وزیراعظم نریندر مودی۔ فائل فوٹو ۔ پی ٹی آئی ۔

جموں و کشمیر کے لوگوں کے خوابوں کو پورا کرنے والا عدالت عظمیٰ کا فیصلہ، پرھئے وزیراعظم مودی کی خصوصی تحریر

نریندر مودی،وزیر اعظم، ہند

ہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے 11 دسمبر کو آرٹیکل 370 اور 35 (اے) کو منسوخ کیے جانے سے متعلق ایک تاریخی فیصلہ سنایا۔ اپنے اس فیصلہ کے ذریعہ عدالت عظمیٰ نے ہندوستان کی خود مختاری اور سالمیت، جو ہر ہندوستانی کو عزیز ہے، اسے برقرار رکھا ہے۔ سپریم کورٹ نے بالکل درست کہا ہے کہ 5 اگست، 2019 کو جو فیصلہ لیا گیا، اس کا مقصد آئین کو توڑنا نہیں بلکہ اسے جوڑ کر مزید مضبوط کرنا تھا۔ عدالت عظمی نے اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا کہ آرٹیکل 370 ہمیشہ کے لیے نہیں تھا، بلکہ اس کا انتظام عارضی طور پر کیا گیا تھا۔

جموں، کشمیر اور لداخ کے دلکش مناظر، پر سکون وادیاں، اور خوبصورت پہاڑ شاعروں، فنکاروں اور مہم جوئی کرنے والوں کو نسلوں سے مسحور کرتے رہے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کی عظمت کو غیر معمولی درجہ حاصل ہوتا ہے، جہاں ہمالیہ آسمان کو چھونے کی کوشش کرتا ہے، اور جہاں کی جھیلوں اور ندیوں کے پانی میں بہشت کا نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن،گزشتہ سات دہائیوں کی مدت میں ان مقامات پر تشدد اور عدم استحکام کی بدترین شکلیں دیکھنے کو ملیں، وہاں کے حیرت انگیز لوگ جس کے قطعی مستحق نہیں تھے۔

بدقسمتی سے، صدیوں کی نو آبادیات اور خاص کر اقتصادی اور ذہنی غلامی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ الجھن کا شکار بن کر رہ گیا۔ بہت ہی بنیادی چیزوں پر واضح موقف اختیار کرنے کی بجائے، ہم نے دوہرے پن کا رویہ اپنایا، جس سے الجھن پیدا ہوئی۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس قسم کی ذہنیت کا خمیازہ سب سے زیادہ جموں و کشمیر کو بھگتنا پڑا۔ ملک کی آزادی کے وقت، نئی شروعات کرنے کے لیے ہمارے پاس قومی یکجہتی کا اچھا موقع تھا۔ ہم نے اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی بجائے، الجھن کے شکار معاشرہ کے طور طریقوں کو ہی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، حالانکہ ایسا کرنا ہمارے طویل مدتی قومی مفادات کو نظر انداز کرنے جیسا تھا۔

مجھے اپنی زندگی کے ابتدائی دور سے ہی جموں و کشمیر کی تحریک سے جڑے رہنے کا موقع ملا ہے۔ میرا تعلق ایک ایسے نظریاتی ڈھانچہ سے ہے جہاں جموں و کشمیر محض سیاسی مسئلہ نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد معاشرے کی امنگوں کو پورا کرنا تھا۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نہرو کابینہ میں ایک اہم قلمدان پر فائز تھے اور وہ طویل عرصے تک حکومت میں برقرار رہ سکتے تھے۔ لیکن، انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے مسئلہ کشمیر پر کابینہ چھوڑ دی اور آگے کا مشکل راستہ اپنایا، جس کی قیمت انہیں اپنی جان سے چکانی پڑی۔ ان کی کوششوں اور قربانیوں کی وجہ سے کروڑوں ہندوستانی مسئلہ کشمیر سے جذباتی طور پر جُڑ گئے۔ برسوں بعد، اٹل جی نے سرینگر کے ایک جلسہ عام میں ’انسانیت‘، ’جمہوریت‘ اور ’کشمیریت‘ کا پیغام دیا، جو ہمیشہ سے لوگوں کے لیے ایک بڑی ترغیب کا ذریعہ رہا ہے۔

