Tag Archives: Supreme Court

تاج محل کو لے کر سپریم کورٹ کو کیوں لینی پڑی ASI کی رائے؟ مرکز اور یوپی حکومت سے مانگا جواب

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے پیر کو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) سے تاج محل اور اس کے آس پاس کے تحفظ کے لئے تیار کئے گئے ویژن دستاویز اور پلان پر جواب طلب کیا۔ جسٹس ابھے ایس اوکا اور اجل بھوئیاں کی بنچ نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ویژن دستاویز کو ریکارڈ پر لائے۔ جسے اسکول آف پلاننگ اینڈ آرکیٹیکچر (SPA) نے ریاستی حکومت کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے۔ سپریم کورٹ کی بنچ ایک درخواست کی سماعت کر رہی تھی جس میں تاج محل کے تحفظ اور تاج ٹریپیزیم زون کے تحفظ کے لیے ایک ویژن دستاویز پر عمل درآمد کی درخواست کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ 8 دسمبر 2017 کو اس نے مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تاج ٹریپیزیم زون ایک ٹریپیزائڈل شکل کا علاقہ ہے جو تقریباً 10,400 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ اتر پردیش کے آگرہ، فیروز آباد، متھرا، ہاتھرس اور ایٹا اضلاع اور راجستھان کے ضلع بھرت پور میں پھیلا ہوا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ‘حیران کن’ ہے کہ 26 جولائی 2018 کو اس نے نوٹ کیا کہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ لیکن یہ ASI سے مشورہ کیے بغیر کیا گیا، جو تاج محل کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔ بنچ نے کہا کہ ‘ہم وژن دستاویز پر اے ایس آئی کا ردعمل جاننا چاہتے ہیں’۔

1631 میں اپنی بیوی ممتاز محل کی یاد میں مغل بادشاہ شاہ کے ذریعہ تعمیر کروائی گئی یادگار کی حفاظت کیلئے علاقہ میں ترقیاتی کاموں کی نگرانی عدالت عظمی کررہی ہے ۔ یہ مقبرہ یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ ہے۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے آگرہ کو عالمی ثقافتی ورثہ شہر کا درجہ دینے کا مطالبہ کرنے والی ایک اور عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو چھ ہفتوں کے اندر اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔

تاج محل کے قریب جمنا ندی کی صفائی کی عرضی پر سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ ندی کے نیچے سے گاد، کچرا اور کیچڑ صاف کرنے کی تجویز پر کوئی تنازع نہیں ہونا چاہئے۔

’نماز شروع ہونے سے پہلے…‘ سپریم کورٹ نے کیوں کہی یہ بات؟ جلگاوں مسجد۔ مندر تنازع پر دیا بڑا حکم

نئی دہلی: مہاراشٹر کے جلگاؤں میں مسجد اور مندر کا تنازع چل رہا ہے۔ اب یہ تنازع سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ جلگاؤں کے ایرنڈول تعلقہ میں واقع مسجد کی چابیاں میونسپل کونسل کے پاس رہیں گی۔ بتا دیں کہ جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ بامبے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف جامع مسجد ٹرسٹ کمیٹی کی اپیل پر سماعت کر رہی تھی۔

ہائی کورٹ نے ٹرسٹ کو ہدایت دی تھی کہ جلگاؤں مسجد کی چابیاں 13 اپریل تک میونسپل کونسل کو واپس کردیں۔ بنچ نے یہ بھی واضح کیا کہ میونسپل کونسل صبح کی نماز شروع ہونے سے پہلے اور نماز کی ادائیگی تک گیٹ کھولنے کے لیے ایک افسر کو تعینات کرے گی۔ بنچ نے مزید کہا کہ اگلے احکامات تک مسجد کا احاطہ وقف بورڈ یا ٹرسٹ کے کنٹرول میں رہنا چاہئے۔

سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ یہ عبوری انتظام اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک کلکٹر کارروائی کو ختم نہیں کر دیتے۔ دراصل ہندو گروپ پانڈوواڑا سنگھرش سمیتی نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد ایک مندر ہے اور اس پر مقامی مسلم کمیونٹی نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس پر کلکٹر نے ایک عبوری حکم جاری کرتے ہوئے لوگوں کو مذکورہ مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا تھا ۔

اس کے علاوہ کلکٹر نے جامع مسجد ٹرسٹ کمیٹی کو مسجد کی چابیاں ایرنڈول میونسپل کونسل کے چیف آفیسر کے حوالے کرنے کی ہدایت دی تھی۔ کلکٹر کے حکم کے خلاف ٹرسٹ نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ حالانکہ بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے اس حکم پر روک لگا دی تھی۔ لیکن بعد میں ہائی کورٹ نے ٹرسٹ کو بے معنی قرار دیتے ہوئے اسے کونسل کے حوالے کرنے کی ہدایت دی تھی۔

ای وی یم نہ ہیک ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس سے چھیڑچھاڑ ممکن… الیکشن کمیشن کا سپریم کورٹ میں جواب

نئی دہلی : لوک سبھا انتخابات 2024 کے تحت پہلے مرحلے کی ووٹنگ شروع ہونے میں اب 24 گھنٹے سے بھی کم کا وقت باقی ہے۔ ووٹنگ سے عین قبل ای وی ایم مشینوں کی معتبریت کو لے کر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ جمعرات کو الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ملک کی سپریم کورٹ کے سامنے واضح کیا کہ ای وی ایم ایک آزاد مشین ہے۔ اسے ہیک یا چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جا سکتا۔ VVPAT کو دوبارہ ڈیزائن کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپنے بیان میں کہا کہ اگر ای وی ایم کی بجائے مینوئل گنتی کی جائے تو انسانی غلطی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ نظام میں انسانی شرکت داری کم سے کم ہو گئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کیرالہ کے کاسرگوڈ میں ووٹنگ کی مشق کے دوران ‘الیکٹرانک ووٹنگ مشین’ (ای وی ایم) میں اضافی ووٹ ظاہر ہونے کے الزامات غلط ہیں۔ سپریم کورٹ ان درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی جس میں ‘ووٹر ویریفائی ایبل پیپر آڈٹ ٹریل’ (VVPAT) کے ذریعے ای وی ایم کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی مکمل تصدیق کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

سینئر ڈپٹی الیکشن کمشنر نتیش کمار ویاس نے جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ کو بتایا کہ یہ رپورٹس غلط ہیں۔ ہم نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے ان الزامات کی جانچ کی ہے اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔ ہم عدالت میں تفصیلی رپورٹ پیش کریں گے۔ ویاس ای وی ایم کے کام کے بارے میں بینچ کو وضاحت کرنے کے لئے عدالت میں موجود تھے۔

ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ درخواست گزار این جی او ‘ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز’ کی طرف سے پیش بھوشن نے عدالت کو بتایا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ ‘ماک پول’ مشق کے دوران ای وی ایمز اضافی ووٹ دکھا رہی تھیں۔

’ماب لنچنگ‘ معاملہ میں کیا کاروائی کی گئی؟ سپریم کورٹ نے ریاستوں سے چھ ہفتوں میں مانگا جواب

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے منگل کو مختلف ریاستی حکومتوں سے کہا کہ وہ اسے چھ ہفتوں کے اندر اندر مبینہ طور پر گئو رکشکوں اور بھیڑ کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر قتل کئے جانے کے معاملات میں کی گئی کارروائی کے بارے میں مطلع کریں۔ جسٹس بی آر گوئی، جسٹس اروند کمار اور جسٹس سندیپ مہتا کی بنچ نے خواتین کی ایک تنظیم کی درخواست پر چھ ہفتے بعد سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ریاستوں کو مبینہ طور پر گئو رکشکوں کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد کے واقعات سے نمٹنے کے لئے 2018 کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق فوری کارروائی کرنے کی ہدایت دی جائے۔

