Tag Archives: Narendra Modi

’محبت کی دکان میں فرضی ویڈیو بیچ رہے ہیں…‘ وزیراعظم مودی کا کانگریس پر حملہ

دھاراشیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی حکومت کا مقابلہ نہیں کر پا رہی اپوزیشن سوشل میڈیا پر فرضی ویڈیوز کو پھیلانے کے لیے ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ یہاں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ ان کا جھوٹ بھی کام نہیں کر رہا۔ وہ مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے میرے چہرے کا استعمال کر رہے ہیں… اپنی ’محبت کی دکان‘ میں فرضی ویڈیوز بیچ رہے ہیں۔ جھوٹ کی یہ دکان بند ہونی چاہیے ۔

وزیراعظم مودی نے کہا کہ مخالفین میرے جیسے لیڈروں کے اقتباسات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لیے اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے دنیا بھر میں موٹے اناج کو مقبول بنانے پر اپنی حکومت کے زور کا بھی تذکرہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ موٹا اناج پوری دنیا میں کھانے کی میزوں تک پہنچے ۔

انہوں نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے ان کے لئے دئے گئے سرکاری عشائیے میں موٹے اناج سے بنی اشیاء شامل تھیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کا مشن بھی ہندوستان کو تیل کے بیجوں کی پیداوار میں خود انحصار بنانا ہے۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ موجودہ لوک سبھا انتخابات ملک کی عزت نفس کے بارے میں ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا کمزور حکومت جو کسی بھی وقت گر سکتی ہے ایک مضبوط نیشن کا تعمیر کرے گی؟

وزیر اعظم مودی نے مزید کہا کہ جب کانگریس کی حکومت تھی تو کسانوں کے حصے کی کھاد بھی لوٹ لی جاتی تھی ۔ یوریا کے لیے کسانوں کو مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن پچھلے 10 سالوں میں ہم نے کسانوں کو یوریا کی کمی کا سامنا نہیں ہونے دیا۔ صرف پچھلے سال ہی ہم نے کھاد پر کسانوں کو 2.5 لاکھ کروڑ روپے کی سبسڈی دی ہے۔

بھارت رتن یا پدم ایوارڈ کسی پارٹی کی نجی جائیداد نہیں، اس پر بی جے پی کا کاپی رائٹ نہیں: وزیراعظم مودی

نئی دہلی : بھارت رتن اور پدم ایوارڈز سے نوازنے میں اپنی حکومت کے غیر جانبدارانہ انداز کو اجاگر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے نیوز 18 نیٹ ورک کو ایک میگا خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ایوارڈز پر کسی پارٹی یا ان کی ذاتی ملکیت کا کاپی رائٹ نہیں ہیں۔ نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر ان چیف راہل جوشی سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ایوارڈز ملک کے وصول کنندگان کے لیے ہیں اور کہا کہ ان کی حکومت نے حال ہی میں غیر بی جے پی آئیکنوں کو بھارت رتن سے نوازا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پرنب مکھرجی، نرسمہا راؤ، چودھری چرن سنگھ، کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دیا۔ اس ملک میں کسی نے ہمارے انتخاب پر سوال نہیں اٹھایا۔ ہر کوئی سمجھتا تھا کہ یہ مستحق تھے۔ وہ اپوزیشن پارٹیوں سے تھے اور پہلے بھی ہم پر تنقید کر چکے تھے لیکن ہمارا فیصلہ ایسی چیزوں پر مبنی نہیں تھا۔

وزیراعظم مودی نے مزید کہا کہ پدم ایوارڈز پر غور کریں – ملائم سنگھ، ترون گوگوئی، پی اے سنگما، ایس ایم کرشنا… سبھی دوسری پارٹیوں سے تھے، لیکن ہم نے انہیں ان کے متعلقہ شعبوں میں ان کی شراکت داری کے لئے پدم ایوارڈز سے نوازا ہے۔ یہ کسی پارٹی کا نہیں ملک کا ایوارڈ ہے۔ یہ مودی کی ذاتی جائیداد نہیں ہے۔ بی جے پی کا اس پر کاپی رائٹ نہیں ہے۔

وزیراعظم مودی نے مزید کہا کہ اگر آپ دلچسپی رکھتے ہیں، تو یہ کہانی دیکھنے کے قابل ہے کہ ملک میں پدم ایوارڈز کیسے بدل گئے ہیں۔ ہم نے اسے بدل دیا ہے۔ ایسے فیصلوں کے پیچھے سوچ کیلئے ہماری تعریف کی جانی چاہیے، وصول کنندگان کے انتخاب کے بارے میں سوال نہیں کیا جانا چاہیے۔

شرد پوار، جنہیں ان کی حکومت نے 2017 میں پدم وبھوشن سے نوازا تھا، کے ذریعہ ان کا موازنہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے کئے جانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ وہ این سی پی کے سرپرست کا بہت احترام کرتے ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ مراٹھا لیڈر کا بیان متضاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جو لوگ طویل عرصے سے عوامی زندگی میں ہیں وہ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف، ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوتن جیسے شخص کی قیادت والی حکومت سے ایوارڈ حاصل کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑا تضاد ہے۔

’وراثت ٹیکس، مسلم ریزرویشن …. ‘نیٹ ورک 18 کے ساتھ وزیراعظم مودی کا سب سے بڑا انٹرویو

راہول جوشی: مودی جی، نیوز 18 نیٹ ورک کو یہ خصوصی انٹرویو دینے کے لیے بہت بہت شکریہ۔ آپ نے اپنے پنشنگ (انتہائی مصروف) شیڈول سے ہمارے لیے وقت نکالا۔ ہم اس انٹرویو کو قدرے مختلف انداز میں کریں گے۔ کچھ بگ پکچر سوالات کریں گے۔ ہمارے ساتھ مہاراشٹر کے اینکر ہیں۔ دوسرے ہمارے کرناٹک کے ایڈیٹر ہیں۔ یہ دونوں ریاستیں اس الیکشن میں اہم ہیں۔ تو ہم نے سوچا کہ تھوڑے سوال یہ بھی آپس سے کریں گے ۔ شروع کرتے ہیں ۔ پہلا سوال-

پی ایم مودی: سب سے پہلے آپ کو اور آپ کے تمام ناظرین کو میرا نمسکار۔ مجھے اچھا لگا کہ کہ آپ نے اپنے ساتھ کرناٹک اور مہاراشٹر کو بھی شامل کردیا ہے۔ ایک طرح سے آپ نے میری مدد کی ہے ورنہ تینوں کو الگ الگ انٹرویو دینے پڑتے تو شاید مجھے مزید وقت دینا پڑتا۔

