Tag Archives: Delhi High Court

دہلی میں وقف ٹریبونل کےقیام کامعاملہ پہنچا ہائی کورٹ، عدالت نےریاستی حکومت سےمانگاجواب

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے پیر کو دہلی حکومت سے وقف ایکٹ کے تحت وقف یا وقف املاک سے متعلق تنازعات سے نمٹنے کے لیے ایک ٹریبونل کی تشکیل کی درخواست پر جواب طلب کیا۔ یہ درخواست کناٹ پلیس کے علاقے میں واقع مسجد اور درگاہ عبدالسلام کی جانب سے ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔

درخواست میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ ٹربیونل (جو وقف ایکٹ کی دفعہ 84 کے تحت تشکیل دیا گیا ہے) نے آخری بار اپریل 2022 میں کام کیا تھا۔ اپریل 2022 میں، ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج، جو ٹربیونل کے سابق رکن تھے، کو وقف ٹریبونل سے دوسری عدالت میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ان کی جگہ اسٹیٹ جوڈیشل سروس کے ایک اور رکن نے چارج سنبھال لیا۔

درخواست میں کیا کہا گیا ہے

تاہم، بعد میں ٹریبونل کو کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے کوئی ضروری نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا، جیسا کہ عدالت کو بتایا گیا تھا۔عرضی میں کہا گیاہےکہ مطلوبہ نوٹیفکیشن جاری کرنے میں دہلی حکومت کی ناکامی نے نہ صرف وقف ٹریبونل کے سامنےزیرالتواء معاملات میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ جس کے نتیجے میں وقف بورڈ کے معاملات کو لیکر عرضی گذار ہائی کورٹ سے رجوع ہورہے ہیں تاکہ فوری عبوری ریلیف کے حصول کے لیے درخواست گزاروں کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ‘درخواست گزار (مسجد اور درگاہ عبدالسلام) وقف ٹریبونل کے سامنے ریفرنس کے تحت وقف کمپلیکس کے کچھ حصوں سے متعلق مختلف مقدموں کے فریق ہیں۔ تاہم، وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 83 (1) کے تحت ضروری نوٹیفکیشن کی عدم موجودگی میں، ان تمام مقدمات کی سماعت اچانک رک گئی ہے، جس سے درخواست گزار کو شدید جھٹکا لگاہے۔ درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ وجیہہ شفیق پیش ہوئے۔

اروند کیجریوال کی عرضی خارج ہونے کے بعد اب کیا کرے گی عام آدمی پارٹی؟ AAP نے کیا یہ بڑا فیصلہ

نئی دہلی : دہلی شراب گھوٹالے سے متعلق منی لانڈرنگ کیس میں وزیر اعلی اروند کیجریوال کی گرفتاری کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ دہلی ہائی کورٹ نے منگل کو اروند کیجریوال کی عرضی کو مسترد کر دیا۔ عام آدمی پارٹی دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے متفق نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی کے ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔ بتایا جا رہا ہے کہ کل یعنی بدھ کو کیجریوال کی جانب سے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی جائے گی۔

دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے بعد پریس کانفرنس کے دوران AAP لیڈر سوربھ بھاردواج نے کہا کہ مبینہ ایکسائز پالیسی میں اب تک جو کچھ ہوا ہے اسے دیکھ کر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ سارا معاملہ منی لانڈرنگ کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی تاریخ کی ایک سیاسی سازش ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ ووٹ اور سیٹیں جیتنے والے وزیراعلیٰ کو اور ان کی دو حکومتوں کو تباہ کرنے کی بڑی سازش ہے۔ ہزاروں کروڑ کی بات تھی، پھر سینکڑوں کروڑ کی بات تھی، پھر 100 کروڑ کی بات تھی، لیکن ایک روپیہ بھی برآمد نہیں ہوا، پھر تحقیقات پر سوال اٹھتے ہیں ۔

سوربھ بھاردواج نے کہا کہ گواہوں کی گواہی کیسے لی گئی، یہ بار بار عدالت کے سامنے آچکا ہے کہ کس طرح گواہوں پر دباؤ ڈالا گیا اور ای ڈی جو کہہ رہی ہے وہ کہنے پر مجبور کیا گیا۔ چندن ریڈی جن پر اپنا بیان بدلنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ اسے اتنا مارا گیا کہ اس کے کان کے پردے پھٹ گئے۔ ارون پلئی کو ڈرایا دھمکایا گیا اور اپنی گواہی تبدیل کرنے کی دھمکی دی گئی۔