بنچ نے حکم دیا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر ریاستوں نے ‘ماب لنچنگ’ کی مثالوں دینے والی رٹ پٹیشن پر اپنا جوابی حلف نامہ داخل نہیں کئے ہیں ۔ ریاستوں سے توقع کی جاتی تھی کہ کم از کم اس بات کا جواب دیں کہ ایسے معاملات میں کیا کارروائی کی گئی ہے۔ ہم ان ریاستوں کو چھ ہفتے کا وقت دیتے ہیں جنہوں نے اپنا جواب داخل نہیں کیا ہے۔

سپریم کورٹ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) سے وابستہ تنظیم نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن (این ایف آئی ڈبلیو) کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی، جس میں گزشتہ سال مرکزی حکومت کو اور مہاراشٹرا، اڈیشہ، راجستھان، بہار، مدھیہ پردیش اور ہریانہ کے پولیس ڈائریکٹر جنرلز کو نوٹس جاری کیے گئے ٹلٹ اور عرضی پر ان سے جواب طلب کیا گیا تھا۔

سماعت کے دوران درخواست گزار تنظیم کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ نظام پاشا نے کہا کہ مدھیہ پردیش میں مبینہ ‘ماب لنچنگ’ کا ایک واقعہ پیش آیا تھا، لیکن متاثرین کے خلاف گئو کشی کی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریاست ‘ماب لنچنگ’ کے واقعے سے انکار کردے گا تو پھر تحسین پونا والا کیس میں 2018 کے فیصلے کی تعمیل کیسے کی جائے گی؟

شراب پالیسی اسکام: وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی عرضی پر15اپریل کوسپریم کورٹ میں ہوگی سماعت

سپریم کورٹ نے شراب پالیسی اسکام میں گرفتار دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی عرضی پر سماعت کے لیے رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے 15 اپریل کی تاریخ مقرر کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ اس کیس کی سماعت کرے گی۔

جانکاری کے مطابق سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کیجریوال نے کہا ہے کہ یہ خصوصی اجازت کی درخواست انتہائی ہنگامی حالات میں دائر کی گئی ہے، کیونکہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کے خلاف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے اس مقصد کے لیے مقدمہ درج کیا ہے۔ پی ایم ایل اے کی دفعہ 19 کے تحت انتخابات کے درمیان غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔بتایا گیا ہے کہ یہ گرفتاری دیگرملزمین کی انتہائی تاخیر سے دیے گئے بیانات کی بنیاد پر کی گئی ہے جو کہ اب مستثنیٰ گواہ بن چکے ہیں۔ ای ڈی کے پاس یہ تمام مواد گزشتہ نو ماہ سے موجود تھا، اس کے باوجود عام انتخابات کے درمیان ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔

 

کیجریوال نے دعویٰ کیا کہ ایسا کوئی مواد یا حقائق نہیں ہیں جس کی بنیاد پر عرضی گزار (کیجریوال) کو قصوروار یا گرفتار کیا جاسکے۔ہائی کورٹ یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت دیے گئے بیان کو قطعی سچ نہیں مانا جا سکتا، عدالت اس پر شک کر سکتی ہے۔

راؤس ایونیو کورٹ میں بھی اسی روز کیس کی سماعت ہوگی۔

دہلی کے وزیر اعلیٰ کی عدالتی حراست بھی 15 اپریل کو ختم ہو رہی ہے، اس لیے اسی دن وزیر اعلیٰ کو روز ایونیو کورٹ میں پیش کیا جائے گا اور انہیں ضمانت دینے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ان کی عرضی پر فوری سماعت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کیجریوال نے ای ڈی کی گرفتاری اور ریمانڈ کے خلاف اپیل کی ہے۔ کیجریوال کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے عدالت میں کہا کہ گرفتاری غیر معتبر دستاویزات پر مبنی ہے اور اسے ہم سے چھپایا گیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ ای میل بھیجیں، میں معاملہ دیکھوں گا۔