راہول جوشی: بہت بہت شکریہ، نیٹ ورک 18 میں خوش آمدید۔

سوال 1: ہم پورے ملک کا دورہ کر رہے ہیں۔ ادھر اور ادھر جارہے ہیں۔ ہم ساتھ میں تھے، بہار گئے اور ابھی مہاراشٹر میں بھی تھے، ہر جگہ یہی دیکھا گیا ہے کہ اپوزیشن سے بات کریں یا آپ کے امیدواروں سے بات کریں، لوگ کہتے ہیں کہ مودی جی جب یہاں آئیں گے تو سب کچھ بدل جائے گا۔ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ مودی جی آئیں گے تو ہوسکتا ہے سویپ ہوجائے، ہوسکتا ہے سیٹ نکل جائے، تو کیا 2024 کے اس الیکشن کو ہم نریندر مودی پر ایک ریفرینڈم کی طرح دیکھتے سکتے ہیں؟

پی ایم مودی: اب یہ تو سارا کھیل میڈیا والوں کا ہوتا ہے۔ کس وقت، کس طرح تجزیہ کرنا ہے، لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں ایسی کوئی حکومت نہیں چلاتا جو الیکشن کے دوران کام کرے۔ اگر آپ میرا 10 سالہ ریکارڈ دیکھیں گے تو اوسطاً جمعہ، ہفتہ، اتوار… میں ہندوستان کے کسی کونے میں گیا۔ میں عوام کے درمیان میں رہا ہوں اور اسی وجہ سے میرے دورے مسلسل جاری رہتے ہیں ۔ اور میں انتخابات کو جمہوریت کا جشن سمجھتا ہوں۔ سبھی سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک جائیں۔ لوگوں کے درمیان جا کر ایک طرح سے تربیتی کام ہونا چاہیے۔ رابطہ ہونا چاہیے۔ بحث ہونی چاہیے۔ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے، الیکشن ہوں یا نہ ہوں… میں اسے اپنا فرض سمجھتا ہوں اور اسی لیے جاتا ہوں۔

جہاں تک دو مرحلوں کا سوال ہے، میں نے بہت کم انتخابات میں ایسی عوامی حمایت دیکھی ہے، جو اس بار دیکھ رہا ہوں۔ ایک طرح سے جنتا جناردن یہ الیکشن لڑ رہی ہے۔ گڈ گورننس کے لیے لڑ رہی ہے ۔ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے لڑ رہی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میں ایک ساز ہوں۔ اس بار میرا تھوڑا زیادہ جوش ہے لوگوں کے درمیان جانے کا اور پہلے کے موازنہ میں شاید زیادہ بار جانا بھی چاہتا ہوں ، اس لئے کہ جو عوام نے اتنے جوش اور امنک کے ساتھ اتنی بڑی ذمہ داری اٹھالی ہے تو وہ عوام کو جاکرکے ان کو سلما کرنا، نمن کرنا، ان کا آشیرواد لینا … یہ مجھے اپنا فرض لگتا ہے اور میں دیکھتا تھا جو فرسٹ راونڈ ہوا، میں نے کسی دوست سے کہا تھا کہ پہلے راونڈ میں یہ ہمارے خلاف جو لوگ مورچہ لگا رہے ہیں، بیٹھنے کی کوشش کررہے ہیں پہلے راونڈ میں پست ہوگئے اور کل میں نے دیکھا دوسرے راونڈ میں یہ نیست و نابود ہوچکے ہیں ۔ یعنی پہلے لوگوں نے پست کردیا ، اب نیست و نابود کردیا ۔

سوال نمبر 2: مودی جی، جب آپ نے مہم شروعات کی تھی تو اس کی شروعات بڑے ہائی نوٹ پر کی گئی تھی۔ آپ نے حکومت کے پورے کام کا تعارف کرایا۔ آپ اپنے ترقیاتی ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھے۔ آپ نے معیشت پر کافی روشنی ڈالی اور اس پر بہت کام ہوا بھی ہے۔ اس کے چند قدم بعد آپ نے راجستھان میں ایک ریلی میں کانگریس کے منشور پر سیدھا حملہ کیا۔ آپ نے یہاں تک کہا کہ ان کے پاس ایک سکیم ہے جس کے ذریعے وہ دولت کی تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کس کے پاس کتنی جمع پونجی ہے، کس کے پاس کتنا پیسہ ہے، کس کے پاس کتنا سونا اور چاندی ہے اور وہ اسے مسلمانوں اور دراندازوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ خطرہ اتنا حقیقی ہے؟ کیا آپ کو ایسا نظر آتا ہے؟

وزیراعظم مودی: مجھے لگتا ہے کہ شاید آپ کی ٹیم نے میری پوری مہم کو ٹریک نہیں کیا ہے۔ یا شاید ترقی کے بارے میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ٹی آر پی کے حساب پر بیٹھتی نہیں ہوں گی۔ لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ میری پوری انتخابی مہم دو چیزوں پر مرکوز ہے۔ ایک- ہم نے سماجی بہبود اور عوامی بہبود کے لیے کیا کام کیا؟ اور دوسری حکومتوں اور اس حکومت میں سب سے بڑا فرق ، وہ یہ کہ لاسٹ مائل ڈیلیوری ، یہ ہماری خاصیت ہے۔ ہر حکومت پالیسیاں بناتی ہے۔ کوئی حکومت برا کرنے نہیں آتی ہے۔ اچھا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ اچھا کرنا جانتے ہیں، کچھ لوگ اچھا ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ میں ایسا ہوں کہایسا ہوں کہ محنت کرکے جو اچھا ہے اسے کروں، میرا ہمیشہ ایسا رہا ہے ۔ اب دیکھئے میں الکشن میں لگاتار بول رہا ہوں کہ ہم نے غریبوں کے لئے چار کروڑ گھر بنائے، میں اتنا لوگوں کو کہتا ہوں کہ آپ اس الیکشن تشہیر میں جائیں تو میری مدد کریں کہ جس کا گھر بننا ابھی چھوٹ گیا ہو، ہر گاوں میں ایک دو نکلیں گے، ان کی فہرست مجھے بھیجو، تاکہ جیسے ہی میری تیسری مدت کار شروع ہوگی، میں اس کام کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ تین کروڑ گھر اور میں بنانا چاہتا ہوں ۔

آب آیوشمان بھارت یوجنا، دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اور ہیلتھ انشورینس کی اسکیم ہے ۔ 55 کروڑ لوگوں کو علاج کا بھروسہ …. کہ بھئی اب آپ کی مودی کی سرکار ہے۔ پانچ لاکھ روپے تک خرچ ہوگا، سنبھال لیں گے یہ۔ اس بار ہم نے انتخابی مشنور میں کہا ہے کہ کسی بھی طبقہ کا، کسی بھی سماج کا ، کسی بھی بیک گراونڈ کا شخص کیوں نہ ہو، جس بھی کنبہ میں 70 سے زیادہ کی عمر کے جو بھی افراد ہوں گے، مرد و عورت سب، ان سب کو ہم یہ پانچ لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولیت دیں گے ۔ اس بار ہم نے منشور میں یہ بی کہا ہے کہ جو آشاورکر ہیں، آنگن باڑی ورکر ہیں، ان کو ہم اس کا فائدہ دیں گے ۔ ٹرانسجینڈر جتنے بھی ہیں، کسی بھی طبقے کے کیوں نہ ہوں، ہم ان کو بھی یہ فائدہ دیں گے ۔ تو یہ بات ہم لوگوں کو بتاتے ہیں ۔