ڈی ڈی اے نے جہاں توڑی تھی 600 سال پرانی مسجد، وہاں عید پر کیا ہوگا؟ ہائی کورٹ نے دیا بڑا حکم

نئی دہلی : دہلی ہائی کورٹ نے مہرولی میں منہدم شدہ اخوند جی مسجد کے مقام پر رمضان اور عید کے مہینے میں نماز ادا کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ وہیں دہلی ہائی کورٹ ایک اور عرضی پر 7 مئی کو معاملہ کی سماعت کرے گا۔ اس درخواست میں منتظمہ کمیٹی مدرسہ بحر العلوم و قبرستان نے اپیل دائر کی تھی، جس میں دہلی ہائی کورٹ کی سنگل بنچ کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔

قائم مقام چیف جسٹس منموہن کی سربراہی والی بنچ نے منتظمہ کمیٹی مدرسہ بحرالعلوم اور قبرستان کی اپیل کو مسترد کر دیا ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ لوگوں کو رمضان اور عید کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ ہائی کورٹ اب 7 مئی کو سماعت کرے گا۔ اس سے پہلے سنگل بنچ نے شب برات کے موقع پر نماز کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سنگل بنچ کے اس حکم کی بنیاد پر ہائی کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کی گئی تھی، جس پر عدالت مئی میں ایک الگ اپیل کی سماعت کرے گی۔

درخواست گزار کے وکیل نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک آرڈر پاس کریں، کیونکہ اس وقت تک رمضان اور عید ختم نہیں ہوگی۔ اس سے قبل سنگل بنچ نے تقریباً ایک ماہ قبل راحت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے تبصرہ کیا تھا کہ اس درخواست کی سماعت اس اپیل کے ساتھ کی جائے گی۔ عدالت کا یہ حکم 11 مارچ کا ہے۔ آپ نے اپنا مقدمہ درج کرنے کے لیے اتنا انتظار کیا۔ آج ہم 8 اپریل میں ہیں۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ اس درخواست کی سماعت اس اپیل کے ساتھ 7 مئی کو کی جائے گی۔ کوئی عبوری حکم نہیں ہو سکتا۔ اپیل کنندہ کے وکیل نے کہا کہ کمیٹی کوئی ‘بیک ڈور انٹری’ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے۔ بابری مسجد کیس اور گیانواپی کیس پر بھروسہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئینی عدالتوں نے پہلے مذہبی عقائد کا احترام کیا ہے اور مذہبی مقامات سے متعلق قانونی تنازعات کے تحت نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔

انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے ممبران سپریم باڈی:  دہلی ہائی کورٹ

نئی دہلی : دہلی ہائی کورٹ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے ممبران ہی سنٹر کی سپریم باڈی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ سنٹر کے قوانین کس مطابق کوئی بھی عہد یدار جنرل باڈی سے اوپر نہی ہے۔  عدالت نے منتخب بورڈ آف ٹرسٹیز اور ایگزیکٹو ممبرز کو مرکز کے کاموں میں دخل دینے سے فوراً روک دیا۔ ہائی کورٹ کی  دو رکنی بنچ نے کہا کہ 9 جنوری 2024 کو تمام منتخب عہدیداران کی مدت کار مکمل ہو چکی ہے، اس لیے عدالتی مبصرین 3 مئی تک ایک خصوصی جی بی ایم منعقد کریں گے جس میں تمام ایجنڈوں پر فیصلے کیے جائیں گے جن میں عہدیداروں کی عمر کی حد بھی شامل ہے اور اس کے مطابق سالانہ جنرل باڈی اجلاس 30 دن کے اندر بلایا جائے گا جو دیگر رسمی کارروائیوں کو مکمل کرے گا۔ ساتھ  ہی ساتھ الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ بھی کرے گا۔ دہلی ہائی کورٹ نے عدالتی ابزرور کو اپنے فیصلے کی تاریخ سے ایک ہفتہ کے اندر ووٹر لسٹ کو حتمی شکل دینے کا بھی حکم دیا۔

