Tag Archives: United States of America

َLife in America: امریکہ میں قیام کیلئے قانونی حیثیت کو کس طرح برقرار رکھا جائے؟ جانیے تفصیلات

نتاشا ملاس

امریکہ میں تعلیم حاصل کرنا بین الاقوامی طلبہ کے لیے ایک مختلف ثقافت کے ساتھ گھلنے ملنے اور سیکھنے کے انمول تجربات حاصل کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔۲۰۲۱ء کی اوپن ڈورس رپورٹ کے مطابق، امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ۲۰۲۱۔۲۰۲۰ تعلیمی سال کے دوران نو لاکھ سے زیادہ بین الاقوامی طلبہ نے داخلہ لیا، جو ان اداروں میں طلبہ کی مجموعی آبادی کے ۴ اعشاریہ ۶ فی صد کی نمائندگی کرتا ہے۔۱۶۷۵۸۲ طلبہ کے ساتھ بھارتی طلبہ اس تعداد کا تقریباً ۲۰ فی صد تھے۔

امریکہ کے کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں حصول تعلیم کے لیے قبول کیے گئے طلبہ کو عام طور پر ایف ون ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ انہیں جے ون یا ایم ون ویزا بھی جاری کیا جاتا ہے مگر ایسا عام طور پر نہیں ہوتا ہے۔ ان ویزوں کا اجرا طلبہ کو کسی یونیورسیٹی، کالج یا پیشہ وارانہ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے امریکہ میں قانونی طور پر موجود ہونے کااہل بناتا ہے۔

پاسپورٹ اور ویزا کے ساتھ امریکہ پہنچنےوالے بین الاقوامی طلبہ کو ۱۰ دن کے اندر اپنے تعلیمی ادارے کے بین الاقوامی طلبہ صلاح کاروں یعنی متعینہ اسکول اہلکار (ڈی ایس او ) کو رپورٹ کرنا ہوگا۔ اس کے بعد سےان کی پڑھائی کے دوران قانونی حیثیت کو برقرار رکھنا کافی آسان ہے۔ تاہم، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ضروری تقاضے پورے کیے جائیں۔


خلاف ورزیوں سے بچنا:

نئی دہلی کے امریکی سفارت خانے میں کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن (سی بی پی ) اتاشی آفس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے’’ امریکہ میں حصول تعلیم کا پروگرام ایک ایسا موقع ہے جس کا مقصد طالب علم کو ایک بھرپور اور فائدہ مند تجربہ فراہم کرنا ہے۔اس کے علاوہ اس کا مقصد طالب علم کو ایک امریکی یونیورسٹی کی طرف سے جاری شدہ ڈگری بھی فراہم کرنا ہے جو ایک بہتر حصولیابی کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ پروگرام امریکہ میں حصول تعلیم کی سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ ان تمام طلبہ کے لیےآموزش، ثقافتی اور سماجی پیشکشوں کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جو پروگرام کے ارادے اور قواعد کی پابندی کرتے ہیں۔ طلبہ کو پروگرام کے رہنما خطوط اور ضوابط پر عمل کرنے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ محرک کی پروا کیے بغیر پروگرام سے باہر کام کرنے کا خطرہ ایک مستقل ترغیبی عمل بنا رہتا ہے۔ مگرطلبہ کو سختی سے مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ پروگراموں اور ان کو جاری کیے گئے ویزے کی شرائط پر عمل پیرا رہیں کیونکہ ان شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر عائد ہونے والے جرمانے مستقبل کے ویزوں اور امریکہ جانےکے مواقع کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔‘‘

قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے اہم عناصر میں سے ایک تعلیم کے مکمل کورس میں داخلہ لینا اور ڈگری کی تکمیل کی طرف پیش رفت کرنا ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی طالب علم کی حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سینٹر فار گلوبل انگیجمنٹ کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کرسٹن ہیگن کے مطابق طلبہ اپنی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے میں اس وقت ناکام رہتے ہیں جب وہ اپنے بین الاقوامی طلبہ صلاح کار سے پیشگی اجازت حاصل کیے بغیر تعلیم کے مکمل کورس میں داخلہ نہیں لیتے ہیں۔ طلبہ کا کلاسوں میں داخلہ ہونا ضروری ہے یا حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے کلاسوں میں داخلہ نہ لینے کی پیشگی اجازت ہونی چاہیے۔اس سے فرار کی اجازت صرف سالانہ تعطیل کے دوران ہی ہے ۔


سی بی پی اتاشی آفس کا کہنا ہے کہ اس کے خیال میں ’’ ایک بین الاقوامی طالب علم کی زندگی، رہنے کی صورت حال ، امریکی ثقافت، زبان (اگرچہ یہ اب بھی انگریزی ہی ہو سکتی ہے)، خاندان اور گھر سے بہت دور ہونے کی وجہ سے درپیش چیلنجوں کے ساتھ مشکل ہو سکتی ہے۔‘‘ اگر طلبہ کو اپنی پڑھائی میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اپنے بین الاقوامی طلبہ صلاح کار سے اجازت لے کر کورس کے بوجھ میں کمی کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ہیگن کہتی ہیں ’’بین الاقوامی طلبہ صلاح کار اس وقت کورس کے بوجھ کو کم کرنے کی اجازت دے سکتا ہے جب کسی طالب علم کے پاس ایک دستاویزی ثبوت ہو کہ اسے طبی بنیاد پر کورس میں تخفیف درکار ہےیا جب کسی طالب علم کو انگریزی زبان میں تعلیم جاری رکھنے میں ابتدائی طور پر مشکلات درپیش ہوں، یا وہ امریکہ میں تدریسی طریقوں سے ناواقف ہو یا اسے کورس کی سطح اپنی علمی سطح سے زیادہ نظر آرہی ہو۔‘‘

وہ گریڈکو بہت نیچے گرنے سے بچانے کا مشورہ بھی دیتی ہیں، کیونکہ اس سے طالب علم کی قانونی حیثیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں’’ اگر کسی طالب علم کے گریڈ بہت کم ہیں تو اسے پروگرام سے برخاست کیا جا سکتا ہے اور اسے جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جس سے قانونی حیثیت کا خسارہ ہوتا ہے۔‘‘

طلبہ کو ایف ون ویزا پر کیمپس میں ہفتے میں ۲۰ گھنٹوں تک اور چھٹیوں اور تعطیلات کے دوران مزید کام کرنے کی اجازت ہے۔ اگر کوئی طالب علم کیمپس میں ۲۰ گھنٹے سے زیادہ کام کرتا ہےیا اپنے بین الاقوامی طلبہ کے صلاح کار کی پیشگی اجازت کے بغیر کیمپس سے باہر کام میں مصروف رہتا ہے تو وہ اپنی قانونی حیثیت کی سنگین خلاف ورزی کرتا ہے۔ سی بی پی اتاشی آفس کے مطابق’’ جرمانوں میں ویزا کی منسوخی اور یہاں تک کہ امریکہ سے رخصتی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ خلاف ورزیوں کی صورت میں ایک ایسا طالب علم جس پر جرمانہ عائد کیا گیا ہو وہ بعد میں دوبارہ امریکہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ تمام صورتوں میں، اور یقینی طور پر اگر طالب علم کو امریکہ میں کام کرنے کے بارے میں کوئی سوال یا شبہ ہے تو طالب علم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ متعینہ اسکول کے اہلکار سے صلاح ومشورہ کرے۔‘‘
اپنے قیام میں توسیع:

اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایف ون ویزا پر طلبہ ۶۰ دنوں تک اور جے ون اور ایم ون کے طلبہ ۳۰ دنوں تک قانونی طور پر امریکہ میں رہ سکتے ہیں۔ تاہم، کئی دیگرطریقوں سے گریجویشن کے بعد امریکہ میں اپنے قیام کی توسیع کرنا ممکن ہے۔

ایف ون ویزا پر طلبہ گریجویشن کے بعد اختیاری عملی تربیت (او پی ٹی ) کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ہیگن کہتی ہیں ’’ جو طلبہ اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں وہ او پی ٹی کے ذریعے اپنی تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کے لیے ۱۲ ماہ تک ملازمت کی اجازت کے لیے امریکہ کی شہریت اور امیگریشن سروسز (یو ایس سی آئی ایس )میں درخواست دے سکتے ہیں۔‘‘

او پی ٹی کے لیے درخواست دیتے وقت طلبہ کو اپنی درخواستیں وقت پر جمع کرانی چاہئیں۔ ہیگن کہتی ہیں ’’ یو ایس سی آئی ایس میں ۶۰ دن کی رعایتی مدت کے اختتام سے قبل درخواست جمع ہو جانی چاہیے ۔ وہ مزید کہتی ہیں ’’ طلبہ کو بین الاقوامی طلبہ کے صلاح کارکی سفارش کے بغیر او پی ٹی کے لیے درخواست جمع کرنے اور ایسے کام میں مشغول ہونے سے جو طالب علم کے تعلیمی پروگرام سے متعلق نہ ہو، بے روزگاری کے منظور شدہ دنوں سے زیادہ، یو ایس سی آئی ایس کی طرف سے جاری کردہ روزگار کی اجازت سے متعلق دستاویز ( اے اے ڈی) کے مطابق تاریخوں سے پہلے یا بعد میں کام کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘

طلبہ او پی ٹی کے علاوہ یا او پی ٹی کے بعد بھی دوسری ڈگری کے لیے اندراج کر کے یا ملازمت کے لیے درخواست دے کر امریکہ میں اپنی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ سی بی پی اتاشی آفس کی وضاحت کے مطابق ’’کچھ حالات ایک طالب علم کو امریکہ میں اپنے قیام کی توسیع کی اجازت دیتے ہیں اور ان حالات میں عام طور پر دوسرے اسکول میں منتقلی، تعلیمی سطح میں تبدیلی جیسے کہ اعلیٰ ڈگری حاصل کرنا یا ایف ون یا ایم ون اسٹیٹس سے کسی دیگر ویزا درجہ بندی کے اسٹیٹس میں تبدیلی کے لیے درخواست دینا شامل ہے۔ مثال کے طور پر، ایچ۔وَن بی ( عارضی کارکن)، او (سائنس، آرٹ یا کاروبار میں غیر معمولی صلاحیت)، یا پی (ایتھلیٹ)۔ایک طالب علم جو امریکہ میں اپنے قیام کی توسیع کا خواہاں ہے، اس کے لیے پرزور سفارش کی جاتی ہے کہ وہ متعینہ اسکول اہلکار سے صلاح ومشورہ کرے تاکہ تعلیم کے ابتدائی پروگرام کی تکمیل کے بعد امریکہ میں قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے ممکنہ مواقع اور مطلوبہ اقدامات کے بارے میں وہ مزید معلومات حاصل کر سکے۔‘‘


سپورٹ سسٹم:

امریکہ کے کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں آپ کی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کا کلیدی عنصر آپ کا بین الاقوامی طلبہ صلاح کار کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ہے۔ ہیگن کہتی ہیں ’’یہ صلاح کار (متعینہ اسکول اہلکار)آئی ۲۰ ویزاجاری کر سکتے ہیں اور فیڈرل اسٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزیٹر انفارمیشن سسٹم (ایس ای وی آئی ایس ) ڈیٹا بیس میں طالب علم کے امیگریشن ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ صلاح کار بین الاقوامی طلبہ کو ان اہم ضوابط کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں جو ان کے ایف ون غیر تارک وطن حیثیت کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور وہ طلبہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ ان کے ایف ون اسٹیٹس کے فوائد سے کیسے فیضیاب ہوا جائے۔‘‘


بین الاقوامی طلبہ برادری کے اندر دستیاب مواقع کا استعمال بھی انتہائی ضروری مدد فراہم کر سکتا ہے۔ ہیگن کہتی ہیں ’’ہمارا سینٹر فار گلوبل انگیجمنٹ تمام طلبہ کے لیے سال بھر مختلف قسم کے تعلیمی، سماجی اور ثقافتی پروگرام فراہم کرتا ہے۔‘‘

اس طرح کا مددگار نظام پیدا ہونے والی کسی بھی پیچیدگی سے نبردآزما ہونے میں واقعی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ ہیگن وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ ہمارے بین الاقوامی طلبہ صلاح کار اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں کہ بین الاقوامی طلبہ ایف ون اسٹوڈنٹ امیگریشن کے ضوابط کو سمجھیں، لہٰذا طلبہ امریکہ میں رہتے ہوئے قانونی حیثیت کو برقرار رکھیں۔ہم ایک آن لائن امیگریشن ماڈیول پیش کرتے ہیں، ہم اورنٹیشن کے دوران امیگریشن کے ضوابط پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور ہم اپنے کیس مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے بھیجے گئے ای میل، نیوز لیٹر اور خودکار انتباہات کے ذریعے طلبہ کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔‘‘ اس طرح کی مدد اور مواقع کے ساتھ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا تعلیم اور مہم جوئی کے لیے ایک دلچسپ راستہ ہو سکتا ہے۔

نتاشا ملاس نیویارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔

https://bit.ly/3OjFlEm

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ ، نئی دہلی

Education during covid-19: کووڈ۔19کےدوران امریکہ میں تعلیم، مابعدکوروناکیسےہوگاتعلیمی نظام؟

ہلیری ہوپیک

بیرون ممالک تعلیم حاصل کر رہے بین الاقوامی طلبہ کو کووِڈ۔۱۹ عالمی وبا کی وجہ سے۲۰۲۰ء کے اوائل میں مختلف النوع مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ۔ عالمی وباکی وجہ سے بیشتر یونیورسٹیوں نے باالمشافہ تدریس اور آپسی میل جول کو ترک کرکے مجازی تعلیم کا متبادل اختیار کیا۔ جیسے جیسے وبا نے شدت اختیار کی ویسے ویسے جامعات نے بھی اپنے داخلے کے نظام اور بین الاقوامی سفرکے تقاضوں میں تبدیلی کی۔مگر یونیورسٹیوں نے بہر کیف طلبہ کے ساتھ ملک کر کام کیا اور اس امر کو یقینی بنایا کہ داخلے بلا توقف جاری رہیں ، نصابی تقاضے بھی پورے ہوتے رہیں اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد طلبہ کو ملازمت کی تلاش میں مدد بھی دستیاب رہے۔ عالمی وبا کے دوران طلبہ نے اپنی تعلیم کو کس طرح جاری رکھا ، اس سلسلے میں چار بھارتی طلبہ نے اسپَین کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کیے۔ ان میں حالات سے سمجھوتہ کرنے اور نا موافق حالات سے ابھرنے کے لیے لچیلے پن کا مظاہرہ کرنے کا بھی ذکر ہے۔

ورچوئیل تعلیم سے مطابقت:

کُسُما ناگراج نے بھارت میں کئی سال بحیثیت خاندانی وکیل کام کیا۔ انہوں نے عالمی وبا کے سبب آغاز میں اپنےاعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کو ملتوی کردیا تھا۔ ناگراج نے بالآخر ڈیوس میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ۲۰۲۱ ءمیں ماسٹر آف لا میں داخلہ لیا۔ انہوں نے مجازی کلاسیزکے سبب کچھ وقت بینگالورو میں اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارا۔ وہ بتاتی ہیں ’’ میں نے اپنی ماسٹرس کی پڑھائی کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا کیونکہ بھارت سے امریکہ جانے کے لیے سفری اور ویزا کی پابندیاں تھیں۔ گو کہ شروعاتی دور کی میری بعض کلاسیز چھوٹ گئیں لیکن چونکہ وہ ریکارڈ تھیں اس لیے میں ان کو دوبارہ دیکھ پائی۔‘‘


پرتھم جادھو نے ریان انٹرنیشنل اسکول اورممبئی کے سینٹ اینڈریوز کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ۲۰۲۰ ءمیں آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی(آئی ایس یو) میں بزنس انالٹکس انڈرگریجویٹ پروگرام میں داخلہ لیا۔ ضرورت کے مطابق ان کی کلاسیز باالمشافہ اور مجازی دونوں ہی طرح ہوئیں۔مگر ان میں سماجی دوری اور ماسک کی سخت پابندیاں عائد تھیں۔وہ وضاحت کرتے ہیں’’ حالاں کہ یونیورسٹی نے کلاس روم میں حفاظتی تقاضوں کے تحت پچاس فی صد کا اصول بنا رکھا تھا ، لہٰذا جادھو اور بہت سے دیگر طلبہ کو نئے مجازی تعلیمی ماحول میں خود کو ڈھالنے میں کافی دقت پیش آئی۔ مجھے ایک ہی کورس پڑھنے والے طلبہ سے دوستی کرنے میں کچھ وقت ضرور لگا مگر پروفیسر حضرات اور تدریسی معاونین سے گفتگو میں کوئی دقت پیش نہیں آئی کیوں کہ میں ان سےآن لائن یا لائبریری اسٹڈی روم میں اشتراک یا ملاقات کر سکتا تھا۔ ‘‘