اب آپ دیکھئے، ہمارے ملک میں بینکوں کا نیشنلائزیشن ہوا۔ یہ جو مل کر ضبط کرنے کے کھیل چل رہے ہیں نا، پہلے کرچکے ہیں ۔ سارے بینک پرائیویٹ تھے، لوٹ لیا راتوں رات، غریبوں کے نام پر لوٹا گیا  لیکن ہمارے ملک کے بینک خستہ حال ہوگئے ۔ آدھے سے زیادہ آبادی ایسی تھی کہ غریبوں کے نام پر بینک تو لئے، لیکن بینک کھاتہ نہیں کھولا ۔ یہ مودی نے آکر 52 کروڑ بینک کھاتے کھولے اور اس کا سب سے بڑا میں نے فائدہ اٹھایا ۔ کھاتے کھول کر اعداد و شمار نہیں بنائے، میں نے جن دھن ، آدھار اور موبائل… اس ٹرمنیٹی کو لے کر ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر۔ 36 لاکھ کروڑ روپے ، یہ ہندستہ بہت بڑا ہوتا ہے ۔ 36 لاکھ کروڑ روپے ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر کے ذریعہ سے لوگوں کے کھاتے میں گئے۔ اگر میں نے بینک کھاتے نہ کھولے ہوتے تو اتنا بڑا فائنانشیل انکلوزن ہوتا۔ پوری دنیا میں ایک سال میں جتنے کھاتے کھلتے ہوں گے، اس سے زیادہ کھاتے ہمارے ملک میں کھلے ہیں ۔ جل جیون مشن، ہمارے ملک میں 3۔4 فیصدی گھروں میں ہی نل سے پانی آتا تھا، وہ بھی زیادہ تر شہروں میں ۔ آج 14 کروڑ دیہی کنبوں کو نل سے پانی پہنچتا ہے ۔

اب یہ سارے کام ہیں … 25 کروڑ لوگ، غربت سے باہر ایسے ہی آئے ہیں ۔ ہم نے ان کو اتنا طاقتور بنایا ، اور میری اسٹریٹجی یہی ہے کہ ہم غریب کو اتنا طاقت دیں، اتنی طاقت دیں کہ غریب خود غربت کو ہرا دے ۔ اور جب غریب اپنی محنت سے غربت کو مات دیتا ہے تو اس کے بعد اس کو غربت میں واپس نہیں جانا ، یہ عزم بن جاتا ہے ، اور وہ ملک کی طاقت بن جاتا ہے ۔ آج ہمیں فائدہ ہے ، 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے۔ یہ بہت بڑی حصولیابی ہے ۔ دنیا اس کی تعریف کررہی ہے اور یہ ایک ماڈل بنے گا۔ یہ ترقی پذیر ممالک کیلئے ماڈل بنے گا ۔

آپ دیکھیں 2014 سے پہلے کیا حال تھا ۔ 2014 سے پہلے آپ کے سارے میڈیا والے نکال دیجئے، فریجائل 5، فریجائل 5 …یہی ہیڈلائن ہوتی تھی۔ آج ہم وائبرینٹ اکنامی بن گئے ہیں ۔ آئی ایم ایف، دنیا کے 150 ممالک کا گروپ، جس میں چین بھی ہے، ہندوستان بھی ہے، جس کو ہم کہیں کہ ایک ترقی پذیر ملک ہے، یا جو ایمرجنگ اکنامی والے ملک ہیں ۔ ایسا ایک گروپ کا، ان کو کلاسیفائی کرکے، انہوں نے اس کا اینالسس کیا۔ بڑا انسٹرونگ ہے یہ۔ یعنی ایک طرح سے انڈیا کا پیئر گروپ ہم کہہ سکتے ہیں ۔

اب دیکھیے تجزیہ کیا ہے۔ ‘1998 ہندوستان فی کس جی ڈی پی’ اس پیئر گروپ سے تقریباً 30 فیصد تھی۔ یعنی یہ  پورے 150 ممالک کی طرح ہے، اٹل جی اس وقت حکومت میں تھے۔ نائنٹیز کے آخر میں اٹل جی کی سرکار آئی ،  1998 سے 2004 تک… اٹل جی اپنی مدت کار 30 فیصد سے 35 فیصد لے گئے ۔ اچھی ترقی ہوئی، لیکن بدقسمتی سے 2004 میں یہ تمام کھچڑی کمپنیاں آگئیں اور اس کھچڑی کمپنی نے اٹل جی کی محنت پر پانی پھیر دیا ۔ یہ لوگ 35 فیصد کو 30 پر لے آئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان تمام ممالک نے ہندوستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ہم نے برا کیا۔ یو پی اے حکومت کے دور میں ہندوستان ترقی پذیر دنیا کے مقابلہ زیادہ غریب ہو گیا۔ جو ہم سے غریب تھے وہ بھی ہم سے آگے نکل گئے۔ لیکن ہم 2014 میں آئے، حکومت بننے کے بعد 2019 تک، آپ کو خوشی ہوگی کہ ہم اسے 30 فیصد سے 37 فیصد تک لے گئے۔ اور 2024 تک جب میں پہنچا ہوں تو یہ معاملہ 42 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یعنی 30 چھوڑا تھا اور ہم 42 لے آئے ۔ یعنی ہماری انم دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ  میں بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ اگر آپ 10 سال کی مدت میں مہنگائی کو بھی لیں، جس کے بارے میں وہ بہت زیادہ بات کرتے ہیں، تو یہ 10 سال کا عرصہ سب سے کم مہنگائی کا دور رہا ہے۔ میں جو بھی کہتا ہوں، حقیقت کی بنیاد پر کہتا ہوں۔ سخٹت محنت کرنے کے بعد حاصل کیا ہے۔ پوری حکومت متحرک ہو چکی ہے۔ اور ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی مودی کیا کہتا ہے؟ مودی تو کہا، بھائی یہ تو ٹریلر ہے، مجھے تو اور آگے جانا ہے، اور نئی نئی امنگیں، میں بہت تیزی سے بڑھنا چاہتا ہوں ، ملک کو لے کر اور کانگریس کا جہاں تک منشور ہے، کوئی مجھے بتائے، کیا الیکشن کے اندر، سیاسی پارٹیوں کے منشور، یہ کوئی شوپیس کے لئے ہوتے ہیں کیا؟ سچ میں تو یہ میڈیا کا کام ہے کہ ہر ایک سیاسی پارٹی کے منشور کو باریکی سے جانچ پڑتا کرے ۔