بریلی 2010 فسادات: سپریم کورٹ سے مولانا توقیر رضا کو ملی بڑی راحت، یوپی سرکار سے جواب طلب

نئی دہلی : بریلی میں 2010 میں ہوئے فسادات کے معاملہ میں اتحاد ملت کونسل (آئی ایم سی) کے سربراہ مولانا توقیر رضا کو ایک بڑی راحت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے بدھ کو ان کے خلاف نچلی عدالت میں مقدمے کی سماعت پر عارضی طور پر روک لگا دی۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے توقیر رضا کی درخواست پر اتر پردیش حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب بھی طلب کیا ہے۔

بریلی ڈسٹرکٹ کورٹ نے یکم اپریل کو مولانا توقیر رضا کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیا تھا اور انہیں 8 اپریل کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔ بریلی کورٹ نے توقیر رضا کو 2010 کے بریلی فسادات کا اہم سازشی بتایا تھا۔

بریلی کی سیشن عدالت نے 11 مارچ کو سمن جاری ہونے کے باوجود عدالت میں حاضر نہ ہونے پر توقیر رضا کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیا تھا۔ توقیر رضا نے اس سلسلے میں الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن وہاں بھی انہیں مایوسی ہاتھ لگی تھی، کیونکہ 20 مارچ کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے ناقابل ضمانت وارنٹ پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا اور 27 مارچ تک نچلی عدالت میں سرینڈر کرنے کا حکم دیا تھا۔ مگر مولانا نے خودسپردگی نہیں کی تھی ۔

اس کے بعد بریلی کی عدالت نے یکم اپریل کو مولانا توقیر رضا کے خلاف دوبارہ ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیا اور انہیں 8 اپریل کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا، جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جہاں سے انہیں راحت ملی ہے۔

پاکستان کو 14 اگست پر مبارکباد دینا جرم ہے یا نہیں…سپریم کورٹ کا کشمیری پروفیسر کے معاملہ پر آیا اہم فیصلہ

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کی تنقید کرنا یا 5 اگست کو ‘یوم سیاہ’ بتانا کوئی جرم نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہر شہری کو جموں و کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی پر تنقید کرنے کا حق ہے۔ یہ کسی کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے۔ آرٹیکل 19 کے تحت ملک کے شہریوں کو اپنا احتجاج درج کرانے کا حق حاصل ہے۔ اگر اس طرح حکومت کے ہر فیصلے کی تنقید کرنے پر آئی پی سی کی دفعہ 153-A کے تحت مقدمہ درج ہونے لگا تو جمہوریت نہیں بچے گی۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں مزید کہا کہ اگر ہندوستان کا کوئی شہری 14 اگست (پاکستان کے یوم آزادی) پر پاکستانی شہریوں کو مبارکباد دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ خیر سگالی ظاہر کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ایسے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے پیچھے دو مذہبی برادریوں کے درمیان دشمنی پھیلانا ہے۔ کسی شخص پر اس کے مذہب کی بنیاد پر اس طرح کا شک کرنا درست نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھئے: وزیراعظم مودی کشمیر میں تھے، پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا شکریہ،آخر کیا وجہ رہی؟

یہ بھی پڑھئے: اگراردو نہیں آتی…تو نکاح کیلئے پہنچیں یہاں،بیرون ممالک بھی تسلیم کئے جائیں گے نکاح نامے

عدالت نے یہ تبصرہ مہاراشٹر کے کولہاپور کالج میں کام کرنے والے کشمیری پروفیسر جاوید احمد کے خلاف دائر 153A کیس کو ختم کرتے ہوئے کیا ہے۔ پروفیسر نے ‘5 اگست کو جموں و کشمیر کے لئے بلیک ڈے بتاتے ہوئے’ اور ’14 اگست – ہیپی انڈیپنڈنس ڈے پاکستان ‘ والے وہاٹس ایپ اسٹیٹس لگائے تھے اور انہیں گروپ میں شیئر کیا تھا۔

