روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے منگل کو اپنے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی سے فون پر بات کی۔ فائل فوٹو ۔

ولادیمیر پوتن نے ایران کے صدر کو کیا فون، اسرائیل پر حملے کو لے کر جانئے کیا ہوئی بات

ماسکو : اسرائیل اور ایران کے درمیان پیدا ہوئی حالیہ کشیدگی کے بعد روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے منگل کو اپنے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی سے فون پر بات کی۔ روسی صدر کے رہائشی کمپلیکس کریملن نے یہ اطلاع دی ہے۔ کریملن نے کہا کہ ٹیلی فون پر بات چیت میں ایرانی صدر نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف ایران کے اقدامات مجبوری اور محدود نوعیت کے ہیں، اور وہ اس معاملے کو مزید آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں ۔

پوتن اور رئیسی نے دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیلی حملے اور تہران کے جوابی اقدامات کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ روسی صدر نے امید ظاہر کی کہ تمام فریقین مناسب تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور ٹکراو کے نئے دور کو روکیں گے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دونوں اعلیٰ رہنماؤں کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ایرانی فریق کی پہل پر ہوئی۔

دراصل دو ہفتے قبل اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصلیٹ کی عمارت پر مبینہ طور پر حملہ کیا تھا جس کے جواب میں ایران نے 13 اپریل کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد شروع ہوئی دہائیوں کی دشمنی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایران نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کیا ہے۔

ایران نے اسرائیل پر حملے کے دوران سینکڑوں ڈرونز، بیلسٹک میزائل اور کروز میزائل داغے۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے اپنے فضائی دفاعی نظام اور لڑاکا طیاروں اور امریکی قیادت والے اتحاد کی مدد سے 99 فیصد ڈرونز اور میزائلوں کو تباہ کر دیا۔ امریکہ ، فرانس، برطانیہ وغیرہ جیسے ممالک نے اسرائیل پر ایران کے حملے کی مذمت کی ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ چھ ماہ سے جنگ جاری ہے اور اس حوالے سے اسرائیل اور ایران کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس جنگ کے آغاز کے چند روز بعد ہی لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ نے اسرائیل کی شمالی سرحد پر حملہ کردیا تھا اور اس کے بعد دونوں فریق تقریباً روزانہ ایک دوسرے کے اہداف پر حملے کر رہے تھے۔

اس کے علاوہ عراق، شام اور یمن میں ایران کے حمایت یافتہ گروپس اسرائیل کو نشانہ بناتے ہوئے راکٹ اور میزائل داغ رہے تھے۔ صورتحال پہلے بھی کافی سنگین تھی اور اب ایران کے براہ راست حملے کے بعد خطرناک صورتحال تک پہنچ گئی ہے۔