میں انتظار کررہا تھا کہ میڈیا کرے، پہلے دن میں نے ایک کمنٹ تو کردیا تھا، میں کوئی آج کر نہیں رہا ہوں کہ مجھے منشور دیکھ کرکے لگتا ہے کہ اس پر پوری طرح مسلم لیگ کی چھاپ ہے ۔ مجھے لگا کہ میڈیا چونک جائے گا، اینالسس کرنے والے چونک جائیں گے، لیکن پتہ نہیں کہ ان کا انتظام کچھ اور ہے ۔ منشور میں ان کی طرف سے جو جو پروسا گیا اتنی ہی گڈی گڈی اچھالتے رہے۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ یہ تو ایکو سسٹم کی بڑی ملی بھگت لگتی ہے ۔ اب مجھے سچائی لے کر جانا پڑے گا۔ میں نے 10 دن انتظار کیا کہ ملک اس منشور میں جو برائیاں ہیں، اس کو کوئی نہ کوئی، کیونکہ غیر جانبدار طریقہ سے آتا ہے تو اچھا ہوتا ہے ۔ آخر کار مجھے مجبور یہ سچائیاں لے کر آنی پڑیں ۔ اب دیکھئے ان کے ایک شخص نے امریکہ میں انٹرویو دے دیا ۔ انہیرٹینس ٹیکس کی بات لے آئے ۔ 55 فیسڈ ٹیک آپ کی پراپرٹی پر … اب میں ترقی اور وراثت کی بات کررہا ہوں اور یہ وراثت کو لوٹنے کی بات کرتے ہیں ۔ دولت کی دوبارہ تقسیم کی بات کرتے ہیں تو میں وراثت کی بات کرتا ہوں اور ان کا آج تک کی تاریخ ہے کہ وہ کریں گے کیا، تو پھر یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں باشندگان وطن کو بتاوں کہ یہ ملک کو اس سمت میں لے جارہے ہیں ۔ اب آپ طے کیجئے، جانا نہ جانا ان کا حق ہے ، لیکن میرا فریضہ بنتا ہے کہ حقائق کی بنیاد پر ، دلیل کی بنیاد پر ، ان کی حقیقتوں کی بنیاد پر مجھے بتانا چاہئے ۔ وہ میں بتا رہا ہوں ۔

سوال 3 : سیم پترودا انہیریٹینس ٹیکس کی بات کی ہے ۔ یعنی جو ہم لوگوں کی جمع پونجی ہے، جب ہم اپنی فیملی کے لئے بچت کرتے ہیں، جسے ہم اپنی آنے والی نسل کو دیں گے تو اس پر بھی ٹیکس لگے گا اور یہ ٹیکس بہت بڑا ٹیکس ہوسکتا ہے تو کیا آپ کہیں گے کہ بی جے پی اگر آئے گی تو اس ٹیکس کو کبھی نہیں لاگو کرے گی؟

وزیراعظم مودی: بھارتیہ جنتا پارٹی کیا کرے گی ہمارے منشور میں سب ہم لکھ کرکے لائے ہیں ۔ اب انہوںنے کہیں شگوفہ چھوڑ دیا تو می بھی جھنڈا لے کر گھوموں گا، یہ سوال آپ کے من میں کیسے آجاتا ہے ؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کا نظریہ صاف ہے۔ ہم اپنے نظریہ کی بنیاد پر پروگرم لے کر کے منشور کو لے کر کے ملک کے سامنے جاتے ہیں۔ براہ کرم کرکے ایسے افراد کے خیالات کو ہم پر مت تھوپیئے ۔

سوال 4: مودی جی، راہل گاندھی نے ایک اور بات کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ نیشنل ایکسرے کروائیں گے۔ اس سے متعلق ایک سوال ہے، اسی لیے پوچھنا چاہتا ہوں۔ نیشنل ایکسرے کروائیں گے۔ بات صرف کاسٹ مردم شماری کی نہیں ہے جو وہ کرتے ہیں، اس پر بھی آپ کی رائے جاننا چاہوں گا۔ گر بات جو وہ کہتے ہیں کہ بات کاسٹ کی نہیں، بات جسٹس کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جو ہیں ایک سوشیو انکنای سروے لائیں گے، ایک انسٹی ٹیوشنل سروے لائیں گے اور اس میں دیکھیں گے کہ کس جات اور کس طبقہ کے پاس کیا ہے، کتنا پیسہ ہے، کتنی انسٹی ٹیوشن میں شراکت داری ہے اور اس کی بنیاد پر ہم اس پورے سسٹم کو دوبارہ تقسیم کریں گے، اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں ۔

وزیراعظم مودی : سب سے پہلے تو اس ملک میں جو لوگ اپنے آپ کو سیاست کا ایکسپرٹ مانتے ہیں، جو لوگ ملک کے اتار چڑھاو کو بڑی باریکی سے تجریہ کرتے ہیں، سب سے پہلے ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے پوچھیں کہ جن حالات کے بارے میں آپ بات کررہے ہیں… اگر یہ صحیح ہے تو 50، 60، 65 سال تو آپ نے راج کیا ہے۔ یہ مصیبت کے پیدا کرنے والے آپ ہو، اور آپ نے یہ بربادی لائی ہی کیوں، پہلے ان کا جواب مانگیں ۔ نمبر ون ۔

نمبر دو- ایکسرے کا کیا مطلب ہے؟ مطلب ہر گھر میں جانا۔ گھر گھر چھاپے مارنا۔ اگر کسی عورت نے اپنے زیورات اناج کے ڈبے میں چھپا رکھے ہیں تو اس کا بھی ایکسرے کیا جائے گا۔ ان کے زیورات چھین لیے جائیں گے۔ زمینوں کا حساب لیا جائے گا اور پھر دوبارہ تقسیم کیا جائے گا۔ یہ دنیا میں ایک ماؤسٹ آئیڈیا نے سب کیا ہے۔ دنیا برباد ہو چکی ہے۔ یہ مکمل طور پر اربن نکسل ہے… یہ اسی سوچ کا براہ راست اظہار ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ منشور کے سامنے آنے کے 10 دن کے بعد بھی یہ کمیونٹی جو روزانہ پڑھائی لکھائی کرتی ہے خاموش ہے۔ ان کے پروٹیکشن میں چپ رہی ہے۔ تب مل کر میری ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ملک کو جگانا، کہ دیکھئے یہ آپ کو لوٹنے کا … اور دوسرا پارٹ ہے ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ جی وغیرہ نے ہر بار کہا ہے کہ جو بھی جائیداد ہوگی، اس پر پہلا حق کس کا ہوگا، تو حساب کتاب تو صاف ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔

وزیراعظم نریندر مودی کے پورے انٹرویو کو اس لنک پر پڑھیں ۔ 

کانگریس نے 1990 سے 2009 تک کیا کیا؟ اقلیتوں کو لے کر بیان پر وزیراعظم مودی کا جواب

PM Narendra Modi Exclusive Interview: لوک سبھا انتخابات کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے نیوز 18 نیٹ ورک کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ اس دوران نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر راہل جوشی نے اقلیتوں سے متعلق دئے گئے بیان پر ان سے سوال کیا۔ یہ پوچھنے پر کہ کانگریس کہتی ہے کہ اقلیتوں کے حوالے سے اس کے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہے، پھر یہ چیزیں آپ کے پاس کہاں سے آئیں؟ جواب میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ یہ کانگریس کا کردار رہا ہے۔ انہوں نے 1990 سے 2009 تک جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی بار بار اقلیتوں کا ذکر کرکے کانگریس کو گھیر رہے ہیں۔ وہ انتخابی جلسوں میں کہہ رہے ہیں کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ دوسرے لوگوں کی جائیدادیں چھین کر ایک خاص طبقے میں بانٹ دے گی۔ اس بارے میں ان سے سوال کیا گیا ۔