میرا ہمیشہ سے یہی ماننا رہا ہے کہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہوا، وہ ہمارے ملک اور وہاں رہنے والے لوگوں کے ساتھ ایک بڑا دھوکہ تھا۔ میری شدید خواہش تھی کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے، میں اس دھبے کو مٹانے، وہاں کے لوگوں کے ساتھ ہوئی نا انصافی کو دور کرنے کی پوری کوشش کروں۔ میں ہمیشہ سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے دکھ درد کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا چاہتا تھا۔

لیکن، میرے راستے میں آرٹیکل 370 اور 35 (اے) سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ دیوار کبھی نہیں ٹوٹے گی اور غریب اور کمزور لوگ یونہی درکھ درد کی زندگی بسر کرتے رہیں گے۔ ہندوستان کے بقیہ حصے میں رہنے والے لوگوں کو جو حقوق اور ترقی کے مواقع حاصل تھے، وہ آرٹیکل 370 اور 35 (اے) کی وجہ سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو کبھی نہیں مل پاتے تھے۔ اس آرٹیکل کی وجہ سے ایک ہی ملک میں رہنے والے لوگوں کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیا گیا تھا۔ اس فاصلہ کی وجہ سے، ہمارے ملک کے بہت سے لوگ جو جموں و کشمیر کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کرنا چاہتے تھے، انہیں اس کا موقع نہیں مل پا رہا تھا، حالانکہ وہ وہاں کے لوگوں کے دکھ درد کو شدت سے محسوس کرتے تھے۔

ایک ایسے ’کاریہ کرتا‘ (کارکن) کے طور پر جس نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اس مسئلے کو قریب سے دیکھا ہے، میں نے اس مسئلے کی تفصیلات اور پیچیدگیوں کی باریک بینی سے سمجھ حاصل کی۔ میرے ذہن میں یہ بات بالکل واضح تھی کہ جموں و کشمیر کے لوگ ترقی چاہتے ہیں اور وہ اپنی طاقت اور مہارت کی بنیاد پر ہندوستان کی ترقی میں تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، انہیں ایک ایسی زندگی دینا چاہتے ہیں جو تشدد اور غیر یقینی صورتحال سے پاک ہو۔

لہٰذا، جموں و کشمیر کے لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے، ہم نے تین بنیادی چیزوں پر توجہ دی – شہریوں کے تشویشات کو سمجھنا، معاون اقدامات کے ذریعے اعتماد پیدا کرنا، اور ترقی، ترقی اور مزید ترقی کو ترجیح دینا۔

سال 2014 میں، اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد، جموں و کشمیر میں خطرناک سیلاب آ گیا، جس کی وجہ سے وادی کشمیر میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے، میں نے ستمبر 2014 میں سرینگر کا دورہ کیا اور باز آبادکاری کے لیے خصوصی مدد کے طور پر 1000 کروڑ روپے کا اعلان بھی کیا، جو اس بات کا اشارہ تھا کہ ہماری حکومت مشکل میں پھنسے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہے۔ مجھے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ان سے بات چیت کے دوران ایک چیز جو کھل کر سامنے آئی، وہ یہ تھی کہ وہاں کے لوگ نہ صرف ترقی چاہتے تھے، بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے وہاں بڑے پیمانے پر جاری بدعنوانی سے بھی نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اُسی سال، میں نے جموں و کشمیر میں جن لوگوں کی جانیں گئی تھیں اُن کی یاد میں دیوالی نہیں منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ساتھ ہی، میں نے دیوالی کے دن جموں و کشمیر میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