عالمی وبا کےمخصوص حالات کے دوران اسکول اور جامعات نے لچیلے پن کی اہمیت کو ملحوظ رکھا۔ جادھو ہی کی طرح شِونا سکسینہ کو بھی مجازی کلاسیز میں شرکت کرنے میں شروعاتی دور میں کافی دقت پیش آئی۔ انہوں نے۲۰۲۱ ءمیں مرکزی واشنگٹن یونیورسٹی میں صحت عامہ کا پروگرام شروع کیا۔ وہ بتاتی ہیں ’’ مجازی کلاس روم کا تجربہ نیا تھا۔ لیکن تمام تر تکنیکی ترقی اور زوم جیسے شاندار پلیٹ فارم کی بدولت پڑھائی میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ میرے پروفیسر حضرات نے بحث اور پاور پوائنٹ کے لیے مخصوص بریک آؤٹ رومس کے ذریعہ اپنے اپنے لیکچر دیے۔ یہ میرے لیے واقعی بہت سود مند ثابت ہوئے۔ جب بھی مجھے اپنے کورس ورک کو لے کر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو میں جھٹ اپنے پروفیسروںکو ای میل کرتی اور مجھے بر وقت اس کا جواب موصول ہوجاتا۔ ایک اور اچھی بات یہ رہی کہ اساتذہ نے ہمیں اسائنمنٹ لکھنے کے لیے ’ورکنگ گروپ ‘میں تقسیم کردیا تھا۔ اس سے میرے اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ تعلقات قوی ہوئے اور ہم نے ایک دوسرے سے سیکھا بھی۔‘‘


ناموافق حالات میں لچیلے پن کا مظاہرہ:

سونل سوزین ساؤتھ فلوریڈا یونیورسٹی میں سیل اینڈ مالیکیولر بایو لوجی میں بیچلر ڈگری کی تعلیم حاصل کررہی تھیں جب ۲۰۲۰ ءمیں امریکہ میں لاک ڈاؤن لگا دیا گیا۔ اس کے بار ے میں وہ بتاتی ہیں ’’ خوش قسمتی سے پروفیسر اور تدریسی معاونین کورس ورک اور ڈید لائن کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتے رہے جو اس وبائی صورت حال میں موزوں بھی تھا۔‘‘

داخلوں میں خلل کے باوجود یونیورسٹیاں مسلسل اس امر کو یقینی بناتی رہیں کہ کلاسیز وقت مقررہ پر ہوتے رہیں اور نئے مجازی تعلیمی نظام کو لے کر طلبہ مطمئن رہیں۔ سوزین بتاتی ہیں ’’یونیورسٹی انتظامیہ مستقل اختراع پردازی کرتی رہی تاکہ ہمارے سیکھنے کے تجربے میں ہم برابر شریک ہوتے رہیں۔ مثال کے طور پر جینیاتی تجربہ گاہ میں ہم نے آن لائن نمونے تیار کیے اور ہماری آرگینک کیمسٹری کی کلاس میں ہم نے ایپ پر کھیل کھیلے جن میں ہم نے مختلف سالمات بنانے کےلیے بانڈ بنائے بھی اور توڑے بھی۔‘‘

طلبہ پر دوہرا اثر پڑا کیونکہ انہیں اپنی ذاتی حفاظت کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ پردیس میں غیر یقینی صورت حال سے بھی نمٹنا تھا۔ انہوں نے وہ سب کچھ کیا جو انہیں خود کو مصروف رکھنے کے لیے کرنا چاہیے تھا۔ ناگراج نے ازخود اقدام اٹھاتے ہوئے عالمی وبا کی پابندیوں پر قابو پانے کی کوشش کی ۔ وہ بتاتے ہیں’’گھر پہ اپنی تخلیقی صلاحیت پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے میں نے خود کو یوگ جیسی چیزوں میں لگایا ۔ میں نے کھانا بھی پکایا اور بیکنگ بھی کی۔ میں اپنے ساتھیوں سے رابطے میں رہا کیوں کہ ہمارے پروگرام میں اس کا التزام تھا کہ مجازی پروگراموں میں طلبہ کھیل کھیلیں ، گانے گائیں اور ملاقاتوں کا سلسلہ دراز کریں۔ بعد میں جب میں امریکہ جا پایا تو ہم نے سماجی دوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ملاقاتیں کیں۔‘‘


سکسینہ کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ نفسیاتی، جسمانی اور ماحولیاتی عناصر زندگی کے معیار پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اسی لیے انہوں نے اپنی یونیورسٹی میں کلب اور تدریسی تقریبات میں شرکت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔وہ بتاتی ہیں ’’میں شکر گزار ہوں بین الاقوامی پروگرام مشیروں کی شاندار ٹیم اور ماسٹر آف پبلک ہیلتھ کے اساتذہ کی جن کی بدولت میرا مجموعی تعلیمی تجربہ کافی مثبت رہا۔‘‘سوزین بھی کیمپس میں ہونے والی تقریبات میں کافی فعال تھیں۔ کبھی وہ کالج میں ہونے کھیلوں میں حکم کا کردار نبھاتیں تو کبھی اَیتھلیٹکس کے طلبہ کو سکھایا کرتیں۔ وہ یونیورسٹی آف فلوریڈا میں بھارتی طلبہ ایسو سی ایشن کی صدر بھی رہیں۔

یہ بھی پڑھیں :

1) Education in USA:امریکہ میں تعلیم کے لیےمیجرکے مضمون کاکیسے کریں انتخاب

 

2) Education in USA: کیاآپ امریکہ میں تعلیم حاصل کرناچاہتےہیں؟کیسےکریں موزوں تعلیمی ادارے کی تلاش؟ جانئے یہاں

 

3) Education in US:امریکہ کے تعلیمی اداروں میں داخلے، آپ کیسے دے سکتے ہیں درخواست جانئے یہاں

 

4) Explained : تعلیم کے اعلیٰ معیار اور نصاب میں لچیلا پن کی بنا پر امریکی اعلیٰ تعلیم رکھتی ہے منفرد مقام

کیمپس کی زندگی کے علاوہ بھی سوزین جیسے طلبہ نے فوڈ بینک قائم کیے جن کے ذریعہ پریشان حال بین الاقوامی طلبہ اور ان کے گھر والوں کی مدد کی گئی۔وہ بتاتی ہیں ’’ اکثر لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ان کے پاس کرایہ ادا کرنے اور کھانے پینے اور دیگر سامان خریدنے تک کے پیسے نہیں تھے۔ ہم نے ۵ ہزار ڈالرس کے گفٹ کارڈ تقسیم کیے اور طلبہ کا غیر منفعت بخش تنظیموں کے نمائندوں سے رابطہ کروایا جنہوں نے ان کا کرایہ ادا کرنے میں مدد کی۔ ہم نے اپنی کاوشوں کی بدولت ۲۰۰ سے زائد طلبہ کی مدد کی۔ ‘‘

گو کہ بہت سارے طلبہ کو کووِڈ۔۱۹ عالمی وبا کے دوران خلل اور مسائل کا سامنا کرنا پڑامگر اس دشوار مرحلے کو یونیورسٹی کے وسائل، حساس اساتذہ اورمددگار ساتھیوں نے امریکہ میں تعلیمی حاصل کرنےکو ایک انمول موقع بنا دیا۔

ہلیری ہوپیک ایک آزاد پیشہ قلمکار ، ایک اخبار کی سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔ وہ کیلیفورنیا کے اورِنڈا میں رہتی ہیں۔

https://bit.ly/3rBxXuq

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ ، نئی دہلی

Preparing for go to America: امریکہ جانے کی تیاری کیسے کی جائے؟ جانیے امریکہ میں داخل ہونے کی کاروائی مکمل

مائیکل گیلنٹ

آپ کا اندراج ہو گیا، آپ نے اپنے کورس کا انتخاب بھی کر لیا اور آپ کا ویزا بھی آپ کے ہاتھ میں آ گیا۔ لیکن اس وقت کیا ہوگا جب آپ ہوائی جہازسے اتر کر امریکہ میں داخل ہونے والے ہیں؟

حفاظت اورسلامتی کے لیے امریکی حکومت نے ملک میں داخل ہونے کے واسطے کچھ ضابطے وضع کیے ہیں جن کی پاسداری کرنا امریکہ آنے والے ہر شخص پر لازمی ہے۔ یہ کاروائی بہت آسان اور تیزی سے مکمل ہونے والی ہے اور درست تیاری سے آپ ہوائی اڈے سے بلا تاخیر نکل سکتے ہیں۔

اس مضمون میں بھارت میں امریکی کسٹمس اور سرحدی حفاظت اتاشی دفتر کے ماہرین سے حاصل شدہ معلومات پیش کی جارہی ہیں جن کی مدد سے آپ امریکہ میں اپنے داخلے کو آسان بنا سکتے ہیں۔

اپنے دستاویزات کو تیار کریں،جمع کریں اور ان کو محفوظ کریں:

امریکہ میں داخل ہورہے بھارتی طلبہ کے لیے جو اہم دستاویزات ضروری ہیں ان میں درست پاسپورٹ، ایف ون اسٹوڈنٹ ویزا، اور منظور شدہ فارم آئی ۲۰ اے بی۔ یہ بہتر ہے کہ احتیاط کے لیے دستاویزات کی فوٹو کاپی اور اس کی ڈیجیٹل کاپی دونوں ہی ساتھ رکھی جائیں تاکہ اگر ہارڈ کاپی گُم ہو جائے تو اس کی سافٹ کاپی تو موجود رہے۔ مگر اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب آپ امریکہ میں ہوائی اڈے پر اتریں تو آپ کے ہاتھ میں ا ن دستاویزات کی اصل بھی موجود ہو۔