عدالت کے اس فیصلے سے مرکز کے تاحیات ارکان کافی خوش ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ کچھ لوگوں نے مرکز کو عدالت میں گھسیٹا جس کی وجہ سے نہ صرف مرکز کی شبیہ خراب ہوئی بلکہ مرکز کو لاکھوں روپے کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سینئر لائف ممبر ڈاکٹر وارث احمد خان نے کہا کہ عدالت کے اس فیصلے سے ابرار احمد، احمد رضا، قمر احمد، جمشید زیدی، محمد شمیم اور شرافت اللہ کو بڑا دھچکا لگا ہے۔

چونکہ یہ تمام 6 اہلکار 9 جنوری 2024 کو اپنی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد بھی اپنے عہدوں پر موجود تھے اور مرکز کے تمام کام معمول کے مطابق کر رہے تھے۔ ڈاکٹر وارث خان نے کہا کہ عدالت کے فیصلے سے واضح ہو گیا ہے کہ ان کا عہدے پر رہنا غیر مجاز اور غیر منصفانہ تھا۔ عدالت کی جانب سے اپنے حق میں فیصلہ آنے پر مقدمے کے مدعی اور مرکز کے صدر سراج الدین قریشی نے کہا کہ یہ مرکز کے چار ہزار تاحیات ارکان کی فتح ہے جس کے لیے وہ عدالت گئے تھے۔ قریشی نے کہا کہ ان کا مقصد ملک اور دنیا میں مرکز کے وقار کو برقرار رکھنا ہے۔ اسلامک سینٹر کے نائب صدر ایس ایم خان نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ مرکز کے مفاد میں ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ مرکز کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔

عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے مرکز کے اراکین میں پدم شری پروفیسر جے ایس راجپوت، الکا مدھوک، ابوذر حسین خان، بہار برکی، سکندر حیات، صفیہ بیگم، آصف زیدی، ڈاکٹر ایم رحمت اللہ، شہریار خان، مبینہ ابرار، رضوانہ مشتاق، عارف حسین، شامل تھے۔ اختر عادل، ڈاکٹر ماجد دیوبندی، دنیش مدن، شفیق قریشی، عمران خان، جاوید حسین، خسرو خان، حف متلوب، ادریس خان، اسلم جاوید، پروفیسر شمیم احمد، اور شاہانہ بیگم نے کہا کہ عدالت کے حکم کے مطابق آبزرور خصوصی اجلاس منعقد کریں اور فوری طور پر انتخابات کرائیں تاکہ مرکز کا کام کاج کو احسن طریقے سے چلایا جا سکے۔

کیجریوال پر ہائی کورٹ نے فیصلہ رکھا محفوظ، وزیراعلی نے کیوں لیا منیش سسودیا کا نام؟

نئی دہلی : دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کے روز وزیر اعلی اروند کیجریوال کی اس عرضی پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا، جس میں انہوں نے ایکسائز گھوٹالہ سے متعلق منی لانڈرنگ کیس میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے ذریعہ گرفتاری کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بحث کے دوران کیجریوال کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے منیش سسودیا کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کے کیس میں عدالت نے 100 کروڑ روپے پر کہا تھا کہ یہ بحث کا معاملہ ہے۔ یہ کہنا کہ سسودیا کو ضمانت نہیں ملی، اس لئے میں ان کی گرفتاری کو چیلنج نہیں کرسکتا، غلط ہوگا۔

سنگھوی نے مزید کہا کہ مان لیجئے کہ کسی کو رشوت لیتے ہوئے پکڑا گیا ہو۔ ایسے میں کیا پی سی ایکٹ یا انکم ٹیکس ایکٹ نافذ ہوگا یا ای ڈی پی ایم ایل اے کے ساتھ کود پڑے گی؟ یہ منی لانڈرنگ کا کیس کیسے ہو سکتا ہے؟ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ (کیجریوال) منی لانڈرنگ میں ملوث تھے۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ حوالہ کو ہینڈل کر رہے تھے۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے دہشت گرد کی بہت ہی خراب مثال دی ہے۔

اس سے پہلے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے دہلی ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ وزیر اعلی اروند کیجریوال ایکسائز گھوٹالہ کے ‘ماسٹر مائنڈ’ اور ‘سازشی’ ہیں اور اس کے پاس دستیاب مواد کی بنیاد پر اس کے پاس یہ ماننے کی وجوہات ہیں کہ وہ منی لانڈرنگ کے جرم کے مجرم ہیں۔

عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے لیڈر کی ‘گھوٹالے’ سے جڑے منی لانڈرنگ کیس میں ایجنسی کے ذریعہ ان کی گرفتاری کو چیلنج کرنے کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے کہا کہ سیاسی پارٹی، جو جرائم کی آمدنی سے ‘بڑے فائدہ اٹھانے والی’ تھی، نے کیجریوال کے ذریعہ سے جرم کیا ہے۔

بچے کو تعلیم پانے کا بنیادی حق، مگر اپنی پسند کے اسکول میں نہیں، دہلی ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ

نئی دہلی : دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ کسی بھی بچے کو اپنی پسند کے کسی خاص اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی بنیادی حق نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 21A یا حق تعلیم ایکٹ 2009 (آر ٹی ای ایکٹ) کے سیکشن 12 کے تحت دستیاب حق صرف 14 سال کی عمر تک مفت اور لازمی تعلیم تک محدود ہے ، نہ کے ایک خاص اسکول میں ایسی تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ 7.5 سال کی ایک بچی کی ماں کی جانب سے مہاراجہ اگرسین ماڈل اسکول کے خلاف دائر کی گئی رٹ پٹیشن پر دیا۔

‘ورڈکٹم’ کی ایک رپورٹ کے مطابق جسٹس سی ہری شنکر کی سنگل بنچ نے کہا کہ ‘اس طرح کی درخواست کے فقدان میں کسی خاص اسکول میں کسی خاص کلاس میں داخلے کے لیے کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی کرنا اور کسی بچے کو شارٹ لسٹ کرنا، اس کے  داخلہ پانے کا کوئی حق نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 21A یا RTE ایکٹ کے سیکشن 12 کے تحت دستیاب حق صرف چودہ سال کی عمر تک مفت اور لازمی تعلیم کا ہے۔ یہ تعلیم کے لیے کسی خاص اسکول میں داخلہ لینے کے بارے میں نہیں ہے۔

جیا نام کی درخواست گزار کی پیدائش 2016 میں ہوئی تھی اور اس کی عمر تقریباً 7.5 سال تھی۔ وہ معاشرے کے معاشی طور پر کمزور طبقے (EWS) سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے بعد اس کی والدہ نے تعلیمی سیشن 2022-23 کے لیے کلاس 1 میں EWS زمرے کے تحت داخلے کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (DOE) کو درخواست دی تھی۔ DOE نے کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی کی، جس کے بعد جیا کو جواب دہندہ اسکول میں داخلے کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔

اس کی والدہ کے کئی بار اسکول آنے کے باوجود اسکول نے جیا کو داخلہ دینے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد اس کی والدہ نے DOE کو درخواست دی کہ وہ اس اسکول میں جیا کے داخلہ کو یقینی بنانے کے لیے مداخلت کرے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس لیے جیا نے اپنی ماں کے ذریعے رٹ پٹیشن دائر کی۔ اس نے اسکول کو تعلیمی سیشن 2023-24 کے لیے کلاس II میں EWS طالب علم کے طور پر داخلہ دینے کی ہدایت دینے کا حکم جاری کرنے کی مانگ کی تھی، جس پر ہائیکورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔

ای ڈی کی ریمانڈ میں ہی رہیں گے کیجریوال… نچلی عدالت کے بعد ہائی کورٹ سے بھی لگا جھٹکا، نہیں ملی راحت

نئی دہلی : ہائی کورٹ نے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی گرفتاری کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر انہیں راحت دینے سے انکار کردیا۔ درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ حراست کے دوران ای ڈی نے کچھ حقائق جمع کئے ہوں گے، جنہیں وہ سماعت کے دوران عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہوں گے۔ یہ حقائق اس پٹیشن کے لیے بھی اہم ہوں گے۔ ہم ای ڈی کو سنے بغیر اس پر کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے۔ صبح ہائی کورٹ نے وزیراعلی کیجریوال اور ای ڈی کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

ای ڈی کی طرف سے پیش ہوئے اے ایس جے راجو نے وزیراعلی کو راحت دینے کی مخالفت کی ۔ انہوں نے وزیراعلیٰ کی جانب سے وکلا کی فوج کے پیش ہونے پر بھی اعتراض کیا تھا۔ ای ڈی کا کہنا ہے کہ گوا انتخابات کو فنڈ دینے کے لیے وزیراعلی کیجریوال نے شراب پالیسی کی مدد سے ساؤتھ گروپ کو فائدہ پہنچایا۔ اس کے بدلے میں انہیں گوا انتخابات میں کافی فنڈز ملے۔