وزیراعظم مودی سے پوچھا گیا کہ کانگریس کہتی ہے کہ انہون نے اقلیتوں کے بارے میں خاص طور پر کوئی بات نہیں کہی ہے۔ منشور میں صرف یہ لکھا ہے کہ وہ اقلیتی زمرے کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں گے اور ان کی مدد کریں گے۔ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اقلیتوں کو مواقع کا منصفانہ حصہ ملے۔ اگر ایسا ہے تو آپ اسے کیسے پڑھیں گے ؟

جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اسے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے آپ کو 1990 سے اب تک کا حساب دیا ہے۔ جب آپ 1990 کا حساب دیکھیں گے تو اس کے بعد آپ مجھ سے کیا کہیں گے؟ اب مجھے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

وزیر اعظم مودی نے مزید کہا کہ اگر آپ 1990 سے لے کر 2009 میں منموہن سنگھ کے بیانات تک سب کچھ دیکھیں تو اس سے آپ کیا نتیجہ اخذ کریں گے؟ میں کوئی الگ نتیجہ اخذ نہیں کر رہا ہوں۔ کوئی بھی یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو یہی کریں گے۔ یہ ان کا ارادہ ہے۔

وزیراعظم مودی نے منموہن سنگھ کے بیان پر سادھا نشانہ، کہا: او بی سی کا 27 فیصد ریزرویشن مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے کانگریس

نئی دہلی: لوک سبھا انتخابات کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے نیوز 18 نیٹ ورک کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ ایک انٹرویو میں ملک میں او بی سی کے لیے 27 فیصد ریزرویشن کو “لوٹنے کی کوشش” قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس پر نشانہ سادھا ۔ وزیراعظم مودی نے کئی مثالوں کے ذریعے اشارہ کیا کہ سب سے پرانی پارٹی کانگریس مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن پر زور دیتی ہے۔ غریب مسلمانوں کا ملک کے وسائل پر پہلا حق ہونے کے بارے میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے 2006 کے ویڈیو پر نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر راہل جوشی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے کانگریس کے انتخابی منشور کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ اس میں مسلم لیگ کی مہر ہے ۔ وزیر اعظم نے یہ ثابت کرنے کے لیے مثال دیا کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ ہمیشہ او بی سی ریزرویشن کا حصہ لینا چاہتے تھے اور اپنی مدت کار میں کئی بار مسلمانوں کو دینا چاہتے تھے۔

وزیراعظم مودی نے جواب دیا کہ آپ کانگریس کی تاریخ دیکھیں۔ یہ مطالبہ (ریزرویشن کے لیے) 1990 کی دہائی سے اٹھایا جا رہا ہے۔ ملک میں سماج کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے، جس کو لگتا تھا کہ ان کے لیے کچھ کیا جانا چاہئے، اس کے لئے احتجاج بھی ہوئے۔ 1990 سے پہلے کانگریس نے اس کی مکمل مخالفت کی اور اسے دبا دیا۔ پھر انہوں نے جو بھی کمیشن بنائے، جو بھی کمیٹیاں بنائیں، ان کی رپورٹیں بھی او بی سی کے حق میں آنے لگیں۔ وہ ان نظریات کی تردید کرتے رہے، رد کرتے رہے اور دباتے رہے۔ لیکن 90 کی دہائی کے بعد ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے انہیں لگا کہ کچھ کرنا چاہئے۔

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ تو انہوں نے پہلا گناہ کیا کیا تھا؟ 90 کی دہائی میں انہوں نے کرناٹک میں مسلمانوں کو او بی سی کے طور پر درجہ بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے وہ پہلے او بی سی کو مسترد کررہے تھے اور دبا رہے تھے، لیکن سیاسی فائدے کے لیے انھوں نے او بی سی کا لیبل مسلمانوں کو دے دیا۔ کانگریس  مرکز سے بے دخل ہوگئی۔ یہ اسکیم 2004 تک تعطل کا شکار رہی۔ جب کانگریس 2004 میں واپس آئی تو اس نے فوری طور پر آندھرا پردیش میں مسلمانوں کو او بی سی کوٹہ دینے کا فیصلہ کیا۔ عدالت میں معاملہ الجھ گیا۔ ہندوستانی پارلیمنٹ نے آئین کی بنیادی روح کے مطابق او بی سی کو 27 فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب انہوں نے اس 27 فیصد کوٹے کو لوٹنے کی کوشش کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ گرینڈ اولڈ پارٹی نے 2009 کے انتخابات کے لیے اپنے منشور میں ایک بار پھر اس مطالبے کا ذکر کیا تھا۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ 2011 میں اس پر کابینہ کا نوٹ ہے، جہاں کانگریس نے او بی سی کوٹے سے مسلمانوں کو حصہ دینے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے یوپی کے انتخابات میں بھی یہ کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 2012 میں آندھرا ہائی کورٹ نے اس کو منسوخ کر دیا۔ وہ سپریم کورٹ گئے، وہاں بھی انہیں کوئی راحت نہیں ملی ۔ 2014 کے منشور میں بھی مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کی بات کی گئی تھی۔

وزیراعظم مودی نے کہا کہ جب ہندوستان کا آئین بنایا گیا تھا ، تب آر ایس ایس یا بی جے پی کے لوگ موجود نہیں تھے۔ بابا صاحب امبیڈکر، پنڈت نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور ہمارے ملک کی کئی عظیم شخصیات موجود تھیں اور انہوں نے کافی غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا کہ ہندوستان جیسے ملک میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا ہے۔ لیکن 2024 کے انتخابات کے لیے ان کا منشور دیکھئے۔ اس پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے، جس طرح وہ آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، جس طرح وہ امبیڈکر کی توہین کر رہے ہیں۔ ایس سی اور ایس ٹی کے ریزرویشن پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ وہ او بی سی کی زندگی مشکل بنا دیں گے۔ کیا مجھے میں اس بارے میں ملک کے لوگوں کو آگاہ نہیں کرنا چاہئے؟

او بی سی ججوں کی کمی کے ساتھ ساتھ میڈیا میں کمیونٹی کی نمائندگی نہ ہونے کی کانگریس کی دلیل پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے پوچھا کہ کیا یہ ان کی حکومت تھی، جس نے 2014 سے او بی سی کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے کوئی پالیسی بنائی ہے؟

کیا ای ڈی، سی بی آئی اور خفیہ ایجنسیوں کا غلط استعمال ہورہا ہے؟ جانئے اس سوال پر وزیراعظم مودی نے کیا کہا

PM Narendra Modi Exclusive Interview: نیٹ ورک 18 کے ایڈیٹر ان چیف اور منیجنگ ڈائریکٹر راہل جوشی کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں وزیراعظم نریندر مودی نے ملک میں ای ڈی، سی بی آئی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے غلط استعمال کے الزامات پر کھل کر بات کی۔ یہاں وزیراعظم مودی کے انٹرویو کا ایٹیڈ اقتباس ہے۔

