بتایا جا رہا ہے کہ ایران کے نیم فوجی دستے پاسداران انقلاب کے کمانڈوز ہفتے کے روز آبنائے ہرمز کے قریب ہیلی کاپٹر کی مدد سے ایک مال بردار جہاز پر اترے اور اسے قبضے میں لے لیا۔

17 ہندوستانیوں کی رہائی کیلئے ایران کے رابطے میں ہندوستان، پاسداران انقلاب کے کمانڈوز نے ایسے کیا تھا جہاز پر قبضہ

نئی دہلی: ایران کی فوج کے ذریعہ ضبط کئے گئے اسرائیل سے تعلق رکھنے والے ایک مال بردار جہاز پر 17 ہندوستانی شہری سوار ہیں ۔ سرکاری ذرائع نے یہ اطلاع دی ہے۔ یہ پیش رفت ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں ہوئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ہندوستان اپنے شہریوں کی حفاظت اور جلد از جلد رہائی کو یقینی بنانے کے لئے سفارتی ذرائع سے تہران اور نئی دہلی دونوں مقامات پر ایرانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔

ایران نے بحری جہاز کو قبضے میں لینے کا قدم اس اندیشہ کے بڑھنے کے درمیان اٹھایا کہ تہران 12 روز پہلے شام میں ایرانی قونصلیٹ پر ہوئے حملے کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیلی علاقے پر حملہ کر سکتا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ مال بردار جہاز ایم ایس سی ایریز ایران نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ جہاز پر 17 ہندوستانی شہری سوار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم تہران اور دہلی دونوں میں سفارتی چینلز کے ذریعے ایرانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ ہندوستانی شہریوں کی حفاظت اور جلد از جلد رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کے نیم فوجی دستے پاسداران انقلاب نے ہفتے کی صبح جہاز کو اس وقت ضبط کر لیا جب وہ آبنائے ہرمز سے گزر رہا تھا۔

بتایا جا رہا ہے کہ ایران کے نیم فوجی دستے پاسداران انقلاب کے کمانڈوز ہفتے کے روز آبنائے ہرمز کے قریب ہیلی کاپٹر کی مدد سے ایک مال بردار جہاز پر اترے اور اسے قبضے میں لے لیا۔ اسرائیل کے ایک ارب پتی کاروباری سے تعلق رکھنے والے اس جہاز پر عملے کے 25 ارکان میں 17 ہندوستانی ہیں۔

مشرق وسطیٰ کو اس ماہ کے شروع میں شام میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر مشتبہ اسرائیلی حملے پر ایرانی جوابی کارروائی کے خطرے کا سامنا ہے۔ اس حملے میں پاسداران انقلاب کے ایک سینئر افسر سمیت 12 افراد کی موت ہوگئی تھی ۔ غزہ پٹی میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ چھٹے مہینے میں داخل ہو گئی ہے اور پورے خطے میں دہائیوں پرانی کشیدگی کو مزید گہرا کر رہا ہے۔

لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ اور یمن میں حوثی باغی بھی لڑائی میں شامل ہیں۔ اب کوئی بھی نیا حملہ تنازع کا دائرہ وسیع کر کے اسے ایک وسیع علاقائی جنگ میں تبدیل کر دے گا۔