وہیں وزیراعلی کیجریوال کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے عدالت میں کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی دن آپ کہیں کہ ہم آپ کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ہمیں گرفتار کرنے کا اختیار ہے۔ اس لیے گرفتاری کی خواہش پوری کرنے کے لیے گرفتار کر رہے ہیں۔

سنگھوی نے کہا کہ پراسیکیوشن کا کیس اگست 2022 میں شروع ہوا تھا اور کیجریوال کو پہلا سمن اکتوبر 2023 میں آیا ۔ تحقیقاتی ایجنسی حالیہ دنوں میں ’عدم تعاون‘کا بہت زیادہ غلط استعمال کرتی رہی ہے۔ چونکہ آپ اپنے خلاف الزامات کو قبول نہیں کر کے تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے، اس لیے ہم آپ کو گرفتار کر رہے ہیں۔ کیا یہ درست ہوگا؟ ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ میرے کردار کی تحقیقات بھی کرنا چاہتے ہیں تو پھر انتخابات سے دو ماہ قبل گرفتاری کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ اب بھی وہ میرے کردار کے بارے میں واضح نہیں ہیں، شکوک و شبہات ہیں۔ ایسا کیا ہے جو گرفتاری کے بغیر نہیں ہو سکتا؟

150 سال قدیم مسجد کو منہدم کرنے کا معاملہ، این ڈی ایم سی نے دہلی ہائی کورٹ کو کیا بتایا؟ امام کی عرضی پر سماعت

نئی دہلی : دہلی ہائی کورٹ کو بدھ کے روز مطلع کیا گیا کہ قومی راجدھانی میں واقع سنہری باغ مسجد کے مجوزہ انہدام کا معاملہ ہیریٹیج کنزرویشن کمیٹی (ایچ سی سی) کی سفارش کے لئے اس کے پاس بھیجا گیا ہے۔ عدالت مسجد کے امام کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی جس میں نئی ​​دہلی میونسپل کونسل (این ڈی ایم سی) کے 24 دسمبر کے اس عوامی نوٹس کو چیلنج کیا گیا ہے، جس میں عام لوگوں سے مسجد کو ہٹانے کے بارے میں اعتراضات/ مشورے دینے کیلئے کہا گیا تھا۔

ٹریفک پولیس کی طرف سے پیش سینئر وکیل سنجے جین نے کہا کہ درخواست اس مرحلے پر بے سود ہے کیونکہ یہ معاملہ ایچ سی سی کے سامنے زیر التوا ہے اور درخواست گزار کمیٹی کے فیصلے پر “پہلے سے اندازہ” نہیں لگا سکتا ہے۔ جسٹس سچن دتہ نے بھی اس پہلو پر درخواست گزار کے وکیل سے سوال کیا اور پوچھا کہ کیا فی الحال درخواست پر بحث کی جا سکتی ہے، کیونکہ انہدام کا خطرہ ایچ سی سی کی سفارش کے بعد ہی آئے گا۔

عرضی گزار کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل ویراج آر داتار نے کہا کہ وہ این ڈی ایم سی کی کارروائی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کر رہے ہیں اور اگر درخواست دائر نہیں کی گئی ہوتی اور ایچ سی سی کی طرف سے ایک منفی سفارش کی جاتی ہے، تو انہیں “48 گھنٹوں کے اندر عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا۔”

یہ بھی پڑھئے: جام تاڑا میں دردناک حادثہ، ٹرین سے کٹ کر 12 کی موت، کالاجھریا اسٹیشن پر مچی چیخ و پکار

یہ بھی پڑھئے: اب سی بی آئی کے پھیرے میں ایس پی سربراہ اکھلیش یادو، پوچھ گچھ کیلئے بلایا گیا

21 فروری کو ہی دہلی ہائی کورٹ نے علاقے میں مبینہ ٹریفک جام کی وجہ سے سنہری باغ مسجد کے مجوزہ انہدام کے خلاف دائر PIL پر غور کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ قائم مقام چیف جسٹس منموہن سنگھ اور جسٹس منمیت پی ایس اروڑہ کی ڈویژن بنچ نے کہا تھا کہ اسی طرح کی ایک عرضی پہلے ہی ہائی کورٹ کے ایک جج کے سامنے زیر التوا ہے اور اسے حکم دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

