہوں کہ مجھے منشور دیکھ کرکے لگتا ہے کہ اس پر پوری طرح مسلم لیگ کی چھاپ ہے ۔ مجھے لگا کہ میڈیا چونک جائے گا، اینالسس کرنے والے چونک جائیں گے، لیکن پتہ نہیں کہ ان کا انتظام کچھ اور ہے ۔ منشور میں ان کی طرف سے جو جو پروسا گیا اتنی ہی گڈی گڈی اچھالتے رہے۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ یہ تو ایکو سسٹم کی بڑی ملی بھگت لگتی ہے ۔ اب مجھے سچائی لے کر جانا پڑے گا۔ میں نے 10 دن انتظار کیا کہ ملک اس منشور میں جو برائیاں ہیں، اس کو کوئی نہ کوئی، کیونکہ غیر جانبدار طریقہ سے آتا ہے تو اچھا ہوتا ہے ۔ آخر کار مجھے مجبور یہ سچائیاں لے کر آنی پڑیں ۔ اب دیکھئے ان کے ایک شخص نے امریکہ میں انٹرویو دے دیا ۔ انہیرٹینس ٹیکس کی بات لے آئے ۔ 55 فیسڈ ٹیک آپ کی پراپرٹی پر … اب میں ترقی اور وراثت کی بات کررہا ہوں اور یہ وراثت کو لوٹنے کی بات کرتے ہیں ۔ دولت کی دوبارہ تقسیم کی بات کرتے ہیں تو میں وراثت کی بات کرتا ہوں اور ان کا آج تک کی تاریخ ہے کہ وہ کریں گے کیا، تو پھر یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں باشندگان وطن کو بتاوں کہ یہ ملک کو اس سمت میں لے جارہے ہیں ۔ اب آپ طے کیجئے، جانا نہ جانا ان کا حق ہے ، لیکن میرا فریضہ بنتا ہے کہ حقائق کی بنیاد پر ، دلیل کی بنیاد پر ، ان کی حقیقتوں کی بنیاد پر مجھے بتانا چاہئے ۔ وہ میں بتا رہا ہوں ۔

سوال 3 : سیم پترودا انہیریٹینس ٹیکس کی بات کی ہے ۔ یعنی جو ہم لوگوں کی جمع پونجی ہے، جب ہم اپنی فیملی کے لئے بچت کرتے ہیں، جسے ہم اپنی آنے والی نسل کو دیں گے تو اس پر بھی ٹیکس لگے گا اور یہ ٹیکس بہت بڑا ٹیکس ہوسکتا ہے تو کیا آپ کہیں گے کہ بی جے پی اگر آئے گی تو اس ٹیکس کو کبھی نہیں لاگو کرے گی؟

وزیراعظم مودی: بھارتیہ جنتا پارٹی کیا کرے گی ہمارے منشور میں سب ہم لکھ کرکے لائے ہیں ۔ اب انہوںنے کہیں شگوفہ چھوڑ دیا تو می بھی جھنڈا لے کر گھوموں گا، یہ سوال آپ کے من میں کیسے آجاتا ہے ؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کا نظریہ صاف ہے۔ ہم اپنے نظریہ کی بنیاد پر پروگرم لے کر کے منشور کو لے کر کے ملک کے سامنے جاتے ہیں۔ براہ کرم کرکے ایسے افراد کے خیالات کو ہم پر مت تھوپیئے ۔

سوال 4: مودی جی، راہل گاندھی نے ایک اور بات کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ نیشنل ایکسرے کروائیں گے۔ اس سے متعلق ایک سوال ہے، اسی لیے پوچھنا چاہتا ہوں۔ نیشنل ایکسرے کروائیں گے۔ بات صرف کاسٹ مردم شماری کی نہیں ہے جو وہ کرتے ہیں، اس پر بھی آپ کی رائے جاننا چاہوں گا۔ گر بات جو وہ کہتے ہیں کہ بات کاسٹ کی نہیں، بات جسٹس کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جو ہیں ایک سوشیو انکنای سروے لائیں گے، ایک انسٹی ٹیوشنل سروے لائیں گے اور اس میں دیکھیں گے کہ کس جات اور کس طبقہ کے پاس کیا ہے، کتنا پیسہ ہے، کتنی انسٹی ٹیوشن میں شراکت داری ہے اور اس کی بنیاد پر ہم اس پورے سسٹم کو دوبارہ تقسیم کریں گے، اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں ۔

وزیراعظم مودی : سب سے پہلے تو اس ملک میں جو لوگ اپنے آپ کو سیاست کا ایکسپرٹ مانتے ہیں، جو لوگ ملک کے اتار چڑھاو کو بڑی باریکی سے تجریہ کرتے ہیں، سب سے پہلے ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے پوچھیں کہ جن حالات کے بارے میں آپ بات کررہے ہیں… اگر یہ صحیح ہے تو 50، 60، 65 سال تو آپ نے راج کیا ہے۔ یہ مصیبت کے پیدا کرنے والے آپ ہو، اور آپ نے یہ بربادی لائی ہی کیوں، پہلے ان کا جواب مانگیں ۔ نمبر ون ۔

نمبر دو- ایکسرے کا کیا مطلب ہے؟ مطلب ہر گھر میں جانا۔ گھر گھر چھاپے مارنا۔ اگر کسی عورت نے اپنے زیورات اناج کے ڈبے میں چھپا رکھے ہیں تو اس کا بھی ایکسرے کیا جائے گا۔ ان کے زیورات چھین لیے جائیں گے۔ زمینوں کا حساب لیا جائے گا اور پھر دوبارہ تقسیم کیا جائے گا۔ یہ دنیا میں ایک ماؤسٹ آئیڈیا نے سب کیا ہے۔ دنیا برباد ہو چکی ہے۔ یہ مکمل طور پر اربن نکسل ہے… یہ اسی سوچ کا براہ راست اظہار ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ منشور کے سامنے آنے کے 10 دن کے بعد بھی یہ کمیونٹی جو روزانہ پڑھائی لکھائی کرتی ہے خاموش ہے۔ ان کے پروٹیکشن میں چپ رہی ہے۔ تب مل کر میری ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ملک کو جگانا، کہ دیکھئے یہ آپ کو لوٹنے کا … اور دوسرا پارٹ ہے ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ جی وغیرہ نے ہر بار کہا ہے کہ جو بھی جائیداد ہوگی، اس پر پہلا حق کس کا ہوگا، تو حساب کتاب تو صاف ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔

وزیراعظم نریندر مودی کے پورے انٹرویو کو اس لنک پر پڑھیں ۔