نئی دہلی: راجستھان اسمبلی انتخابات میں شکست کے بارے میں تین گھنٹے سے زیادہ کی خود احتسابی کے بعد کانگریس کی مایوس کن صورتحال سے پارٹی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے۔ ریاست ہر پانچ سال بعد اپوزیشن کو اقتدار کے لئے منتخب کرنے کی اپنی روایت پر قائم رہی، لیکن کانگریس کی دہلی قیادت کو لگتا ہے کہ بی جے پی کی جیت ریاست میں اس کے اپنے اندرونی مسائل کے پیش نظر ممکن ہوئی۔ یقیناً اب بڑا مسئلہ یہ ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران کانگریس راجستھان میں کیسی کارکردگی دکھاتی ہے۔ ریاست میں ایوان زیریں میں 25 سیٹیں ہیں جن میں سے فی الحال بی جے پی کے پاس 24 ہیں۔ باقی پر راشٹریہ لوک تانترک پارٹی (RLP) کا قبضہ ہے۔
2018 کے راجستھان اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی جیت کے بعد اشوک گہلوت کو وزیر اعلی بنایا گیا تھا جس سے سچن پائلٹ کافی مایوس ہوئے تھے۔ اس وقت گاندھی خاندان نے محسوس کیا کہ گہلوت 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اچھی کارکردگی کو یقینی بناسکتے ہیں، لیکن کانگریس ریاست میں صفر پر آوٹ ہوگئی ۔ یہاں تک کہ اشوک گہلوت کے بیٹے ویبھو گہلوت بھی جودھپور کے خاندانی حلقے سے ہار گئے۔
تب سے گہلوت اور پائلٹ کے تعلقات میں تلخی آ گئی ۔ معاملہ اس وقت مزید خراب ہوگیا جب پائلٹ کی مبینہ بغاوت پر گرما گرم بحث ہوئی۔ کانگریس کے سربراہ ملکارجن کھڑگے اور پارٹی کے سینئر لیڈر راہل گاندھی کی طرف سے تلخی کم کرنے کی کوششوں کے باوجود انتخابی مہم کے دوران یہ واضح تھا کہ گہلوت اور پائلٹ اس حد تک الگ ہو گئے تھے کہ واپسی ممکن نہیں تھی۔
ایک موقع پر حکومت مخالف لہر سے خبردار ہوکر کئی ایم ایل ایز نے ریاستی یونٹ کے صدر گووند سنگھ دوٹاسرا کو خط لکھا تھا کہ ان کے لئے پائلٹ تشہیر کریں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ باتیں ہفتہ کو دہلی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کے ہیڈکوارٹر میں کھڑگے کی طرف سے بلائی گئی جائزہ میٹنگ میں سامنے آئیں، جہاں راہل گاندھی اور دیگر سینئر لیڈران بھی موجود تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ وہاں موجود تقریباً سبھی نے اندازہ لگایا کہ موجودہ ایم ایل ایز کو تبدیل کیا جانا چاہئے تھا، کچھ نے گہلوت کی طرف دیکھا اور کہا: “ہمیں نہیں معلوم کہ ایسا کیوں نہیں ہوا۔” اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ لیڈروں نے اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی کہ مہم یک طرفہ تھی۔ ذرائع نے راہل گاندھی کے حوالے سے کہا کہ “ایسا لگتا ہے کہ یہ سب پوسٹروں اور ہورڈنگز کے بارے میں ہے۔” کہا جاتا ہے کہ کھڑگے نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ مہم شخصی مرکوز لگ رہی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: جموں وکشمیر:آرٹیکل 370کی دوبارہ ہوگی بحالی یامنسوخی کافیصلہ رہے گابرقرار؟ پیرکو سپریم کورٹ کاسنایا جائیگا فیصلہ
یہ بھی پڑھئے: ممبر پارلیمنٹ دانش علی کو بی ایس پی نے کیا معطل، پارٹی مخالف سرگرمیوں میں شامل ہونے کا الزام
انتخابات کے دوران عدم اطمینان کی آوازیں آرہی تھیں کہ مہم مکمل طور پر اشوک گہلوت کے بارے میں تھی اور یہ کہ ایک چھوٹے گروپ نے انتخابی مہم کا روسٹر طے کیا تھا۔ گہلوت کے سابق اسپیشل ڈیوٹی افسر رہے لوکیش شرما ، جنہوں نے سبکدوش ہونے والے وزیراعلی پر سنگین الزامات لگائے ہیں، نے نیوز 18 کو بتایا تھا کہ کسی نے بھی وزیراعلیٰ سے آگے نہیں دیکھا اور پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
ہفتہ کو ہوئی میٹنگ میں بنیادی تبدیلیوں کی تجویز دی گئی۔ مستقبل قریب میں جن اہم سوالات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں: اپوزیشن کا لیڈر اور ریاستی یونٹ کا صدر کون ہوگا؟ کیا پائلٹ کو واپس لایا جائے گا؟ اور کیا گہلوت کنٹرول چھوڑ دیں گے؟