راہل جوشی: ایک اور سوال۔ اس کا جزوی جواب آپ پہلے ہی دے چکے ہیں، اس لئے تو اسے مختصر رکھوں گا۔ اپوزیشن اور کانگریس کا کہنا ہے کہ حکومت ای ڈی، سی بی آئی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ آپ نے کہا ہے کہ ای ڈی آزاد ہے۔ ایک اخبار نے تجزیہ کیا کہ جب 25 اپوزیشن لیڈر بی جے پی میں شامل ہوئے تو ان میں سے 23 کے خلاف مقدمات کو یا تو ختم کر دیا گیا یا پھر ہٹا کر دیا گیا۔

وزیراعظم نریندر مودی: پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک بھی کیس نہیں ہٹایا گیا ہے۔ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی وہی ہو گا۔ وہ آزاد ہیں۔ دوسرا، ایسے کتنے کیسز کا تعلق سیاسی قیادت سے ہے؟ صرف 3 فیصد۔ بڑے بڑے بیوروکریٹس بھی جیل میں ہیں۔ یہ ایجنسیاں کیوں بنائی گئیں؟ اگر یہ ایجنسیاں کسی مقصد کے ساتھ بنائی گئی تھیں تو کیا وہ اس مقصد کو پورا نہیں کریں گی؟ ہماری عدالتیں ویسے بھی سپریم ہیں… عدالتیں اس کی جانچ کر رہی ہوں گی۔ اور کرپشن کے معاملے کو ہلکے میں نہ لیں۔ اس پر بحث ہونی چاہئے۔ ایک وقت تھا جب الزامات بھی چیزیں ہلا کر رکھ دیتے تھے اور آج جرم ثابت ہونے کے بعد بھی کچھ لوگ ہاتھ ہلا کر تصویریں بنوا رہے ہیں۔ کیا وہ کرپشن کی تعریف کر رہے ہیں؟ اس پر تنقید ہونی چاہئے۔

کرپشن کو نئی معمولی بات نہیں سمجھی جانی چاہئے ۔ ورنہ ملک کا بڑا نقصان ہو گا۔ یہ بی جے پی بمقابلہ دوسروں کے بارے میں نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ دھیرے دھیرے ایک ایسا ماحول پیدا ہو رہا ہے جہاں یہ سوچا جا رہا ہے کہ اوہ یہ تو ٹھیک ہے۔ ایسا ہوتا ہے لیکن غریب لوگ مر رہے ہیں۔ ملک کو کرپشن سے پاک کرنا ہے۔ یہ ملک کا عزم ہونا چاہئے۔ میں نظام کو پالیسی پر مبنی بنانے پر یقین رکھتا ہوں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کریں۔

پہلے ایک وزیر اعظم کہتے تھے کہ ایک روپیہ (عوام کی طرف) جاتا ہے، لیکن ان تک صرف 15 پیسے پہنچتے ہیں۔ آج میں کہتا ہوں کہ جب ایک روپیہ باہر جاتا ہے تو پورا 100 پیسہ وہاں پہنچ جاتا ہے – براہ راست بینیفٹ ٹرانسفر۔ کیسے؟ نظام کو بہتر بنائیں! ہم نے GeM پورٹل شروع کیا، جو بدعنوانی کو کم کرنے کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔ دوسرا ہمیں معاشرے کو بیدار کرنا ہے۔ معاشرے کو بھی آگاہ کریں کہ کرپشن کسی بھی سطح پر برداشت نہیں کی جا سکتی۔ ملک میں وہ ماحول پیدا ہورہا ہے، لیکن سیاسی لوگ ڈرنے والے نہیں ہیں ، کوئی ان لوگوں کی حمایت صرف اس لئے کرے گا، کیونکہ وہ ہماری مخالفت کرنا چاہیں گے۔ یہ صحیح نہیں ہے ۔

جیسے ہی میری تیسری مدت کار شروع ہوگی…مستقبل کو لے کر کیا ہے منصوبہ؟ وزیراعظم مودی نے کیا انکشاف

نئی دہلی: لوک سبھا انتخابات کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ وہ اپنی اگلی میعاد میں ان کاموں کو آگے بڑھائیں گے جو انہوں نے گزشتہ برسوں میں عوامی بہبود کے لئے کیے ہیں۔ نیٹ ورک 18 گروپ کے ایڈیٹر ان چیف اور منیجنگ ڈائریکٹر راہل جوشی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں وزیراعظم مودی نے عوام کے لیے ان کی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیل بتائی اور کہا کہ میں انتخابات میں مسلسل کہتا رہا ہوں کہ ہم نے اچھے کام کیے ہیں۔ غریبوں کے 4 کروڑ گھر بنائے گئے ہیں۔ میں بہت سے لوگوں سے کہتا ہوں کہ جب آپ اس انتخابی مہم میں جائیں تو ان لوگوں کی فہرست بھیج کر میری مدد کریں جن کے گھر نہیں بنے ہیں۔ جیسے ہی میری تیسری مدت کار شروع ہوگی، میں اس کام کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔

وزیر اعظم کے طور پر ریکارڈ تیسری مدت حاصل کرنے کے لیے پراعتماد وزیراعظم مودی نے مستقبل کے لیے اپنا ویژن بھی پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں مزید 3 کروڑ گھر بنانا چاہتا ہوں۔ اب آیوشمان بھارت اسکیم دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اسکیم ہے۔ یہ 55 کروڑ لوگوں کو علاج کا بھروسہ ہے۔ یہ یقین دہانی ہے کہ مودی حکومت آپ کے ساتھ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس بار ہم نے منشور میں کہا ہے کہ کوئی شخص کسی بھی طبقے، معاشرے، پس منظر سے تعلق رکھتا ہو، 70 سال سے زیادہ عمر کے مرد اور خواتین دونوں کو 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج ملے گا۔ اس بار ہم نے منشور میں یہ بھی کہا ہے کہ ہم یہ فائدہ آشا ورکرس کو دیں گے۔ ہم خواجہ سراؤں کو ان کی عمر سے قطع نظر فوائد فراہم کریں گے۔

مرکز کی اسکیموں کے بارے میں وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ہمارے ملک میں بینکوں کی حالت خراب تھی۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی ایسی تھی کہ انہوں نے بینکوں میں کھاتے کھولنے کے لیے رقم ادا کرتی تھی، لیکن بینکوں نے کبھی ان کے کھاتے نہیں کھولے۔ پھر مودی آئے  52 کروڑ بینک کھاتے کھلوائے اور میں نے اس کا سب سے بڑا فائدہ اٹھایا۔ میں نے جن دھن، موبائل اور آدھار کی تثلیث کو اپنایا اور ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (DBT) کی حوصلہ افزائی کی۔

انہوں نے کہا کہ 36 لاکھ کروڑ روپے کی رقم – یہ ہندسہ بہت بڑا ہے – ڈی بی ٹی کے ذریعے لوگوں کے کھاتوں میں گئی ہے۔ ہمارے ملک میں اتنی بڑی مالی شمولیت (اکاؤنٹس کھولنے کی وجہ سے) ہوئی ہے۔ یہ ایک سال میں دنیا میں کھولے گئے بینک کھاتوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔

اپنی حکومت کی کارکردگی کا 2014 سے پہلے کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ آپ دیکھئے 2014 سے پہلے کیا صورتحال تھی؟ ‘Fragile 5’ کا عنوان دیا جاتا تھا۔ آج ہم ایک متحرک معیشت بن چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس دنیا کے 150 ممالک کا ایک گروپ ہے – جس میں چین اور ہندوستان بھی شامل ہیں – جسے ہم ترقی پذیر ممالک یا ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ممالک کہہ سکتے ہیں۔

‘فریجائل 5’ کیا ہے؟

دراصل اگست 2013 میں مورگن اسٹینلے کے ایک مالیاتی تجزیہ کار نے ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی معیشتوں کی نمائندگی کرنے کے لیے “Fragile 5” کی اصطلاح وضع کی، جو اپنی ترقی کے عزائم کو پورا کرنے کے لیے غیر پائیدار غیر ملکی سرمایہ کاری پر حد سے زیادہ منحصر ہوگئے ہیں۔ ‘فریجائل فائیو’ کے پانچ ارکان میں ترکی، برازیل، ہندوستان، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا کو شامل کیا گیا تھا۔

وزیراعظم مودی نے کانگریس کو دیا چیلنج، کہا: کسی میں بھی ہمت نہیں کہ دفعہ 370 پھر سے لاگو کردے

نئی دہلی: لوک سبھا انتخابات کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے نیوز 18 نیٹ ورک کو ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ نیٹ ورک 18 کے گروپ ایڈیٹر راہل جوشی نے وزیراعظم مودی سے پوچھا کہ آپ نے اپنی پچھلی مدت کار میں کئی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ آپ نے آرٹیکل 370 ہٹایا، آپ CAA لائے۔ لیکن اپنی مہم میں اپوزیشن لیڈر کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کی حکومت بنتی ہے تو وہ سی اے اے کو منسوخ کر دیں گے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کہہ رہی ہیں کہ وہ سی اے اے کو لاگو نہیں ہونے دیں گی۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ سب سے پہلے، جو ہندوستان کے آئین کو سمجھتا ہے، جو ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کو جانتا ہے، اور جو جانتا ہے کہ کس کے دائرہ اختیار میں کیا ہے، وہ ایسی باتیں کبھی نہیں کہے گا۔ کیونکہ یہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ مودی اگر کسی ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں تو وہ ایسی باتیں نہیں کہہ سکتے۔ مرکزی حکومت صرف وہی کرے گی جو اس کے دائرہ کار میں ہے۔ ریاستی حکومت جو بھی اس کے دائرے میں ہوگا ، وہ کرے گی ۔ لیکن آج کل لوگوں کو اندھیرے میں رکھ کر بے وقوف بنانا ایک ٹرینڈ ہے۔ اس لیے وہ کچھ بھی کہتے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ میں کانگریس پارٹی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کرے اور کہے کہ وہ آرٹیکل 370 کو بحال کریں گے۔ وہ آئین کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ وہ بابا صاحب امبیڈکر کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ ہمیں بہت گالیاں دیتے ہیں۔ لیکن بابا صاحب امبیڈکر کا آئین پورے ملک پر لاگو نہیں تھا۔ جموں و کشمیر میں 70 سال سے ہندوستانی آئین نافذ نہیں ہوا۔

وہیں دلتوں کو پہلی بار (دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد) ریزرویشن مل رہا ہے۔ والمیکی برادری کو پہلی بار ریزرویشن مل رہا ہے۔ وہ کیا بات کر رہے ہیں؟ کیا اس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ پریس کانفرنس کر کے کہے کہ ہم آرٹیکل 370 واپس لائیں گے؟ کیا کوئی جماعت یہ کہنے کی ہمت کر سکتی ہے؟’

’کرناٹک کے لوگ اب پچھتا رہے ہیں‘، وزیراعظم مودی نے کہا: بنگلورو ٹینکر ہب میں بدلا، لا اینڈ آرڈر بگڑا

PM Narendra Modi Exclusive Interview: وزیراعظم نریندر مودی نے نیٹ ورک 18 کے ایڈیٹر ان چیف اور منیجنگ ڈائریکٹر راہل جوشی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کرناٹک میں کانگریس اور بی جے پی کی سیاست کے بارے میں کھل کر بات کی۔ راہل جوشی کے ساتھ مہاراشٹر کے اینکر اور کرناٹک سے ایڈیٹر نے بھی انٹرویو میں حصہ لیا۔ راہل جوشی نے کہا کہ اس الیکشن میں یہ دونوں ریاستیں اہم ہیں، اس لیے ہم نے سوچا کہ وہ آپ سے کچھ سوالات بھی کریں گے۔ پیش انٹرویو کا اقتباس ۔

سوال (ہری پرساد- نیوز 18 کنڑ کے ایڈیٹر): کرناٹک میں کانگریس نے پانچ گارنٹیوں کا وعدہ کیا تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد اس نے انہیں پورا کیا۔ وہیں بی جے پی پچھلے الیکشن میں ہار گئی تھی۔ اب ایک بار پھر بی ایس یدی یورپا اور ان کے بیٹے کی قیادت پر بہت زیادہ توجہ مرکوز ہے جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر بھی کچھ لوگ ناراض ہیں۔ آپ کے خیال میں کرناٹک میں بی جے پی کتنی سیٹیں جیت سکتی ہے؟

وزیراعظم نریندر مودی : نمبر ایک، کرناٹک کے لوگ پچھتا رہے ہیں کہ انہوں نے ان (کانگریس) کو منتخب کرکے اتنی بڑی غلطی کی ہے۔ ہماری عوامی حمایت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، درحقیقت اس میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اتنے کم وقت میں ان کے ساتھ وزیر اعلیٰ کے عہدے جیسے مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔ حالانکہ وزیراعلیٰ نے حلف اٹھا لیا ہے لیکن یہ طے نہیں ہوسکا کہ وہ اصل میں کون ہیں۔ امن و امان کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو فسادات اور قتل ہو رہے ہیں ۔ معاشی صورتحال مکمل دیوالیہ ہونے کی حالت میں ہے۔ انہوں نے بڑے بڑے وعدے کیے ہیں، ایسا ہوگا تو یہ ملے گا، ایسا ہوگا تو یہ ملے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ جب ہم نے کہا تھا کہ ہم ان لوگوں کو آیوشمان بھارت کارڈ دیں گے، تو ہم اسے پورا کریں گے، کوئی بے ایمانی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کسانوں کے لیے اسکیم کو منسوخ کر دیا، اس کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ بنگلورو کو ہی دیکھ لیں، جس کا ملک کی تعلیم کو بہتر بنانے میں بڑا کردار ہے۔ اب کچھ ہی عرصے میں یہ ٹینکر ہب میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اور اس میں ایک مافیا بھی ملوث ہے۔ لوگ پانی کے لیے ترس رہے ہیں… نائب وزیراعلی اپنے بھائی کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں تاکہ وہ وزیراعلیٰ بن سکیں، اس لیے سب ایک گیم کھیل رہے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ کسی کو کرسی سے ہٹانے کے لیے کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے، ہم ٹیم اسپرٹ کے ساتھ بھی کام کر رہے ہیں۔ یدی یورپا ایک سینئر لیڈر ہیں، لیکن پوری بی جے پی ایک ٹیم کی طرح کام کر رہی ہے۔