’جج صاحب…میں باپ نہیں بن سکتا ہوں…‘ ایک شوہر نے ہائی کورٹ میں داخل کی عرضی، جانئے عدالت نے کہا کہا؟

نئی دہلی : دہلی ہائی کورٹ نے ایک شوہر کی اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے، جس میں اس نے اپنی بیوی پر ناجائز تعلقات کا الزام لگایا تھا۔ شوہر نے الزام لگایا کہ اس کی بیوی کے کسی دوسرے شخص سے ناجائز تعلقات تھے اور نابالغ بچہ اس کا نہیں ہے۔ اس لیے ڈی این اے کے لیے بیوی اور بچے کے خون کے نمونے لئے جائیں تاکہ حقیقت سامنے آسکے۔ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں اس شخص نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ باپ نہیں بن سکتا کیونکہ وہ ایزوسپرمیا (مردانہ بانجھ پن کی ایک شکل) کا شکار ہے۔

بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس راجیو شکدھر اور جسٹس امت بنسل کی بنچ نے شوہر کی عرضی کو مسترد کر دیا کیونکہ جب بچہ پیدا ہوا تھا تو یہ جوڑا میاں بیوی کی طرح ایک ساتھ رہ رہا تھا ۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں مانا جاتا ہے کہ یہ دونوں سال 2008 سے 2019 تک میاں بیوی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے۔ اس حقیقت کے پیش نظر ایویڈنس ایکٹ کی دفعہ 112 کے تحت نابالغ بچہ اپنے والدین کا ہی بچہ ہے۔ اپیل کنندہ/شوہر کے خلاف جو بات معنی رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے نومبر 2020 تک بچے کی ولدیت پر سوال نہیں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

بنچ نے کہا کہ کیا بیوی کسی ناجائز تعلقات میں شامل تھی، جیسا کہ شوہر نے الزام لگایا ہے، یہ ایک پہلو ہے جس کا فیصلہ سماعت کے بعد کرنا ہوگا ۔ اپنی بیوی پر یہ الزام لگاتے ہوئے شوہر نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایزوسپرمیا میں مبتلا ہے ۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ ایزوسپرمیا کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں سے کچھ قابل علاج ہیں، جب کہ دیگر معاملات میں زندہ اسپرم کو بازیافت کرنا ممکن ہے، جسے IVF جیسی معاون تولیدی ٹیکنالوجیز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لہذا عدالت نے کہا کہ یہ امکان کے دائرے میں ہے، اس کے برعکس شوہر کے دعووں کے باوجود کہ بچہ اس کی ولدیت کو جنم دیتا ہے۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ ہماری رائے میں اپیل کنندہ/شوہر کسی بھی طرح سے بچے کے مفاد کو متاثر نہیں کر سکتا، جو کہ کارروائی میں فریق نہیں ہے۔ فیملی کورٹ کو ان شواہد کو مدنظر رکھنا ہوگا جن سے دونوں فریق اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں ، جیسا کہ اپیل کنندہ/شوہر نے تجویز کیا تھا کہ مدعا علیہ/بیوی نے اپیل کنندہ/شوہر کے علاوہ کسی اور شخص کے ساتھ اپنی مرضی سے جنسی تعلق قائم کیا تھا۔ آیا مدعا علیہ/بیوی سے ناجائز تعلقات تھے یا نہیں اس کا پتہ بچے کے پیٹرنٹی ٹیسٹ کے بغیر نہیں لگایا جا سکتا۔ فیملی کورٹ کی جانب سے اس کی بیوی اور نابالغ بچے کو خون کے نمونے دینے کی ہدایت دینے کی درخواست مسترد ہونے کے بعد شوہر نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: پہلی دو بیویاں ہوگئیں فرار…شادی کی پہلی رات ایسا کیا ہوا، تیسری بیوی کو قید کردیا

یہ بھی پڑھئے: سنسنی خیز: 15 سال کی لڑکی کو نوچتے رہے درندے، دیکھتے رہے ماں باپ، پولیس بھی سکتے میں