اس سلسلے میں معاون دستاویزات بھی کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسکول کا داخلہ خط، آپ کے اسکول کی دیگر معلومات، اور مالی دستاویزات جن سے معلوم ہو کہ آپ امریکہ میں قیام کے دوران اپنی کفالت خود کر سکتے ہیں۔

اس امر کو یقینی بنائیں کہ آپ کے تمام دستاویزات منظم ہوں اور عبوری دَور میں محفوظ مقام پر رہیں۔ جیسے ہی آپ ہوائی اڈے پر اترتے ہیں تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ خود سی بی پی افسر سے رابطہ کریں۔
اس وقت آپ کے تمام دستاویزات یا تو آپ کے ہاتھ میں ہو نے چاہئیں یا ایسی جگہ ہونے چاہئیں جہاں سے انہیں فوراً حاصل کیا جا سکتا ہو۔


اپنے ساتھ لے جانی والی چیزوں پر توجہ دیں:

امریکہ میں کھانے پینےکی چیزوں کے علاوہ بعض ادویہ پر بھی پابندی ہے۔ اگر آپ ان اشیا کے ساتھ پکڑے گئے تو آپ کے دستاویزات ضبط ہو سکتے ہیں، بلا وجہ تاخیر ہو سکتی ہے اور دیگر مسائل بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا،یہ اشد ضروری ہے کہ سامان باندھنے سے پہلے آپ اچھی طرح سے معلومات حاصل کرلیں۔

ماہرین کا مشورہ ہے کہ تمام بھارتی طلبہ سی بی پی ویب سائٹ کو اچھی طرح سے دیکھ لیں۔ یہاں خاص طور پر امریکہ میں کھانا لانا اور ان گوشوں کی جستجو سے پہلے ان کو بخوبی جانیں وغیرہ سیکشن کا اچھی طرح مطالعہ کرلیں۔

پُرسکون رہیں اور ہدایات پر عمل کریں:

امریکہ میں داخل ہونے کی کارروائی نہایت خوفناک لگ سکتی ہے، خاص طورپر پہلی مرتبہ سفر کرنے والوں کو۔ اگر آپ کو گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے تو گہری سانسیں لیں، سکون سے رہیں اورہدایات پر عمل کریں۔

حد سے زیادہ دوستانہ رویہ، بہت زیادہ بولنے اور جن دستاویزات کی ضرورت نہیں انہیں ساجھا کرنے سے گریز کریں۔ علاوہ ازیں کوئی بھی ایسی حرکت نہ کریں جس سے سی بی پی افسر کادھیان بھٹکے۔ ان تمام کے نتیجہ میں امریکہ میں آپ کے داخلے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

سچ بتائیں:

ہر وہ شخص جو کہ امریکہ میں داخلے کی کاروائی سے منسلک ہے وہ آپ کو یہ ضرور بتائے گا کہ سی بی پی افسر سے کسی بھی معاملہ میں کسی بھی وجہ سے دروغ گوئی کافی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اس میں کسٹم ڈکلیریشن فارم جو کہ تمام مسافروں کو، بشمول طلبہ کے، پہنچنے سے قبل بھرنا ہوتا ہے۔ ان دستاویزات میں ان اشیا کے متعلق سوالات ہوتے ہیں جو مسافرین امریکہ میں لےجا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ آپ پورا فارم ایمانداری کے ساتھ بھریں کیوں کہ غلط بیانی یا ذکر نہ کرنے کی صورت میں آپ پر جرمانہ عائد ہوسکتا ہے، تاخیر ہوسکتی اور دیگر مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔


یاد رہے کہ سی بی پی افسران سے زیادہ تر گفتگو مختصر، آسان اور سیدھی سادھی ہوتی ہے۔ پر سکون رہیے اور تمام سوالات کا ایمانداری سے جواب دیجئے تو آپ کاکام بہت جلد ختم ہو جائے گا۔

تیار رہیں کہ اجازت ملنے پر فوری طور پر روانہ ہوجائیں مگر یہاں بھی رویہ لچیلا رکھیں:

عام حالات میں امریکہ میں داخل ہونے کی کاروائی یعنی سی بی پی افسر تک پہنچنے سے لے کر اپنے سامان ہاتھ میں لے کرہوائی اڈہ سے باہر آنے تک کے تمام مراحل محض چند منٹوں میں ہی مکمل ہوجاتے ہیں۔ اگر تاخیر ہورہی ہے تواس کے لیے بھی خود کو تیار رکھیں ۔
اگر کئی بین الاقوامی طیارے ایک ساتھ آتے ہیں تو امیگریشن اور کسٹم کی قطار طویل ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کے دستاویزات یا جوچیزیں آپ امریکہ لا رہے ہیں ان میں کچھ گڑبڑ ہےتو بھی تاخیر ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں :

1) Education in USA:امریکہ میں تعلیم کے لیےمیجرکے مضمون کاکیسے کریں انتخاب

 

2) Education in USA: کیاآپ امریکہ میں تعلیم حاصل کرناچاہتےہیں؟کیسےکریں موزوں تعلیمی ادارے کی تلاش؟ جانئے یہاں

 

3) Education in US:امریکہ کے تعلیمی اداروں میں داخلے، آپ کیسے دے سکتے ہیں درخواست جانئے یہاں

 

4) Explained : تعلیم کے اعلیٰ معیار اور نصاب میں لچیلا پن کی بنا پر امریکی اعلیٰ تعلیم رکھتی ہے منفرد مقام

مگر خواہ کچھ بھی ہو، افسران کو اپنا بھر پور تعاون دیجیے اور لچیلا پن اختیار کیجیے۔ سی بی پی افسران کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ آپ کا کام بغیر کسی پریشانی اور رکاوٹ کے آسانی کے ساتھ انجام پائے۔

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں۔ وہ نیو یارک سٹی میں مقیم ہیں۔

https://bit.ly/3LLrXqG

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ ، نئی دہلی

Education in USA:امریکہ میں تعلیم کے لیےمیجرکے مضمون کاکیسے کریں انتخاب

نتاشا ملاس

میجرکے مضمون (Major Subject) کا  انتخاب ایک مغلوب  کردینے والا عمل ہے۔ اس موقع پر اکثر طلبہ خود سے سوالات پوچھتے اور جواب دیتے پائے جاتے ہیں ۔ ان میں ان کی دلچسپیاں کیا ہیں، چار برس  کے دوران کیا سیکھنا چاہتے ہیں اور کسی مخصوص میجر میں ان کے کریئر (Career)کے متبادل کیا ہیں، جیسے سوالات شامل ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو ڈرائنگ یا تھیٹر کا شوق ہے تو آپ  شاید آرٹ (Art)یا ڈراما(Drama) کو بطور میجر مضمون پڑھنے میں دلچسپی لیں گے۔اگر آپ جانتے ہیں کہ آپ قانون (Law) یا طب(Medicine) کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ ایک ایسے میجرمضمون کا انتخاب کریں گے جو آپ کو قانون یا میڈیکل اسکول میں داخلہ (Admission)حاصل کرنے میں مدد کرے گا۔

زیادہ تر کالج گرچہ آپ سے اپنی درخواست میں میجر کو واضح کرنے کے لیے کہتا ہے لیکن آپ کے پاس یہ اختیار بھی ہوسکتا ہے کہ آپ اپنے میجر کو ’’غیر واضح‘‘ رکھیں۔ مختلف مضامین کی تلاش اور مطالعے کے اپنے پہلے اور یہاں تک کہ دوسرے سال میں  عمومی کورسیز کا انتخاب مکمل طور پر ایک فطری عمل ہے۔ اس سے طلبہ کو مختلف مضامین میں بنیادی تعارف حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ ساتھ ساتھ میجر کے انتخاب میں بھی ان کے لیے راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔ آپ اپنے فیصلے میں خواہ کتنے ہی یقینی یا غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرتے ہوں، یاد رکھیں کہ آپ ابھی بھی اپنے فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔ ایک بار جب آپ اپنے کالج یا یونیورسٹی میں پہنچ جاتے ہیں تو آپ اپنے میجر کو تبدیل کرنے کے بارے میں کسی مشیر سے بات کرسکتے ہیں۔

جب آپ اپنی تلاش شروع کرتے ہیں تو پڑھائی کے لیے امریکہ آنے سے پہلے ایجوکیشن یو ایس اے  کے مراکز کے مشیروں سے بات کریں اور اس کے ساتھ ہی اپنے میجر کا اعلان کرنے سے پہلے یونیورسٹیوں میں تعلیمی مشیروں سے بھی تبادلہ خیال کریں۔ آخر کار آپ جس مضمون کا بھی انتخاب کریں، عام مشورہ یہی ہوتا ہے کہ ’’اپنے میجر سے آپ محبت کریں۔‘‘

پیش ہیں میجر کے انتخاب کے بارے میں ایجوکیشن یو ایس اے کی مشیر آستھا وِرک سنگھ کے ساتھ ایک انٹرویو کے بعض اقتباسات:

میجر کا انتخاب کرتے وقت طلبہ کو کس چیز  کی تلاش ہونی چاہیے؟ اس میں غور و خوض کے بعض عوامل کیا ہیں؟

آئیے اس کا آغاز اس بات کو سمجھنے سے کرتے ہیں کہ آخر میجر کیا ہے۔ کالج میں آپ کا میجر ایک ایسا مضمون ہے جس میں آپ اپنے کورسیز کی اکثریت کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کے تعلق سے عمیق افہام و تفہیم  کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ یہ وہ شعبہ ہے جس میں آپ اپنے مطلوبہ کورسیز مکمل کرنے کے بعد گریجویٹ ہوتے ہیں۔ زیادہ تر طلبہ چار سالہ تعلیمی کورس  کے پہلے یا دوسرے سال میں بھی عام کورسیز کا انتخاب کرتے ہیں کیونکہ اس سے تعلیم کے تعلق سے ایک مکمل نقطہ نظر کی اجازت مل جاتی ہے اور طلبہ دنیا کے بارے میں بہتر سمجھ حاصل کرتے ہیں۔


بعض طلبہ اپنے میجر کے علاوہ مائنر مضمون کا  بھی انتخاب کرسکتے ہیں۔ ایک مائنر مضمون وہ کورس ورک ہے جس میں آپ کسی اور شعبے کی تلاش کرتے ہیں لیکن اتنے گہرے اور وسیع پیمانے پر نہیں جتنا کہ آپ اپنے میجر کے لیے کرتے ہیں۔ ایک مائنر مضمون آپ کے میجر مضمون کی تکمیل کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بزنس ایڈمنسٹریشن میں مائنر یا کسی زبان میں مائنر کے ساتھ  پبلک رلیشنز میں میجر کا انتخاب ۔ بعض اسکول آپ کو ڈبل میجر لینے کی اجازت دیتے ہیں جہاں آپ دو میجر مکمل کرتے ہیں لیکن یہ آپ کے کام کے بوجھ میں اضافہ کرتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ ہر کسی کے لیےممکن نہ ہو۔

میجرکے  انتخاب کے وقت آپ خود سے مندرجہ ذیل سوالات کر سکتے ہیں:

آپ کس طرح کی زندگی کا تصور کرتے ہیں؟

آپ خود کو کہاں کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں؟

آپ کے اقدار کیا ہیں، کون سی چیز آپ کو ترغیب دیتی ہے، آپ کے لیے کیا اہم ہے، آپ کی ترجیحات کیا ہیں اور آپ کے لیے کون سی چیز اہمیت کی حامل ہے؟

تعلیم کے لحاظ سے آپ کی مثبت چیزیں کیا ہیں اور آپ اپنے بہترین گریڈ کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ آپ کون سے مضامین سیکھنا پسند کرتے ہیں اور کون سی آپ کی پسندیدہ کلاسیز ہیں؟

آپ اسکول یا اسکول سے باہر کون سی سرگرمیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں؟

اپنی قابلیت کا جائزہ  (آپ کس چیز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں)، آپ کی دلچسپیاں (آپ کیا کرنا پسند کرتے ہیں) اور آپ کی شخصیت (آپ کون ہیں اور آپ کے لیے کیا اہم ہے)، آپ کو ان موضوعات اور کریئر کی اقسام کو سمجھنے میں مدد کرے گی جنہیں حاصل کرنے میں آپ دلچسپی لے سکتے ہیں۔


کیا یہ درست ہے کہ ابھی کسی میجر کا انتخاب نہ کیا جائے اور پہلے ایک یا دو سال کے لیے دلچسپی کے مضامین کی تلاش کی جائے؟

یہ نہیں جاننا بھی بالکل درست ہے کہ آپ کیا تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اپنے کریئر کے لحاظ سے آپ کہاں جا رہے ہیں! جو درست نہیں ہے وہ یہ ہے کہ طلبہ بعض اوقات اہم معلومات کی تحقیقات اور انہیں اکٹھا کرنے کے عمل سے محروم رہ جاتے ہیں جو بالآخر انہیں یہ اہم فیصلہ کرنے میں مدد کرنے والی ہوتی ہے۔ بہت سے طلبہ ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ہی کسی مضمون کے انتخاب میں بے حد دباؤ محسوس کرتے ہیں اور بعض اوقات جلد بازی میں فیصلہ کرنے کے شکار ہو جاتے ہیں۔ سوالات پوچھ کر اپنے مستقبل کی  سرمایہ کاری کریں۔ شاید آپ نے اب تک ایک میجر کے لیے ذہن نہیں بنایا ہوگا لیکن آپ ایسی معلومات سے لیس ہوں گے جو آپ کو صحیح مضامین کو منتخب کرنے میں مدد کریں گی۔ بہت سے طلبہ امریکی یونیورسٹیوں میں ’’غیر طے شدہ‘‘ میجر والی درخواست دیتے ہیں اور پھر ایک سال کے بعد اپنے آخری میجر کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تمام استعمال اور فوائد کے ساتھ تلاش اور خود شناسی میں مدد کے لیے امریکی اعلیٰ تعلیم  کو  ڈیزائن کیا گیا ہے۔

ہندوستانی طلبہ کے لیے سب سے زیادہ مقبول میجرس کیا ہیں؟

انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کی جانب سے شائع کردہ ۲۰۲۱ء کی اوپن ڈورس رپورٹ کے مطابق مطالعے کے مندرجہ ذیل شعبے بین الاقوامی طلبہ کے لیے  سب سے زیادہ مقبول تھے*

انجینئرنگ

ریاضی اور کمپیوٹر سائنس

بزنس اینڈ مینیجمنٹ

سوشل سائنسیز

فزیکل اینڈ لائف سائنسیز

فائن اینڈ اپلائیڈ آرٹس

ہیلتھ پروفیشنز

کمیونکیشن اینڈ جرنلزم

ایجوکیشن

*یہ ڈیٹا بین الاقوامی طلبہ کے لیے ہے۔ امریکہ میں طلبہ کی بین الاقوامی آبادی میں بھارتی طلبہ کی تعداد ۱۸ فی صد ہے۔

میجر کا انتخاب کرتے وقت طلبہ کو کس چیز سے گریز کرنا چاہئے؟

میجر کا انتخاب لازمی طور پر ایک اہم اور اکثراوقات ایک  مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ اس لیے انتخاب کا عمل شروع کرتے وقت ایسی ممکنہ رکاوٹیں ہوتی ہیں جن سے گریز کرنا چاہیے:

طویل مدت کے لیے غور و فکرنہیں کرنا اور صرف تنخواہ یا آمدنی پر ہی غوروخوض کرنا

ساتھیوں کے دباؤ کے سامنے جھک جانا یا ہجوم کے پیچھے چل پڑنا

کسی اور کو خود پر اثر انداز ہونے دینا یا خود کے لیے انہیں انتخاب کرنے دینا

تجربے یا تحقیق کے بغیر انتخاب کرنا

صرف نتائج کے بارے میں خیال کرنا   اور اس کے سفر کے تعلق سے غور و فکر نہ کرنا

میجر کو رومانی بنانا

یہ بھی پڑھیں

 Education in USA:امریکہ میں تعلیم کے لیےمیجرکے مضمون کاکیسے کریں انتخاب

 Education in USA: کیاآپ امریکہ میں تعلیم حاصل کرناچاہتےہیں؟کیسےکریں موزوں تعلیمی ادارے کی تلاش؟ جانئے یہاں

 Education in US:امریکہ کے تعلیمی اداروں میں داخلے، آپ کیسے دے سکتے ہیں درخواست جانئے یہاں

امریکی یونیورسٹی میں داخلہ سے پہلے اور امریکہ میں داخل ہونے کے بعد طلبہ کو اپنے میجر کے انتخاب کے بارے میں کس سے مشورہ کرنا چاہیے؟

آپ خود شناسی کے ساتھ یا اپنے سرپرستوں، اسکول مشیروں، اساتذہ اور والدین کی مدد سے میجر کے انتخاب کا عمل شروع کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ایک ایسے پیشہ ور کی خدمات بھی  لے سکتے ہیں جو نفسیاتی جانچ کے ذریعہ طلبہ کی صلاحیت، دلچسپی اور شخصیت کی پیمائش کرکے طلبہ کو کریئر کے انتخاب کے لیے رہنمائی کرتا ہو۔ اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے کہ ذاتی طور پر آن لائن ٹیسٹ  کافی نہیں ہے بلکہ آپ کو ٹیسٹ کے نتائج کے تجزیے اور تشریح پر کسی پیشہ ور سے رہنمائی حاصل کرکے اس عمل کو مکمل کرنا ہوگا۔ بہت سے طلبہ اور کنبے غلطی سے یہ توقع کرلیتے ہیں کہ کوئی پیشہ ور صرف کریئر کے تین سرفہرست انتخابات کی نشاندہی کر دے گا ۔  اس کے بجائے یہ توقع کرنا حقیقت پسندانہ ہوتا ہے کہ کوئی پیشہ ور آپ کے  کریئرکے اعلیٰ مجموعے پر تبادلہ خیال کر سکتا ہے اور ان کے اندرسے آپ کو مزید تبادلہ خیال اور تحقیق کے بعد حتمی فیصلہ کرنے  کی ضرورت ہوتی ہے ۔