’ سبھی پارٹیوں کے آفس بدرپور کردیں‘، سنگھوی نے سی جی آئی ڈی وائی چندرچوڑ سے کیوں کہا ایسا، اے اے پی دفتر کا معاملہ

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے پیر کو عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا کہ انہیں 15 جون تک راؤز ایونیو میں اپنے پارٹی دفتر کو خالی کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے ان سے پارٹی دفتر کی زمین کے لیے مرکز کو درخواست دینے کیلئے بھی کہا، جس کے بعد AAP کی طرف سے پیش ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ میں نے درخواست دی ہے اور مجھے بدر پور میں جگہ دی گئی ہے۔ تو پھر سبھی جماعتوں کو بدرپور میں منتقل کردیا جائے ۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ یہ زمین دہلی ہائی کورٹ کو دی گئی زمین پر تجاوزات ہے۔ اس زمین کا مقصد راؤز ایونیو کورٹ کے لئے اضافی کمرہ عدالت کی تعمیر ہے۔ ہم اگلے انتخابات کے پیش نظر آپ کو اضافی وقت دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے راؤز ایونیو کورٹ کمپلیکس میں واقع دہلی ہائی کورٹ کی زمین پر بنائے گئے عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے دفتر کے بارے میں سماعت کے دوران چیف جسٹس (سی جے آئی) ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ ہم آپ کو جگہ خالی کرنے کے لیے وقت دے سکتے ہیں۔

پہلی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اے اے پی کو پھٹکار لگائی تھی، جس کے بعد پارٹی نے اپنی وضاحت میں کہا تھا کہ وہاں بنایا گیا پارٹی دفتر کوئی تجاوزات نہیں ہے کیونکہ یہ راؤز ایونیو کورٹ کمپلیکس کی توسیع کے لئے مختص کئے جانے سے کافی قانونی طور پر ‘AAP’ کو الاٹ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: آئندہ5سال میں ترقیاتی مہم کومزیدتیزی سے آگے بڑھایاجائیگا: وزیراعظم

یہ بھی پڑھئے: پاکستان :وزیراعظم بنتےہی شہبازشریف کویادآیا مسئلہ کشمیر،ہندوستان کوبنایانشانہ

جب سی جے آئی نے پوچھا کہ ایل این ڈی او کے ذریعہ اس جگہ کو ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کو الاٹ کرنے کے بعد یہ سیاسی پارٹی کے پاس کیسے چلا گیا ؟ تو ایمیکس کیوری نے کہا کہ ہم زمین کا استعمال نہیں کر سکے ہیں اور ہائی کورٹ اس پر سیاست نہیں کرنا چاہتی ہے۔

کیا دو ججوں والی بینچ…بلقیس بانو کیس میں کیسے اپنے ہی دو فیصلوں میں الجھ گیا سپریم کورٹ

نئی دہلی : بلقیس بانو کیس کے دو مجرموں نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے، جس میں عدالت عظمیٰ سے یہ فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ کیا دو ججوں کی بینچ اس معاملے میں پہلے کی دو ججوں کی بینچ کے ذریعہ دیے گئے فیصلے کو رد کر سکتی ہے؟۔ اس کیس کے مجرموں رادھیشیام بھگوان داس اور راجو بھائی بابولال سونی نے سپریم کورٹ کے حکم پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کی رہائی پر گجرات یا مہاراشٹر کس ریاستی حکومت کی رہائی کی پالیسی لاگو ہوگی؟ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے دو ججوں کے ہی دو الگ الگ بینچوں کے فیصلوں میں تضاد ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مئی 2022 کے حکم میں سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ نے کہا تھا کہ گجرات حکومت ان کی رہائی کا فیصلہ کر سکتی ہے، جب کہ 2024 میں سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے مانا کہ ان کی رہائی کے لیے فیصلہ مہاراشٹر حکومت کرے گی۔