کانگریس کے انتخابی منشور پر وزیراعظم مودی کا حملہ، کہا: 10 دنوں تک میڈیا کی جانچ کا انتظار…

PM Narendra Modi Exclusive Interview: وزیراعظم نریندر مودی نے نیٹ ورک 18 کے ایڈیٹر ان چیف اور منیجنگ ڈائریکٹر راہل جوشی کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کانگریس کے انتخابی منشور پر سخت حملہ کیا ہے۔ یہاں پڑھئے انٹرویو کا اقتباس ہے۔

راہل جوشی : راجستھان میں ایک ریلی میں AAP نے براہ راست کانگریس کے انتخابی منشور پر حملہ کیا۔ آپ نے یہاں تک کہا کہ ان کے پاس ایک منصوبہ ہے جس کے ذریعے وہ رقم تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کس کے پاس کتنی بچت ہے، کس کے پاس کتنا پیسہ ہے، کس کے پاس کتنا سونا اور چاندی ہے اور وہ اسے مسلمانوں اور دراندازوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ خطرہ اتنا حقیقی ہے؟ کیا آپ اسے اسی طرح دیکھتے ہیں؟

وزیراعظم نریندر مودی : جہاں تک کانگریس کے منشور کا تعلق ہے، کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ کیا انتخابات کے دوران سیاسی پارٹیوں کے منشور محض دکھاوا ہوتے ہیں؟ ہر سیاسی جماعت کا منشور پڑھنا میڈیا کا کام ہے۔ میں اس پر میڈیا کی رائے کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے پہلے ہی دن منشور پر تبصرہ کیا تھا۔ منشور کو دیکھنے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ اس میں مسلم لیگ کی چھاپ ہے۔ میں نے سوچا کہ میڈیا حیران رہ جائے گا۔ لیکن وہ وہی کہتے رہے جو کانگریس نے پیش کیا۔ پھر میں نے سوچا کہ یہ ایکو سسٹم کا ایک بڑا گھوٹالہ لگتا ہے اور مجھے سچائی سامنے لانی ہوگی۔ میں نے 10 دن انتظار کیا کہ کوئی منشور کی برائیاں سامنے لائے کیونکہ اگر اسے غیر جانبدارانہ طریقے سے آگے لایا جائے تو اچھا ہے۔ بالآخر میں ان سچائیوں کو ظاہر کرنے پر مجبور ہوا۔

سوال : 2006 کا ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں منموہن سنگھ جی نے کہا ہے کہ وسائل پر پہلا حق غریب مسلمانوں کا ہے۔ یہ بات انہوں نے صاف صاف کہی ہے۔ آپ نے منشور میں یہ بھی بتایا کہ وہ او بی سی ریزرویشن کا حصہ لے کر مسلمانوں کو دینا چاہیں گے اور 2004-2014 کے درمیان انہوں نے چار پانچ بار ایسا کرنے کی کوشش کی ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی : آپ نے بہت دلچسپ سوال کیا ہے۔ جواب طویل ہو گا لیکن ملک کی خاطر مجھے آپ کو بتانا پڑے گا۔ آپ کانگریس کی تاریخ دیکھیں۔ یہ مطالبہ 1990 کی دہائی سے اٹھتا رہا ہے۔ ملک میں سماج کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے، جس کو لگتا تھا کہ ان کے لیے کچھ کیا جانا چاہیے، اس کے لیے احتجاج بھی ہوئے۔ 1990 سے پہلے کانگریس نے اس کی مکمل مخالفت کی اور اسے دبا دیا۔ پھر انہوں نے جو بھی کمیشن بنائے، جو بھی کمیٹیاں بنائیں، ان کی رپورٹیں بھی او بی سی کے حق میں آنے لگیں۔ وہ ان نظریات کی تردید کرتے رہے، رد کرتے رہے اور دباتے رہے۔ لیکن 90 کی دہائی کے بعد ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے انہیں لگا کہ کچھ کرنا چاہئے۔

تو، انہوں نے پہلا گناہ کیا تھا؟ 90 کی دہائی میں انہوں نے کرناٹک میں مسلمانوں کو او بی سی کے طور پر درجہ بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے پہلے وہ اس خیال کو دبا رہے تھے اور ناپاک کر رہے تھے، لیکن سیاسی فائدے کے لیے انھوں نے مسلمانوں کو او بی سی کا لیبل دے دیا۔ کانگریس مرکز سے بے دخل ہوگئی۔ یہ اسکیم 2004 تک تعطل کا شکار رہی۔ جب کانگریس 2004 میں واپس آئی تو اس نے فوری طور پر آندھرا پردیش میں مسلمانوں کو او بی سی کوٹہ دینے کا فیصلہ کیا۔ عدالت میں معاملہ الجھ گیا۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ نے آئین کی بنیادی روح کے مطابق او بی سی کو 27 فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب انہوں نے اس 27 فیصد کوٹے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔

2006 میں نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل کی میٹنگ ہوئی، جہاں سنگھ کے بیان پر زبردست ہنگامہ ہوا۔ وہ دو سال تک خاموش رہے۔ اس کا ذکر انہوں نے 2009 کے منشور میں دوبارہ کیا ہے۔ 2011 میں اس پر کابینہ کا نوٹ ہے جس میں انہوں نے مسلمانوں کو او بی سی حصہ دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے یوپی کے انتخابات میں بھی یہ کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آندھرا ہائی کورٹ نے اسے 2012 میں منسوخ کر دیا تھا۔ وہ سپریم کورٹ گئے، وہاں بھی انہیں کوئی راحت نہیں ملی۔ 2014 کے منشور میں بھی مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کی بات کی گئی تھی۔ جب ہندوستان کا آئین بنا تو آر ایس ایس یا بی جے پی کے لوگ موجود نہیں تھے۔ پنڈت نہرو اور بابا صاحب امبیڈکر جیسے عظیم لوگ وہاں موجود تھے۔ جنہوں نے طویل غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا کہ ہندوستان جیسے ملک میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا۔

2024 کے انتخابات کے لیے ان کا منشور دیکھیں۔ اس پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے۔ جس طرح سے وہ آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، جس طرح وہ امبیڈکر کی توہین کر رہے ہیں… اس سے ایس سی اور ایس ٹی کے ریزرویشن کو خطرہ ہے۔ کیا میں اس بارے میں ملک کے عوام کو آگاہ نہ کروں؟ میرا ماننا ہے کہ اس ملک تعلیم دینا، صحیح باتیں بتانا ان سبھی اہل علم کی ذمہ داری ہے، جو علم سے مالا مال ہیں، جو غیر جانبدار ہیں ۔