اپنی دلچسپیوں اور قابلیت کے بارے میں مزید دریافت کے بعض طریقے رضاکارانہ طور پر یا انٹرن شپ کے ذریعے قیمتی تجربہ حاصل کرنا ہیں۔  یہ آپ کو کام کی حقیقی دنیا میں ایک پریشان کن مرحلے سے گزرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور آپ کو اپنی مہارتوں کو نکھارنے اور کسی بھی کاروبار یا خدمت کے اہتمام کی سمجھ حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

کریئر سے متعلق باخبر فیصلے کرنے کے لیے مستقبل میں مواقع کے بارے میں قابل اعتماد معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔ کریئر اور ملازمت  کے رجحانات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ بہت سے مضامین کا اطلاق دوسرے شعبوں میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ہیلتھ سائنسیز کے شعبے پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی ڈاکٹر، اسپتال منیجر، صحت کے شعبے سے متعلق مصنف یا صحافی، ڈیٹا تجزیہ کار، ٹیکنالوجی ایکسپرٹ، ہیلتھ لیگل ایکسپرٹ وغیرہ بن سکتا ہے۔ کام اور ملازمتوں کے مستقبل کو سمجھنے کے لیے  ملازمتوں اور مارکیٹ کے رجحانات کے بارے میں مطالعہ ضروری ہے۔

میجرس، کریئرس اور ملازمت کے مواقع کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے آغاز کے لیے کچھ مقامات کا دورہ کیا جا سکتا ہے:

ایجوکیشن یو ایس اے  امریکی اعلیٰ تعلیم کا سرکاری ذریعہ ہے۔ ایجوکیشن یو ایس اے کے مشیر طلبہ کو داخلوں اور درخواست کے عمل کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں اور امریکی یونیورسٹیوں میں میجرس اور پروگرامس کے بارے میں مشورہ دے سکتے ہیں۔

امریکی یونیورسٹیوں میں اعانتی خدمات ، کریئر خدمات اور انٹر نیشنل اسٹوڈنٹ آفسیز کے بارے میں بتاتے ہیں۔

اسکول کونسلرس، پلیسمنٹ آفیسرس، کریئر کونسلرس جو کریئر کونسلنگ میں مہارت رکھتے ہیں،  کالج اور کریئر سے متعلق فیصلہ کرنے میں طلبہ کی رہنمائی کرتے ہیں۔

لائبریریوں اور کریئر کی رہنمائی سے متعلق مراکز جو کالج اور ملازمت کی تلاش میں مدد کے لیے فائدہ مند وسائل رکھتے ہیں۔

کورس کی ضروریات اور کالج میں آپ کو جو کلاسیں لینی ہوں گی انہیں سمجھنے کے لیے یونیورسٹی کی ویب سائٹس ذاتی رابطوں کے ساتھ نیٹ ورکنگ اور کسی ایسے شخص کے ساتھ رابطہ  جو مخصوص کریئرس اور کمپنیز کے بارے میں آپ کے سوالات کا جواب دے سکتا ہے۔

میجر کے انتخاب کا عمل شروع کرنے والے طلبہ کے لیے آپ کا کیا  مشورہ ہے؟

میجر کا انتخاب ایک تکلیف دہ تجربہ ہوسکتا ہے کیونکہ انتخاب کے لیے بہت سارے مضامین ہوتے ہیں۔ فطری طور پر طلبہ کی دلچسپی کئی مضامین میں ہو سکتی ہے ۔ لہٰذا، صرف ایک مضمون کے لیے عہد کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ طلبہ ہمیشہ ایک مائنر شعبے کا انتخاب کرنے اور اپنے منتخب شعبے کو وسعت دینے کے لیے اپنی دلچسپی کے  موضوعات  پر مختلف قسم کے ا ختیاری مضامین کے ساتھ اپنے میجر کی تکمیل کرسکتے ہیں۔

بہت سے وسائل ایسے ہیں جو روانگی سے پہلے کے مرحلے میں اور کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران طلبہ کے لیے دستیاب ہیں۔ طلبہ کو مختلف وسائل اور مشیروں سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ انہیں میجر کے انتخاب کے عمل میں مدد مل سکے۔

میجر کا انتخاب طلبہ کے لیے ایک پیچیدہ عمل ہوسکتا ہے لیکن اسے ذہن کو کشیدگی سے دوچار کرنے والا نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ دریافت کرنے، غور و خوض کرنے اور بالآخر لطف اندوز ہونے کا ایک بہترین موقع ہے۔

https://bit.ly/3NWObIh

نتاشا ملاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں ۔

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ ، نئی دہلی

 

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی جانب سے ہرسال 15 مارچ کوعالمی یوم Islamophobia منانے کا اعلان، ہندوستان کو تشویش

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (UN General Assembly) نے منگل 15 مارچ 2022 کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن یعنی عالمی یوم اسلامو فوبیا (International Islamophobia day) کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ یو این جی اے نے ایک قرارداد بھی منظور کی ہے۔ اس ضمن میں ہندوستان نے ایک مخصوص مذہب کے خلاف ’فوبیا‘ کو بین الاقوامی دن کے طور پر منانے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہندوسان کے مستقل نمائندہ ٹی ایس مورتی نے قرارداد کی منظوری کے دوران بحث میں حصہ لیا۔

ٹی ایس مورتی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کہا کہ مذہبی فوبیا کی عصری شکلیں بڑھ رہی ہیں۔ خاص طور پر مخالف ہندو، مخالف بدھ مت مخالف اور مخالف سکھ مت فوبیوں کی شکلوں کا ظہور ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ 193 رکنی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس قرارداد کو منظور کیا ہے، جسے پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے ایجنڈا آئٹم کلچر آف پیس کے تحت پیش کیا۔ اس کے بعد اب ہر سال 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

کن ممالک نے کی تائید:

اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کو افغانستان، بنگلہ دیش، چین، مصر، انڈونیشیا، ایران، عراق، اردن، قازقستان، کویت، کرغزستان، لبنان، لیبیا، ملائیشیا، مالدیپ، مالی، پاکستان، قطر، سعودی عرب، ترکی، ترکمانستان، یوگنڈا، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور یمن نے منظوری ظاہر کی ہے۔ مذکورہ قرارداد کی منظوری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے ٹی ایس ترومورتی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کہا کہ ہندوستان کو امید ہے کہ منظور کی گئی قرارداد ایسی نظیر قائم نہیں کرے گی جو منتخب مذاہب کی بنیاد پر فوبیا پر متعدد قراردادوں کا باعث بنے گی۔ جس کی وجہ سے یو این جی اے جیسا متحدہ پلیٹ فورم تقسیم کا شکار ہوسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہندومت کے 1.2 بلین سے زیادہ پیروکار ہیں۔ بدھ مت کے 535 ملین سے زیادہ اور سکھ مت کے 30 ملین سے زیادہ حاملین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم مذہبی فوبیا کے پھیلاؤ کو تسلیم کریں۔ بجائے اس کے کہ صرف ایک ہی مذہب کو خصوصی حیثیت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ ایسے مذہبی معاملات سے بالاتر ہو جو ہمیں امن اور ہم آہنگی کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے بجائے تقسیم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس کے بجائے ہمیں دنیا کے ساتھ ایک خاندان کی طرح برتاؤ کرنا ہوگا۔


’فوبیا صرف ابراہیمی مذاہب تک محدود نہیں‘

مسودہ قرارداد کو منظور کرنے کے بعد ترومورتی نے کہا کہ ہندوستان سام دشمنی (antisemitism)، عیسائی فوبیا یا اسلاموفوبیا سے متاثر ہونے والے تمام اقدامات کی مذمت کرتا ہے، لیکن اس طرح کے فوبیا صرف ابراہیمی مذاہب تک محدود نہیں ہیں۔ درحقیقت اس بات کا واضح ثبوت موجود ہے کہ کئی دہائیوں کے دوران ایسے مذہبی فوبیا نے درحقیقت غیر ابراہیمی مذاہب کے پیروکاروں کو بھی متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی فوبیا کی نئی شکلیں خاص طور پر ہندو مخالف، بدھ مت مخالف اور سکھ مخالف فوبیا کو آج کا بڑا مسئلہ ہے۔

مزید پڑھیں: Russia – Ukraine War: یوکرین میں تنازعہ کو روکنے ثالثی کی کوششیں تیزتر، اقوام متحدہ ہندوستان کےساتھ رابطے میں