ایسے میں درخواست کے ذریعے سپریم کورٹ سے یہ واضح کرنے کیلئے کہا گیا ہے کہ ان کے معاملہ پر دو ججوں کی دو الگ الگ بینچوں کے ذریعے دیے گئے فیصلوں میں سے کون سا فیصلہ لاگو ہوگا۔ مجرموں کی جانب سے دائر درخواست میں ان کی رہائی کے خلاف دائر کی گئی رٹ پٹیشن کی مینٹیبلیٹی پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں امدادی قافلہ پرحملے کےبعداسرائیل پوری دنیا کےنشانے پر، ہندوستان نے بھی جتایاافسوس

یہ بھی پڑھئے: گوتم گمبھیرکابڑااعلان،سیاست سےدوررہنےکافیصلہ، اس بارنہیں لڑیں گے لوک سبھا الیکشن

اس معاملے کے سبھی 11 مجرموں نے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد 21 جنوری کو گودھرا شہر کی ایک جیل میں خودسپردگی کی تھی۔ سبھی 11 ملزمان کو 2002 کے گودھرا فسادات کے دوران بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے خاندان کے سات افراد کے قتل میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔

’جج صاحب غلطی کردی…‘ سپریم کورٹ میں کیوں بولے وزیراعلی کیجریوال، مانگنی پڑی معافی

نئی دہلی : دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے آئی ٹی سیل سے متعلق مبینہ توہین آمیز ویڈیو کیس میں اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے۔ انہوں نے پیر کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ یوٹیوبر دھرو راٹھی کے اس ویڈیو کو ری ٹویٹ کرکے انہوں نے غلطی کی ہے۔ سپریم کورٹ میں وزیراعلی کیجریوال کی طرف سے پیش سینئر وکیل ابھیشیک سنگھوی نے کہا کہ ‘میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ری ٹویٹ کرکے غلطی کی ہے۔’ اس پر جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ نے دہلی ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرنے والی کیجریوال کی عرضی پر نوٹس جاری کئے بغیر شکایت کنندہ سے پوچھا کہ کیا وہ وزیراعلی کی معافی کے بعد کیس بند کرنا چاہتے ہیں؟ سپریم کورٹ کی بنچ نے نچلی عدالت سے یہ بھی کہا کہ وہ 11 مارچ تک کجریوال سے متعلق ہتک عزت کیس کی سماعت نہ کرے۔

اس سے پہلے ہائی کورٹ نے کیجریوال کو مجرمانہ ہتک عزت کیس میں ملزم کے طور پر جاری کئے گئے سمن کو برقرار رکھا تھا۔ دہلی ہائی کورٹ نے 5 فروری کے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ مبینہ توہین آمیز مواد کو دوبارہ پوسٹ کرنے پر ہتک عزت کا قانون لاگو ہوگا۔

حالانکہ وزیراعلی کیجریوال نے ہائی کورٹ میں کہا تھا کہ نچلی عدالت یہ سمجھنے میں ناکام رہی کہ ان کے ٹویٹ کا مقصد شکایت کنندہ وکاس سانکرتیاین کو نقصان پہنچانا نہیں تھا۔ ہائی کورٹ کے سامنے کیجریوال کی عرضی میں کہا گیا کہ ماتحت عدالت نے سمن جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتاکر غلطی کی اور یہ احکامات ‘بادی النظر’ عدالتی صوابدید کے مطابق نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھئے: نفے سنگھ قتل کیس میں دو مشتبہ افراد حراست میں، پولیس کررہی پوچھ گچھ، ہوسکتی ہے CBI جانچ

یہ بھی پڑھئے: الہ آباد ہائی کورٹ کابڑافیصلہ: گیان واپی کمپلیکس کےویاس جی کےتہہ خانےمیں جاری رہےگی پوجا

سانکرتیاین نے دعویٰ کیا کہ ‘بی جے پی آئی ٹی سیل پارٹ II’ کے عنوان سے یوٹیوب ویڈیو جرمنی میں رہنے والے راٹھی کے ذریعہ پبلش کی گئی تھی، جس میں کئی جھوٹے اور توہین آمیز الزامات لگائے گئے تھے۔