شوہر نے اپنی بیوی کے مبینہ ناجائز تعلقات اور بچے کو ‘مہرے’ کے طور پر استعمال کرنے کے لیے خون کے نمونوں سے پیٹرنٹی ٹیسٹ (DNA) کا مطالبہ کیا تھا۔ شوہر نے 31 جنوری 2020 کو ظلم کی بنیاد پر طلاق کی درخواست دائر کی تھی۔ 3 نومبر 2020 کواس نے اپنی طلاق کی درخواست میں ترمیم کی مانگ کرتے ہوئے اپیل دائر کی اور ان پیراگراف کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا ، جو یہ ثابت کریں گے کہ وہ ایزوسپرمیا میں مبتلا ہیں۔ لہذا اس نے دلیل دی کہ مبینہ طور پر اس کی الگ رہ رہی بیوی کے ساتھ شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے پر اس کی ولدیت کا نشان نہیں تھا۔

ٹرائل کورٹ نے 3000 روپے کی لاگت جمع کرانے کی شرط پر ابتدائی ترمیم کی اجازت دی تھی۔ بعد ازاں 30 جنوری 2023 کو شوہر نے ایک اور درخواست دائر کی جس میں یہ مانگ کی گئی کہ اس کی بیوی اور بچے کو ان کے خون کے نمونے فراہم کرنے کی ہدایت دی جائے ، تاکہ نابالغ بچے کی ولدیت قائم کی جاسکے۔ فیملی کورٹ نے ایویڈنس ایکٹ کی دفعہ 112 کا حوالہ دیتے ہوئے اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ معاملے پر غور کرنے کے بعد ہائی کورٹ نے فیملی کورٹ کے حکم میں مداخلت کرنے کی کوئی وجہ نہیں پائی اور مذکورہ حکم کے خلاف شوہر کے چیلنج کو خارج کر دیا۔

روہنگیا پناہ گزیں پہنچے دہلی ہائی کورٹ، فیس بک پر لگایا نفرت پھیلانے کا الزام، جج نے کہا: آپ اپنے حساب سے…

نئی دہلی : دو روہنگیا پناہ گزینوں نے منگل کو دہلی ہائی کورٹ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے مبینہ پھیلاؤ کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی۔ درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل نے دلیل دی کہ حکومت کو مداخلت کرنی چاہئے۔ تاہم عدالت نے اس معاملے میں ‘سرکاری سنسرشپ’ کے مطالبے کے حوالے سے احتیاط کا مظاہرہ کیا۔

وکیل نے دعویٰ کیا کہ فیس بک نے اپنا کاروبار بڑھانے کے لئے ‘ایلگوریدم’ کے ذریعے نفرت انگیز بیانات کو ‘فروغ’ دیا ہے۔ حالانکہ فیس بک کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل نے اس الزام کو سختی سے مسترد کردیا۔ فیس بک کی طرف سے پیش سینئر وکیل اروند داتار نے کہا کہ فیس بک نے مرکز کے ساتھ مشاورت کے بعد اپنے پلیٹ فارم کے کسی بھی قسم کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے پہلے ہی کافی کام کیا ہے، لیکن نفرت پھیلانے والی تقریر کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں ہے۔

مفاد عامہ کی عرضی (PIL) میں، محمد حامیم اور کوثر محمد نے کہا کہ فیس بک پر ’نفرت آمیز بیانات‘ کے معاملہ میں مداخلت کرنا اور انہیں روکنا حکومت کا فرض ہے ۔ ایکٹنگ چیف جسٹس منموہن کی سربراہی میں بنچ نے کہا کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے پھیلاؤ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم عدالت نے اس معاملے پر رٹ پٹیشن دائر کرنے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے ‘سنگین الزامات’ کو ثبوت کے ذریعے ثابت کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھئے: سکما: نکسلیوں نے جوانوں پر تابڑتوڑ برسائی گولیاں، تین جوان شہید، 14 زخمی

یہ بھی پڑھئے: مین پوری سے ڈمپل یادو کو ٹکٹ، ایس پی نے لوک سبھا انتخابات کیلئے جاری کی پہلی فہرست

بنچ نے کہا کہ ’’آپ اپنے حساب سے نہیں چل سکتے۔ اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت سنسر کر سکتی ہے تو آپ کو اسے سبھی اختیارات دینے ہوں گے‘‘۔ ہائی کورٹ نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