ٹی ایس مورتی نے کہا کہ رکن ممالک کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 2019 میں 22 اگست کو پہلے ہی بین الاقوامی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا جا چکا ہے جس میں مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر تشدد کی کارروائیوں کے متاثرین کی یاد منائی جا چکی ہے، جس کی نوعیت مکمل طور پر شامل ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہاں 16 نومبر کو عالمی یوم رواداری (International Day of Tolerance) منایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ ہمیں ایک مذہب کے خلاف فوبیا کو بین الاقوامی دن کی سطح تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔

امتیازی سلوک، عدم برداشت اور تشدد:

اس دوران ترومورتی نے دنیا کے مختلف حصوں میں متعدد مذہبی برادریوں کے ارکان کے خلاف امتیازی سلوک، عدم برداشت اور تشدد کے واقعات میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ بات گہری تشویش کی باعث ہے کہ بعض ممالک میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد سمیت مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف عدم برداشت، امتیازی سلوک یا تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات سامنے آرہے ہیں۔

مزید پڑھیں: Russia – Ukraine War: روس ۔ یوکرین کے درمیان براہ راست مذاکرات کا مطالبہ، ’دہلی ماسکو اور کیف کے ساتھ رابطے میں ہے‘

 

اقوام متحدہ میں فرانس کے مستقل نمائندے نیکولاس ڈی ریویر نے تیرمورتی کے بعد بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے ایک بین الاقوامی دن بنانے سے یہ قرارداد اس تشویش کا جواب نہیں ہے، جس کی ہم سب ہر قسم کے امتیاز کے خلاف لڑنے کے لیے مشترکہ طور پر بات کرتے ہیں۔

AUKUS Alliance:آسٹریلیا،برطانیہ، امریکہ نے نیا اتحاد’اوکس‘( AUKUS) تشکیل دینے کاکیااعلان

ہند بحرالکاہل خطے میں چین کے بڑھتے اثر کا مقابلہ کرنے کے لئے آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ نے نئی سہ فریقی سیکورٹی اتحاد ’اوکس‘ (AUKUS Alliance) بنانے کا اعلان کیا ہے۔بدھ کے روز امریکہ کے صدر جو بائیڈن ، برطانیہ کے وزیراعظم بورنس جانسن اور آسٹریلیائی وزیراعظم اسکاٹ ماریسن کے درمیان ایک ورچوئل میٹنگ کے دوران ہند بحر الکاہل خطے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس نئے اتحاد کے قیام کا اعلان کیا گیا۔وائٹ ہاؤس نے کہا کہ آوکس اتحاد قائم کرنے کا اہم مقصد ہند بحر الکاہل خطے میں تین ممالک کے درمیان سفارتی، سلامتی اور دفاعی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تین ممالک کا اتحاد 21 ویں صدی کے چیلجنز سے نمٹنے کی اپنی مشترکہ صلاحیت کو بڑھائے گا۔

تینوں ممالک کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ ہند بحرالکاہل خطے میں اپنے مفادات کے دفاع کے لیے اہم ہے جبکہ تینوں رہنماؤں نے بحرہند اوربحرالکاہل کےعلاقےمیں دیرپاامن اوراستحکام یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ہم رائل آسٹریلیائی بحریہ کے لیے جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزوں کے حصول میں آسٹریلیا کی مدد کرنے کے مشترکہ عزائم کے لیے پرعزم ہیں۔اس کے علاوہ بائیڈن اور دیگر رہنماؤں نے زور دیا کہ آبدوزیں جوہری ہتھیاروں سے لیس نہیں ہوں گی۔اس موقع پر بائیڈن نے کہا کہ آسٹریلیا کو ایٹمی طاقت سے چلنے والی آبدوزیں بنانے کے قابل بنانے کا کام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ان کے پاس جدید ترین صلاحیتیں ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے تاکہ ہم تیزی سے خطرات سے بچ سکیں۔آسٹریلیائی وزیراعظم اسکاٹ ماریسن نےکہا کہ دنیا خاص طور پر ہمارا خطہ ہند بحرالکاہل خطے زیادہ پیچیدہ ہوتا جارہا ہے جبکہ ہند بحرالکاہل خطے کا مستقبل ہمارےمستقبل پر اثر انداز ہوگا۔

اس معاہدے کے بعد آسٹریلیا پہلی مرتبہ جوہری طاقت سے لیس آبدوز تیار کرسکے گا۔ وہ برطانیہ کے بعد دوسرا ملک بن جائے گا جو اپنے جہازوں میں امریکی نیوکلیائی پروپلسن ٹیکنالوجی استعمال کرسکے گا۔


اس کے علاوہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ وہ ہند بحرالکاہل خطے میں استحکام اور سلامتی کے تحفظ کے لیے مل کر کام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا میں سب سے پیچیدہ اور تکنیکی منصوبوں میں سے ایک ہو گا ، جو کئی دہائیوں تک جاری رہے گا۔ تینوں ممالک کے تکنیکی اور بحری نمائندے اگلے 18 مہینے آسٹریلیا کی اپ گریڈیشن کے بارے میں فیصلہ کرنے میں گزاریں گے ۔


خیال رہے کہ امریکہ ’کواڈ‘ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ گروپ کا بھی حصہ ہے جس میں آسٹریلیا، ہندوستان اور جاپان شامل ہیں۔ ان چاروں ملکوں کے رہنما اگلے ہفتے واشنگٹن میں براہ راست ملاقات کرنے والے ہیں۔

Study With USA:امریکہ میں ہندوستانی طلبہ کےلیےکیاہیں تعلیمی مواقع؟یہاں جانئے تمام تفصیلات

مائیکل گیلنٹ

کورونا وائرس کی عالمی وبا نے کروڑوں افراد کی زندگیوں اور ان کے منصوبوں میں رخنہ ڈال دیا ہے۔ان میں امریکہ میں زیرِ تعلیم ہندوستانی طلبہ  بھی شامل ہیں۔لیکن جہاں ایک جانب دنیا کے تمام ممالک اس بحرا ن سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں امریکی کالج دنیا بھر سے طلبہ کا واپس خیر مقدم کرنے کے لیے کوشاں نظر آرہے ہیں۔

ہندوستانی طلبہ امریکہ میں زیرِ تعلیم بین اقوامی طلبہ میں کافی اہمیت کے حامل ہیں۔امریکہ کے طول و عرض میں پھیلا ہر چھوٹا بڑا تعلیمی ادارہ ہندوستانی طلبہ کی منفرد خدمات کا معترف ہے۔جونیاٹا کالج پینسلوانیا میں واقع لبرل آرٹس کا ایک نجی ادارہ ہے۔ ادارے میں  داخلوں کے سینئر ایسوسی ایٹ ڈین ریجینَلڈ اونیڈو بتاتے ہیں  ”ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ہمارے اسکالر کالج کمیونٹی میں ثقافت اور زندگی کی روح پھونکتے ہیں۔‘‘

جب کہ کیلیفورنیا کے عوامی کمیونٹی کالج لاس پوسیٹاس کالج میں بین الاقوامی طلبہ کے لیے پروگرام رابطہ کار کے عہدے پر فائز  سِنڈی بلیرو کہتی ہیں ’’ امریکہ میں زیر تعلیم ہندوستانی طلبہ مستقبل کے سائنسداں ، محققین، کاروباری اور عالمی رہنماہیں۔“

امریکہ میں ہندوستانی طلبہ بجا طورتوقع کرسکتے ہیں کہ ان کا تعلیمی سفر انتہائی پرجوش اور تبدیلی والا ہوگا۔(علامتی تصویر: Shutterstock)۔

امریکہ میں ہندوستانی طلبہ بجا طورتوقع کرسکتے ہیں کہ ان کا تعلیمی سفر انتہائی پرجوش اور تبدیلی والا ہوگا۔(علامتی تصویر: Shutterstock)۔

وہ بتاتی  ہیں  کہ کالج کے ایسے بہت سے طلبہ ہیں جو کبھی امریکی حدود کے باہر نہیں گئے۔ ’’ لہٰذا ہندوستانی طلبہ کے ذریعہ قیمتی موقع فراہم ہوتا ہے جس سے کالج اور کلاس روم میں متنوع گروپوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ ثقافتوں ، اقدار اور طرزِ حیا ت  کے تبالہ سے نہ صرف طلبہ کو فائدہ  ہوتا ہے بلکہ ہر اس شخص کو فائدہ ہوتا ہے جو ان طلبہ کے رابطے میں آتا ہے۔ ‘‘

جِن ژانگ ٹیکساس میں واقع عوامی یونیورسٹی، ہیوسٹن یونیورسٹی کی بین الاقوامی طلبہ اور اسکالر خدمات آفس کی ڈائریکٹر ہیں۔ٹیکساس میں ہندوستانی طلبہ کی کیمپس میں تعداد دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ وہ بتاتی ہیں  ”نہ صرف یہ کہ ہندوستانی طلبہ بہترین تعلیمی کامیابیوں، قوی تحقیقی ہنر اور سخت محنت کے جذبہ سے سرشار آتے ہیں بلکہ وہ اپنے ساتھ زرخیز ثقافت بھی لاتے ہیں۔“

