اسرائیل حماس جنگ: حماس نے اب 17یرغمالیوں کوکیارہا، اسرائیل پر جنگ بندی کےشرائط پرعمل نہ کرنےکاالزام

غزہ۔ اسرائیل حماس جنگ میں جنگ بندی کے درمیان قطر اور مصر کی ثالثی کے بعد ۱13اسرائیلی اور چار تھائی یرغمالویوں کو گھنٹوں کی تاخیر کے بعد رہا کر دیا گیا۔ حماس نے سات گھنٹے کی تاخیر کے بعد 13 اسرائیلی شہریوں 4تھائی شہریوں کو انٹرنیشنل ریڈ کراس سوسائٹی (آئی سی آر سی) کے حوالے کر دیا۔ حماس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے جنگ بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے۔ تاہم اسرائیل حماس جنگ میں جنگ بندی کے دوسرے روز ہفتہ کو قطر اور مصر کی ثالثی کے بعد تعطل دور ہو گیا۔ اب توقع ہے کہ اسرائیل اپنی جیلوں سے 39 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔

قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے X پر ایک پوسٹ میں کہا کہ 13 اسرائیلی اور چار غیر ملکی شہریوں کو آئی سی آر سی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی طبی معائنے کے بعد ان یرغمالیوں کو جنوبی اسرائیل کے ایک ایئربیس پر لے جایا گیا۔ جہاں سے انہیں اضافی طبی اور نفسیاتی معائنے کے لیے تل ابیب مختلف اسپتالوں میں لے جایا جائے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق اسرائیلی حراست میں لیے گئے افراد میں چھ بالغ خواتین اور سات بچے اور نوعمر شامل ہیں۔ یرغمالیوں کو 50 دن قید میں گزارنے کے بعد رہا کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں :

یرغمالیوں کو حوالے کرنے میں تاخیر کی وجہ

حماس کے ترجمان اسامہ حمدان نے پہلے کہا تھا کہ اسرائیل نے وعدے سے کم امدادی تقسیم کی منظوری دی ہے اور امداد شمالی غزہ تک نہیں پہنچ رہی ہے۔ حمدان نے بیروت سے کہا کہ جمعے سے غزہ میں داخل ہونے والے 340 امدادی ٹرکوں میں سے صرف 65 شمالی غزہ تک پہنچے ہیں، جو اسرائیل کی رضامندی کے نصف سے بھی کم ہے۔ جبکہ اسرائیل نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں 50 ٹرک خوراک، پانی، پناہ گاہوں کا سامان اور طبی سامان شمالی غزہ بھیجے گئے ہیں۔ سات ہفتے قبل جنگ شروع ہونے کے بعد جو وہاں امداد کی پہلی اہم ترسیل ہے۔

حماس کے مسلح ونگ، قسام بریگیڈز نے پہلے کہا تھا کہ اسرائیل فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط کا احترام کرنے میں ناکام رہا ہے۔ قیدیوں کے لیے فلسطینی کمشنر کدورا فاریس نے کہا کہ اسرائیل نے سنیارٹی کی بنیاد پر قیدیوں کو رہا نہیں کیا، جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی۔ جبکہ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری نے کہا کہ حکومت حماس کے ساتھ جنگ ​​بندی معاہدے کی پاسداری کے لیے پرعزم ہے لیکن اس میں کئی فریق اور عوامل شامل ہیں۔