جموں و کشمیر کے ترقی کے سفر کو مزید مستحکم کرنے کے لیے، ہم نے فیصلہ کیا کہ ہماری حکومت کے وزراء اکثر وہاں جائیں گے اور لوگوں سے براہ راست بات چیت کریں گے۔ ان متواتر دوروں نے جموں و کشمیر میں خیر سگالی کا ماحول پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ مئی 2014 سے مارچ 2019 تک، ان وزراء نے وہاں کے 150 سے زیادہ دورے کیے۔ یہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ سال 2015 میں دیا جانے والا خصوصی پیکیج، جموں و کشمیر کی ترقی سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے میں ایک اہم قدم تھا۔ اس میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، سیاحت کے فروغ اور دستکاری کی صنعت کو مدد فراہم کرنے کے اقدامات شامل تھے۔

ہم نے جموں و کشمیر میں کھیلوں کی طاقت کا استعمال کیا، اس کے ذریعے نوجوانوں کے خوابوں کو پورا کرنے کی صلاحیت کو تسلیم کیا۔ ہم نے دیکھا کہ کھیل کود کے پروگراموں سے نوجوانوں کی زندگی میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں، اس کی مدد سے وہ اپنی آرزوؤں کو پورا کرنے اور مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کھیل کود کے میدانوں کو بہتر کیا گیا، تربیتی پروگرام چلائے گئے اور کوچ دستیاب کرائے گئے۔ مقامی فٹ بال کلب بنانے کی حوصلہ افزائی کرنا اُن میں سب سے منفرد چیز رہی۔ ہمیں اس کے بہت شاندار نتیجے دیکھنے کو ملے۔ با صلاحیت فٹ بال کھلاڑی افشاں عاشق کا نام میرے ذہن میں آتا ہے، جو دسمبر 2014 میں سرینگر میں پتھر بازی کرنے والے ایک گروپ کا حصہ ہوا کرتی تھی، لیکن صحیح رہنمائی کی وجہ سے اس نے فٹ بال کا کیا، اسے ٹریننگ کے لیے بھیجا گیا، اور اس طرح اس نے اس کھیل میں مہارت حاصل کر لی۔ ایک ’فٹ انڈیا ڈائیلاگ‘کے دوران مجھے اس کے ساتھ ہوئی بات چیت یاد ہے، جہاں میں نے کہا تھا کہ ’بینڈ اِٹ لائک بیکھم‘ (‘Bend it like Beckham’)کا زمانہ گزر گیا، کیوں کہ اب’ایس اِٹ لائک افشاں‘ (‘Ace it like Afshan’) کا وقت ہے۔ دوسرے نوجوانوں نے بھی کک باکسنگ، کراٹے وغیرہ میں اپنے کمال دکھانے شروع کر دیے۔

پنچایتی انتخابات بھی خطے کی ہمہ جہت ترقی کی جانب ایک بڑا قدم تھا۔ ایک بار پھر، ہمیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا ہمیں اقتدار میں رہنا ہےیا اپنے اصولوں پر۔

یہ فیصلہ کرنا کبھی بھی مشکل نہیں تھا۔ ہم نے حکومت کو چھوڑ دیا اور اس بات کو ترجیح دی کہ ہم جموں و کشمیر کے لوگوں کی امنگوں اور ان اصولوں کے لیے کھڑے ہوں۔ پنچایتی انتخابات کی کامیابی نے جموں و کشمیر کے لوگوں کی جمہوری فطرت کی نشاندہی کی۔ میرا ذہن گاؤں کے پردھانوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی طرف گیا۔ دیگر مسائل کے علاوہ، میں نے ان سے ایک درخواست کی کہ کسی بھی موقع پر اسکولوں کو جلایا نہیں جانا چاہیے اور اس بات کو ضرور یقینی بنایا جانا چاہیے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس پر عمل کیا گیا۔ ظاہر ہے، اگر سکولوں کو جلایا جاتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان چھوٹے بچوں کا ہوتا ہے۔