ہیوسٹن یونیورسٹی کی ہندوستانی طلبہ تنظیم نئے طلبہ کا گرم جوشی کے ساتھ خیر مقدم کرتی ہے اور انہیں کیمپس کی سرگرمیوں میں شریک کرتی ہے جس سے ہندوستانی روایات اور ثقافت کو فروغ ملتا ہے۔ژانگ بتاتی ہیں ’’ ہم اپنے آپ کو کافی خوش قسمت تصور کرتے ہیں کہ ہماری  برادری اتنی وسیع ہے۔ ہر سال دیوالی اور ہندوستانی یوم آزادی کے موقع پر جشن منا یا جاتا ہے جس میں رقص ہوتا ہے اور  طبلہ اور موسیقی کے دیگرساز بجائے جاتے ہیں ۔ان کے علاوہ لذیذ ہندوستانی کھانے بھی تیا ر کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔“

آئیووا میں واقع متوسط جسامت کی نجی یونیورسٹی ڈریک یونیورسٹی میں پروفیسر حضرات اور منتظمین اس امر پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ عالمی شہریت کے مشن کو پورا کرنے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔اور اس میں ہندوستانی طلبہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عالمی انگیجمنٹ اور بین اقوامی پروگرام کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر اینیک کائل کہتی ہیں”دنیا بھر سے طلبہ کا خیر مقدم کرنا اس کاوش کا کلیدی حصہ ہے۔ اور ہندوستانی طلبہ ڈریک یونیورسٹی میں اہم اور متنوع نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے طلبہ اگر ایک کلاس میں موجود ہوں تواس سے مختلف نقطہ ہائے نظر، مکالموں اور تجربات کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ اس طرح کے عالمی تعلیم کے ماحول سے سوچنے کی اہم صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور  وسیع النظری پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ایک کامل فرد تشکیل پاتا ہے ۔ اس سے زیادہ مشمولی کیمپس اور طبقاتی ماحول پیدا ہوتا ہے۔‘‘


تعلیم اور محل وقوع

جب ہندوستانی طلبہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کی تیاری کرتے ہیں تو کالج یا یونیورسٹی کے انتخاب ہی کی طرح ،کس امریکی کمیونٹی  میں تعلیم حاصل کرنی ہے ،اس کا انتخاب بھی کافی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ گو نیو یارک اور لاس انجیلس جیسے مشہور شہر عالمی سطح پر خاصے شہرت یافتہ ہیں، مگر ہندوستانی طلبہ کو چاہئے کہ وہ اپنے آ پ کوصرف ان ہی معروف شہروں تک محدود نہ رکھیں۔کائل کہتی ہیں ”امریکہ کے چھوٹے شہر مثلاً ڈی موئن تک بھی کافی آسانی سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے جو شمولیت اور متاثر کرنے کے لیے ہزارہا مواقع پیش کرتا ہے۔ہم پیشہ ورانہ تیاری کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور آپ کے پورے ڈگری پروگرام کے دوران سیکھنے کا بہترین تجربہ بھی فراہم کرتے ہیں۔چاہے آپ کی دلچسپی ڈیٹا انالٹکس میں ہو یا فارمیسی میں، ہمارے پاس سیکھنے کے بہترین مواقع موجود ہیں جن سے آپ اپنی گریجویشن تعلیم مکمل کرنے تک اپنی لیاقت میں بیش بہا اضافہ کرسکتے ہیں۔“

ہندوستانی طلبہ لاس پوسیٹاس جیسی جگہ کا بھی بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔بلیرو بتاتی ہیں ”ہم دنیا بھر میں مشہور سان فرانسسکو اور سلی کون وَیلی کے قریب واقع ہیں۔ اس سے ٹیکنالوجی کی جدید ترین تنظیموں سے رابطہ آسان ہوگیا ہے۔‘‘

جب کہ ژانگ بتاتی ہیں ’’ ہیوسٹن شہر دنیا بھر میں ’توانائی کا دارالخلافہ‘ کہلاتا ہے اورچونکہ یہاں ناسا کا صدر دفتربھی واقع ہے اس لیےیہ ’شہرخلا ‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہاں بین اقوامی طلبہ کے واسطے  انٹرن شپ اور تحقیق کے بہت سارے مواقع موجود ہیں۔ ہم عالمی طلبہ کی ہمت افزائی کرتے ہیں کہ وہ ان مواقع کا فائدہ اٹھائیں اور عملی طور پر اپنے علم میں اضافہ کریں جس سے ان کو تجربہ حاصل ہوگا اور ان کے کوائف بھی قوی ہوں گے۔“


کامیابی کے لیے اقدامات

آدھی دنیا سے دور تعلیم حاصل کرنے سے وحشت تو ہوتی ہے، لیکن امریکی ادارے اس امر کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ یہ مراحل آسانی سے طے ہوجائیں۔ جونیاٹا کالج کے ہندوستان کے لیے مخصوص داخلہ افسرمِتّل سیٹھ کہتے ہیں”جونیاٹا کالج کا عملہ نہایت خوش اخلاق اور گرم جوشی سے خوش آمدید کہنے والا ہے۔اس لیے ہندوستانی طلبہ بجا طورتوقع کرسکتے ہیں کہ ان کا تعلیمی سفر انتہائی پرجوش اور تبدیلی والا ہوگا۔ یہاں طلبہ کی مستقل حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ان کے اپنے اہداف کے حصول کی جانب ان کے مشیروں، اساتذہ، احباب اور پوری کمیونٹی کی طرف سے رہنمائی کی جاتی ہے۔“

غیر ملکی طلبہ کے لیے دیگر تعلیمی ادارے بھی اسی طرح کی امدادفراہم کرتے ہیں۔ بلیرو بتاتی ہیں ”ہم طلبہ کی کامیابی کے لیے پُر عزم ہیں ،کم قیمت پر بہترین تعلیم دیتے ہیں اور ہمارے یہاں ماحول بھی محفوظ اور گرم جوشی والا ہے۔ ہمارے یہاں بین اقوامی طلبہ کے  لیےمخصوص رابطہ کار ہوتے ہیں جو ہر طالب علم کے ساتھ داخلہ سے لے کر تعلیم کے دوران اور پھر ٹرانسفر تک تمام مراحل میں کافی محنت کرتے ہیں۔“

امریکہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سیٹھ  کی تجویز ہے کہ ہندوستانی طلبہ امریکی تہذیب کو سمجھنے اور دریافت کرنے کی کوشش کریں اور مقامی افراد اور طبقات سے جتنا زیادہ ہو سکے گھلنے ملنے کی کوشش کریں ۔ ہندوستانیوں اور امریکیوں کے درمیان ذاتیات کو لے کر مختلف تصورات ہو سکتے ہیں اس لیے اس حساس معاملہ کو احتیاط اور التفات سے حل کیا جائے۔

ہندوستانی طلبہ اگر امریکہ میں تعلیم کے دوران زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو سیٹھ زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں رابطہ سازی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ ان کا نیٹ ورک جتنا قوی ہوگا، کالج کے اندر اور اس کے باہر  ان کی حیثیت اسی قدر مضبوط ہوگی۔ ایک ایسا طالب علم جس کا بہت اچھا نیٹ ورک ہوتا ہے اسے ضرورت کے وقت لوگوں سے مددملنے کی زیادہ امید ہوتی ہے۔اپنے ہم عصروں، اتالیقوں، اساتذہ، دوستوں، سینئروں اور ہر کسی سے اچھے تعلقات بنا کر رکھنے سے نہ صرف یہ کہ طلبہ امریکہ میں اپنے آپ کو بہتر محسوس کریں گے بلکہ ان کو ایسے افراد کی تلاش کرنے میں بھی مدد ملے گی جو ان کی ترقی کے لیے معاون ہوں گے۔“


چاہے بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کریں یا چھوٹے شہر میں، بڑی جامعات میں یا چھوٹے کالجوں میں ہندوستانی طلبہ کو چاہئے کہ وہ  اس موقع کو دریافت کرنے اور اسے مہم جوئی کی طرح لیں۔ بلیرو کہتی ہیں ’’ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے سے ہندوستانی طلبہ کو ایک نئے ملک میں زندگی کا تجربہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سیکھنے اورامریکی تہذیب میں غرق ہونے کا  بہترین موقع ملتا ہے۔“

سیٹھ اس میں بعض اور چیزوں کا اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”طلبہ کو اپنا ذہن کھلا رکھنا چاہیے اور خود کو اپنے گوشہ تسکین سے باہر لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘

کائل ان سے متفق نظر آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں  ”تشریف لائیے اور  یہاں موجود بہترین مواقع، مضبوط برادری کا خود مشاہدہ کیجئے۔‘‘

 

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

https://spanmag.com/ur/education/opening-doors-to-global-learning/20210702