5 اگست کا تاریخی دن ہر ہندوستانی کے دل و دماغ پر نقش ہے۔ ہماری پارلیمنٹ نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت سے جموں، کشمیر اور لداخ میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ عدالت کا فیصلہ دسمبر 2023 میں آیا لیکن جموں، کشمیر اور لداخ میں ترقی کی لہر کو دیکھتے ہوئے، عوام کی عدالت نے آرٹیکل 370 اور 35(اے) کو ختم کرنے کے پارلیمنٹ کے فیصلے کی زبردست حمایت کی ہے۔

سیاسی سطح پر، پچھلے 4 سالوں کو زمینی سطح پر جمہوریت میں ایک نئے اعتماد کے ساتھ نشان زد کیا ہے۔ خواتین، قبائلییوں، ایس سی، ایس ٹی اور سماج کے پسماندہ طبقات کو ان کا حق نہیں مل رہا تھا۔ وہیں لداخ کی خواہشوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ 5 اگست 2019 نے سب کچھ بدل دیا۔ تمام مرکزی قوانین اب بغیر کسی خوف اور حمایت کے لاگو ہوتے ہیں، نمائندگی بھی زیادہ وسیع ہو گئی ہے- تین سطحی پنچایتی راج نظام نافذ ہے، بی ڈی سی انتخابات ہو چکے ہیں، اور پناہ گزین کمیونٹیز جنہیں یکسر بھلا دیا گیا تھا، انھوں نے ترقی کے ثمرات سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیا ہے۔

مرکزی حکومت کی کلیدی اسکیم نے سیرابی کی سطح حاصل کر لی ہے، اس طرح معاشرے کے تمام طبقات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان میں سوبھاگیہ، اور اجولا اسکیمیں شامل ہیں۔ مکان، نل سے پانی کے کنکشن اور مالی شمولیت میں پیش رفت ہوئی ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں، جو بصورت دیگر لوگوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، بنیادی ڈھانچے کی تجدید کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ تمام دیہاتوں نے او ڈی ایف پلس کے اعدادوشمار حاصل کیے ہیں۔ سرکاری آسامیاں جو کہ بدعنوانی اور جانبداری کی آماجگاہ تھیں، انہیں شفاف اور غیر جانبدار طریقے سے پُر کیا گیا ہے۔ آئی ایم آر جیسے دیگر اشاریے میں بہتری دیکھی گئی ہے۔ انفراسٹرکچر اور سیاحت کا فروغ ہر کسی کے لیے دیکھنے کو ملا ہے۔ اس کا سہرا فطری طور پر جموں و کشمیر کے لوگوں کو جاتا ہے، جنہوں نے بار بار دکھایا ہے کہ وہ صرف ترقی چاہتے ہیں اور اس مثبت تبدیلی کے محرک بننے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے قبل جموں، کشمیر اور لداخ کی حیثیت پر ایک سوالیہ نشان لگا ہوا تھا۔ اب ریکارڈ نشو و نما، ریکارڈ ترقی، ریکارڈ سیاحوں کی آمد کے بارے میں صرف حیرت کے نشانات ہیں۔

11 دسمبر کو اپنے فیصلے میں، سپریم کورٹ نے ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘  کے جذبے کو مضبوط کیا ہے – اس نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ جس چیز سے ہماری شناخت ہوتی ہے وہ اتحاد کے بندھن اور اچھی حکمرانی کے لیے ہمارا مشترکہ عزم ہے۔ آج، جموں، کشمیر اور لداخ میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک صاف ستھرا کینوس لے کر پیدا ہوتا ہے، جہاں وہ متحرک امنگوں سے بھرے مستقبل کو رنگ سکتا ہے۔ آج عوام کے خواب ماضی کے قیدی نہیں بلکہ مستقبل کے امکانات ہیں۔ آخر کار وہم، مایوسی اور نا امیدی کی جگہ ترقی، جمہوریت اور وقار نے لے لی ہے۔